ہر مرد ذہنی بیمار نہیں ہوتا


میری بیٹی نے جب چلنا سیکھا تو ایک دوست نے واقعہ سنا دیا اپنے ایک کزن کا جس کے سر پر سیڑھیوں سے گر کر شدید چوٹ آئی کہ اس کی ذہنی نشوونما رک گئی اور وہ چالیس سال کی عمر میں بھی دو سال کے بچے کی طرح پیش آتا تھا۔ میں اس بات سے اتنا گھبرائی کہ میں نے اپنی بیٹی کو سیڑھیوں کی طرف جانے سے منع کرنا شروع کر دیا اور میرے اس عمل سے اس کے اندر بھی اتنا شدید خوف بھر گیا کہ وہ چار سال کی عمر میں بھی سیڑھیاں چڑھتے اترتے شدید گھبراتی تھی۔ خیر میاں صاحب نے جونہی اس کے خوف کو محسوس کیا انہوں نے اسے اعتماد دینا شروع کیا اور ساتھ میں مجھے بھی اور دونوں کو سکھایا کہ سیڑھیوں کو چڑھے اترے بغیر کوئی چارہ نہیں مگر اگر بچہ دھیان سے چلے تو اللہ کے فضل سے کوئی حادثہ رونما نہ ہو گا۔ خیر بے حد کوشش سے انہوں نے صاحبزادی کے دل سے اس خوف کو نکالا۔

زینب والے واقعہ نے بھی سب والدین کے دل و دماغ میں شدید خوف بھر دیا ہے۔ میں بھی چند دن قبل تک کچھ سوچنے یا لکھنے کے قابل نہ تھی اور وسوسوں کا شکار تھی۔

یہ بات تو ماننا پڑے گی کہ ایک ننھے بچے کو بغیر نگرانی کہ اگر سڑک یا گلی میں چھوڑ دیا جائے تو اس کے ساتھ کوئی نہ کوئی حادثہ رونما ہو سکتا ہے، مثلا گاڑی کے نیچے آ جانے کا، راستہ بھول جانے کا یا کسی بھی اور نوعیت کا حادثہ۔ میرے گھر کام کرنے والی لڑکی کی چھوٹی پانچ سالہ بہن گھر میں موجود پانی کی زیر ذمین ٹینکی میں گر کر فوت ہو گئی کیونکہ ماں باپ دونوں اس کو اکیلا چھوڑ کر چلے گئے تھے اور کوئی بالغ فرد ایسا گھر میں موجود نہ تھا جو اس کو نکال سکتا، یہ سراسر والدین کی کوتاہی تھی۔ اسی طرح زینب کے واقعہ میں ایک امر جو واضح ہوا وہ والدین کی کوتاہی کا تھا۔ اس بات کے نتیجہ میں پڑھے لکھے والدین نے فورا اپنے بچوں کو اچھے برے لمس اور اچھے برے لوگوں سے محتاط رہنے کے بارے میں سمجھانا شروع کر دیا۔

زینب کے سانحے کے بعد سوشل میڈیا پر کچھ لوگوں نے کہا کہ سات سالہ بچیوں کے لباس کو ایک بالغ عورت کے لباس کی طرح مکمل باپردہ ہونا چاہیے۔ کچھ نے کہا کہ بچیوں کے باہر نکلنے پر ہی پابندی ہونا چاہیے۔ دوسرے لوگ وہ ہیں جنہوں نے کہا کہ نصاب میں بطور مضمون بچوں کو جنسی آگہی کی باتیں پڑھانا چاہییں، یہ بات مجھے درست تو لگی مگر کم از کم سرکاری سکولوں کے اساتذہ کو ذہن میں لاتے ہوئے ایسی حساس نصاب سازی اور اس کا اطلاق مجھے بہت مشکل لگا کیونکہ ہمارے نصاب میں تو ابھی بنیادی اخلاقیات تک کا مضمون شامل نہیں۔

میں نے نورالہدی شاہ صاحبہ کا کالم بھی رہنمائی کے لئے پڑھا، زیادہ تر باتیں ان کی دل کو درست لگیں مگر بصد احترام مجھے ان کی کہی کچھ باتوں سے بھی اختلاف ہوا۔ میں نے کافی دفعہ ایک طشتری میں چائے یا پانی رکھ کر ایک بچی کو مہمان کے سامنے پیش کرتے ہوئے سوچا اور مجھے وہ تصویر دکھائی نہیں دی جو وہ دکھانا چاہ رہی تھیں۔

جب ہمیں لگا کہ سرکاری سکول اچھے نہیں، تو ہم نے بچوں کو پرائیویٹ سکولوں میں بھیجنا شروع کر دیا( یہ میں ایک خاص معاشی حد سے اوپر اور پڑھے لکھے طبقے کی بات ہی کروں گی)۔ جب لگا سرکاری ہسپتالوں میں اچھا علاج نہیں تو پرائیویٹ ڈاکٹروں کو دکھانا شروع کر دیا، جب لگا کہ عدالتوں میں انصاف نہیں تو ڈاکووں کو کاروں تلے کچلنا شروع کر دیا اور جب لگا کہ زینب کے قاتل جیسے درندے دندناتے پھر رہے ہیں تو اپنے ہی باپ، بھائی، چاچا، ماموں، تایا جیسے محرم رشتوں سے ہی دور رہنے کے طریقے وضع کرنے شروع کر دیے؟ یہ بات درست ہے کہ ایک درندہ صفت بھیڑیا ان میں بھی پایا جا سکتا ہے مگر اس کے نشاندہی کے اور پیمانے ہیں، اور بہت سی نشانیاں ہیں جن پر غور کیا جا سکتا ہے۔ اکثر گھروں میں بچے اپنے تمام مرد اور خواتین بزرگ رشتہ داروں کو گلے لگ کر ملتے ہیں اور اگر میں اپنی بات کروں تو مجھے اپنے نوے سالہ ماموں کی شفقت کی خوشبو یہاں بیٹھے بھی محسوس ہوتی ہے۔

بہت سے گھرانوں میں باپ بیٹیوں سے خاص انسیت رکھتے ہیں اور ان سے لڑکوں کی نسبت زیادہ شفقت سے پیش آتے ہیں۔ ابھی بھی جب میں میکے جاتی ہوں تو والد صاحب کے گلے لگ کر ان سے ماتھے پر بوسہ لے کر ملنا ہی مجھے اچھا لگتا ہے۔ ہمارے ہاں کوئی بھی رشتہ دار آئے تو سب ایک بڑے کمرے میں مل جل کر بیٹھ کر بات چیت کرتے ہیں چاہے بزرگ ہوں یا کزنز۔ ہاں البتہ سونے کے کمروں کی یہ پرائیویسی ہے کہ لڑکے کا ہو یا لڑکی کا، یا والدین کا، کوئی بھی دوسرا شخص اس کمرے میں دستک دے کر ہی جاتا ہے۔ چھوٹے بچوں کو گود میں اٹھانا، پیار کرنا یا بوسہ دینا ایک نرم دل محبت کرنے والے رشتہ دار کا ایک فطری عمل ہے۔ اگر اس عمل کے دوران کسی ایک شخص کی نیت میں کھوٹ ہے تو مائیں اس کھوٹ کو ڈھونڈنے کے لئے محتاط رہیں، بچے کی بات پر اعتبار کریں اور حفاظتی قدم اٹھائیں مگر اگر نابالغ ننھا بچہ کسی قریبی رشتہ دار کو پسند کرتا ہے اور رشتہ دار اس پر شفقت رکھتا ہے تو اسے اس کے گلے لگنے یا بوسہ لینے سے بھی مت روکیں۔

میرا مدعا یہ ہے کہ میری بیٹی نے کل کو اسی معاشرے میں رہنا ہے۔ میں اسے جتنا خود مختار بنانا چاہتی ہوں اس میں اسے کل کو مردوں کے شانہ بشانہ کام کرنا پڑے گا۔ میں اسے اپنی ذاتی حدود مقرر کرنا بھی سکھانا چاہتی ہوں مگر ساتھ ہی میں بغیر ڈرے اچھے مردوں پر اعتبار کرنا بھی۔ میں نہیں چاہتی کہ سیڑھیوں کے خوف کی طرح وہ ہر مرد سے دور ہٹ کر خود کو محفوظ سمجھے بلکہ میں یہ چاہتی ہوں کہ وہ اچھے مردوں کے بارے میں ایک اعتماد اور تحفظ کا رشتہ محسوس کر سکے۔ وہ ہر مرد کو ایک ناقابل اعتبار بھیڑیا مت سمجھے، نہ تو ایک شک اور فاصلے کا رشتہ بنائے اور نہ ہی خوف کا بلکہ وہ اچھے اور برے حضرات اور اچھی بری نیت کا فرق کرنا سیکھے۔ وہ مجھ سے ہر معاملے میں کھل کر بات کر سکے تاکہ میں برائی کہ بارے میں آگہی میں اس کے مدد کر سکوں۔ مگر ایک صحت مند بچے کے لئے ہر عمر کے شخص سے خواہ وہ کسی صنف کا ہی ہو ایک صحتمند میل جول بے حد ضروری ہے تاکہ اس کی ایک مکمل شخصیت تشکیل پا سکے۔

آگہی، احتیاط، شک اور وسوسوں کے بیچ بھی ایک فرق ہوتا ہے۔

ہم ایک معاشرہ بن کر، ایک ملک بن کر اور ایک نظام بنا کر اس لئے تو نہیں بیٹھے کہ ہم ہر چیز کی ذمہ داری اور اس کا حل خود تلاش کرتے جائیں اور نظام کی ساری کمزوریوں سے سمجھوتا کر کے اپنے پیارے رشتوں کو ہی خود سے دور کر کے خود کو محفوظ سمجھیں؟ زینب کے والدین کی کوتاہی ہے کہ انہوں نے ایک ننھے بچے کو ایک حد سے زیادہ اکیلا چھوڑ دیا مگر ساتھ میں نظام کی کوتاہی ہے کہ اس قاتل کو پکڑے جانے کا کوئی ڈر یا خوف نہیں تھا تو وہ اس حد تک گزر گیا۔ ہم کیوں مل کر حکومت سے مطالبہ نہیں کرتے کہ نظام انصاف کو بہتر بنائے؟ زور دینا ہے تو سب لوگ مل کر حکومت سے فوری اور درست انصاف لینے پر دیں نہ کہ ہر مرد اور ہر رشتے پر شک کرنے پر۔ اللہ سب کے بچوں کی حفاظت فرمائے۔

مریم نسیم

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

مریم نسیم

مریم نسیم ایک خاتون خانہ ہونے کے ساتھ ساتھ فری لانس خاکہ نگار اور اینیمیٹر ہیں۔ مریم سے رابطہ اس ای میل ایڈریس پر کیا جا سکتا ہے maryam@maryamnasim.com

maryam-nasim has 65 posts and counting.See all posts by maryam-nasim