فتووں کی بھاری قیمت، سعودی عرب اور پاکستان


کچھ عرصہ قبل گزارش کی تھی کہ ہم سعودی عرب سے کم و بیش 40 سال پیچھے چل رہے ہیں؛ جو کام وہاں 1979 کے بعد ہونا شروع ہوئے، وہ ہماری ریاست آج کر رہی ہے؛ خبریں گردش میں ہیں کہ ہزاروں علمائے کرام اور مفتیان دین سے فتوے حاصل کیے گئے ہیں۔

اگر ہم سعودی تاریخ کو دیکھیں تو 1979 میں حاصل کیے گئے فتووں کی ایک قیمت تھی، ان فتووں کی شرائط جو مفتی اعظم سعودی عرب عبدالعزیز بن عبداللہ بن باز کی سربراہی میں درجنوں علماٴ نے سعودی فرماں روا خالد سے منوائیں۔ Robin Wright اپنی کتاب Sacred Rage کے صفحہ نمبر 155 میں اس بات کا سرسری سا ذکر کرتی ہیں، یاد رہے کہ یہ وہ اقدامات ہیں جو بہت واضح تھے، درون خانہ دیگر شرائط کیا تھیں، ان پر بہت کم لکھا گیا ہے، فی الحال ہم دیکھتے ہیں کہ وہ کون سے عملی اقدامات تھے جو سعودی سرکار نے فوراً اٹھائے، رابن رائٹ کے مطابق

  • • ان تمام دکانداروں کے ساتھ سختی سے نمٹا جانے لگا جو نماز کے اوقات کے دوران اپنی دکانیں بند نہیں کرتے تھے
    • اخبارات کو سخت تنبیہ کی گئی کہ وہ خواتین کی تصاویر چھاپتے وقت اسلامی شرعی احکامات کی سخت پابندی کریں گے
    • وزارت داخلہ نے ان تمام کمپنیوں کو نوٹسز جاری کیے جن کے ہاں خواتین ملازمت کرتی تھی، ان کمپنیوں میں کئی بین الاقوامی کمپنیاں بھی شامل تھیں۔ بادی النظر میں خواتین کی ملازمت پر غیر اعلانیہ پابندی عائد کر دی گئی
  • • شاہی خاندان نے عوام سے میل جول میں اضافہ کر دیا، چونکہ سعودی معاشرہ بنیادی طور سے ایک قبائلی معاشرہ ہے تو شاہی خاندان نے تمام قبائلی عمائدین کے تمام اجلاسوں میں جانا شروع کر دیا
    • قبائلی عمائدین کو سعودی شاہی خاندان کی طرف سے دیے جانے والے تحائف کی تعداد میں نہ صرف کہ کئی گنا اصافہ ہو گیا بلکہ دیے جانے والے تحائف قیمتی سے قیمتی تر ہوتے چلے گئے
    • شاہ فیصل کے دور میں خواتین کی بیرون ملک اعلیٰ تعلیم کے لیے دیے جانے والے سکالرشپس پر غیر اعلانیہ پابندی عائد کر دی گئی
  • • چونکہ سعودی علماْ کے نزدیک کتا ایک ناپاک اور نجس جانور ہے، تمام دکانوں سے کتوں کو دی جانے والی خوراکیں غائب ہو گئیں
    • کئی ایک سوئمنگ پولز (جو پرائیویٹ کمپاونڈز میں موجود تھے اور وہاں پر مخلوط تیراکی کی اجازت تھی) کو نہ صرف خشک کر دیا گیا بلکہ ان کو مٹی اور ریت وغیرہ سے بھر دیا گیا
    • چونکہ چند علماْ کے نزدیک ایسے کھلونے رکھنا شرک تھا تو کھلونوں کی دکانوں سے ٹیڈی بئیرز، گڑیا وغیرہ کم از کم وقتی طور پر غائب کر دی گئیں

دلچسپ بات یہ ہے کہ قریب قریب یہی مطالبات اس گروہ کے تھے جنہوں نے بیت اللہ پر حملہ کیا تھا، یرویسلاف ٹرائفیموف اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ بن باز کے فتوٰی کی روح یہ تھی کہ آپ حملہ آوروں کو مار ڈالیں مگر چونکہ حملہ آوروں کے مطالبات عین شرعی ہیں، لہٰذا فتوٰی جاری کرنے سے قبل اس بات کی شاہی ضمانت دی جائے کہ حملہ آور گروہ کے تمام مطالبات ہماری سفارشات کی روشنی میں مانے جائیں گے، ریاض کے شاہی محل میں پانچ روز تک جاری رہنے والے ان مذاکرات کے نتیجہ میں بن باز کی سربراہی میں علماْ کی کمیٹی نے فتوٰی جاری کر دیا کہ بیت اللہ پر حملہ آور گروہ پر جوابی حملہ کیا جا سکتا ہے، مگریہ کوشش کی جائے کہ جانی نقصان کم سے کم ہو، بیت اللہ پر ڈائریکٹ گولیاں نہیں برسائی جائیں گی اور بعد میں دی جانے والی تمام سزائیں شیخ بن باز کی منظوری کے بعد دی جائیں گی۔

ہم نے دیکھا کہ سعودی انتہا پسندی میں 1979 کے بعد بہت زیادہ اضافہ ہو گیا، القائدہ جیسی تنظیموں کا قیام عمل میں آیا، سعودی عرب کی مسلم ممالک کو دی جانے والی مذہبی امداد میں کئی گنا اضافہ ہوا، کم از کم پاکستان کی حد تک ایک خاص مکتب فکر کو پروان چڑھایا گیا، اس مکتبہ فکر کی مساجد و مدارس کی تعداد میں یکا یک اضافہ ہونا شروع ہو گیا؛ اور اب حالات ہمارے سامنے ہیں کہ ہمارے معاشرے میں انتہا پسند اپنے عروج پر ہے، قوت برداشت تقریباً ختم ہو چکی ہے، کسی دوسرے کی بات سننے کا حوصلہ بھی نہیں رہا اور بجائے یہ کہ بات سن کر سمجھی جائے ہماری اکثریت تشدد پر اتر آتی ہے۔

یہ تو وہ کام تھے جو سعودی حکومت نے کیے، صرف چند فتووں کے حصول کے لیے؛ اب محمد بن سلمان نے اس بات کو سمجھ لیا ہے کہ مذہبی انتہا پسندی زیادہ عرصے تک نہیں چل سکتی، اور اگر اس پر قابو نہ پایا گیا تو بہت جلد یہ بادشاہت کے لیے خطرہ بن جائے گی، اس نے کچھ عرصہ قبل کئی مذہبی رہنماوْں کو قید میں ڈال دیا اور پھر سعودی معاشرے کے سدھار پر کام کرنا شروع کیا، جس میں خواتین کو کھیل کے میدانوں میں بطور تماشائی داخل ہونے کی اجازت دی گئی، شاہی فرمان کے تحت خواتین کو گاڑی چلانے کی اجازت دی جا رہی ہے، ملک میں سینما ہالز دوبارہ کھل رہے ہیں، غیر مذہبی نوعیت کی سیرو سیاحت کے لیے پہلی بار ویزوں کا اجرا کیا جا رہا ہے وغیرہ وغیرہ

واپس آتے ہیں اس موضوع کی طرف کہ ایسی خبریں گردش میں ہیں کہ حکومت پاکستان نے ہزاروں علمائے کرام کے ساتھ مل کر ایک کتابچہ مرتب کیا ہے، جس میں ایسے فتوے شامل ہیں جو مسلح گروہوں کو افواج پاکستان پر حملوں سے روکتے ہیں وغیرہ وغیرہ۔

بنیادی نکتہ یہ ہے کہ ان فتووں کے حصول کے لیے کیا قیمت ادا کی جائے گی، وہ کون سے ایسے معاہدے ہیں جو علماْ اور اہل اقتدار کے درمیان ہوئے ہیں جن کی بنا پر ایسے فتوے جاری ہو رہے ہیں، ان فتووں کے ہمارے معاشرے پر ابھی اور دور رَس کیا اثرات مرتب ہوں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).