فلسفے کے بڈھے استاد کا قتل


بہت پرانے زمانے میں ایک بہت بوڑھا آدمی ملک یونان میں رہتا تھا۔ وہ 470 میں پیدا ہوا اور 399 میں اسے مار دیا گیا۔ اب تم پوچھو گے کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک آدمی بعد میں پیدا ہو اور اس سے پہلے ہی مر جائے؟ تو صاحبو، وہ اتنا پرانا زمانہ تھا کہ اس میں وقت الٹا چلتا تھا۔ فلسفے کے اس بڈھے استاد کا نام سقراط تھا۔

سقراط کا باپ ایک سنگ تراش تھا اور ماں دائی۔ وہ ایتھنز کی فوج میں لازمی بھرتی کے قانون کے احترام میں نیزہ باز کی حیثیت سے شامل ہو کر سپارٹا سے جنگ لڑتا رہا۔ اس کی شہرت ایک بے خوف اور کارگر نیزہ باز کی تھی۔ اس نے ایک جنگ میں تن تنہا دشمن سے اپنے جرنیل کی جان بچائی۔

سقراط نوجوانوں سے بات چیت کرنا پسند کرتا تھا۔ انہی دنوں اس کے ایک دوست نے ڈیلفی کے مندر میں جا کر کاہنہ سے پوچھا کہ کیا کوئی سقراط سے بھی زیادہ دانشمند ہے؟ جواب ملا کہ سقراط سے زیادہ دانشمند کوئی دوسرا نہیں ہے۔

سقراط کو اس بات پر یقین نہیں آیا کہ وہ دانش مند ہے۔ وہ خود کو جاہل مانتا تھا۔ اس نے ایتھنز کے مشہور مدبرین، شاعروں اور علما سے مختلف سوالات کرنے شروع کر دیے۔ وہ ایسے سوال کرتا جیسے ان موضوعات پر اس کا علم صفر ہے۔ جواب پا کر وہ اس جواب کے کسی نکتے پر بات کو آگے بڑھاتا۔ جواب دینے والا خود کو عقل کل قرار دیتے ہوئے جواب دیتا رہتا۔ آخر میں یہ ہوتا کہ جواب دینے والے کو خود بھی علم ہو جاتا کہ اس کی اپنی عقل کی روشنی میں اس کا جواب غلط ہے۔ سقراط نے یہ نتیجہ نکالا کہ وہ اس لئے سب سے زیادہ دانشمند قرار دیا گیا ہے کیونکہ وہ جانتا ہے کہ وہ کچھ نہیں جانتا جبکہ خود کو عقل مند سمجھنے والے اس بات سے ناواقف ہیں کہ وہ کچھ نہیں جانتے۔

کچھ عرصے بعد سپارٹا سے ایک بحری جنگ میں ایتھنز کی ناتجربہ کار بحریہ کے تجربہ کار جرنیلوں نے اچھوتی حکمت عملی استعمال کرتے ہوئے اسے شکست فاش دی۔ مگر ان فاتحین کی قسمت خراب تھی۔ وہ شکست دے کر سپارٹا کا تعاقب کرنے نکل گئے۔ جن جہازوں کو انہوں نے اپنے زخمیوں کی حفاظت کے لئے چھوڑا تھا وہ طوفان کی وجہ سے لاچار ہو گئے اور زخمی ڈوب گئے۔ اس پر ایتھنز کے عوام غم سے دیوانے ہو گئے اور انہوں نے مطالبہ کی کہ ان جرنیلوں کو سزا دی جائے۔ ایتھنز کی حکمران اسمبلی نے مقدمہ چلانے میں ٹال مٹول کی تو عوام اسے ہلاک کرنے کو دوڑے۔ اسمبلی نے مقدمہ چلا دیا۔ اکیلا سقراط سزا کی مخالفت کرتا رہا۔ چھے جرنیلوں کو سزائے موت دے دی گئی۔ اس مقدمے میں دی گئی سزائے موت کی آج وہی شہرت ہے جو پاکستان میں ذوالفقار علی بھٹو کے مقدمے کی ہے۔ سال بھر بعد ہی سپارٹا کی بحریہ نے پھر حملہ کیا۔ ایتھنز پچھلی جنگ جتانے والے اپنے قابل جرنیلوں کو خود ہی قتل کر چکا تھا۔ یوں وہ سپارٹا سے تیس برس سے جاری جنگوں میں شکست خوردہ ٹھہرا۔ یوں ایک زمانے میں علاقے کی طاقتور ترین ریاست غلام بن گئی۔

کسی زمانے میں دانش اور طاقت کی معراج پر پہنچی یہ شکست خوردہ قوم اپنے برے حال کو دیکھ کر اپنی خودی بلند کرنے کے لئے اپنے حال کو بھلا کر اپنا وہ سنہرا ماضی یاد کرنے لگی جب دنیا اس کے دبدبے سے کانپتی تھی، اس کے خزانے بھرے ہوئے تھے اور علم کے سوتے اس شہر سے پھوٹتے تھے۔ سقراط نے ماضی پرستی پر سوال اٹھایا تو ایتھنز والوں کو اس پر غصہ چڑھنے لگا اور وہ انہیں غدار اور دشمنوں کا ایجنٹ لگنے لگا۔ سقراط نے غضب یہ کیا کہ مائل بہ عروج سپارٹا اور زوال کے شکار ایتھنز کا تقابل کرتے ہوئے سپارٹا کی بعض خوبیوں کی تعریفیں بھی کرنے لگا کہ ان وجوہات کی وجہ سے وہ ایتھنز پر برتر ہوا ہے۔ وہ ریاست کی پالیسیوں کو غلط قرار دیتا تھا کہ ان کی وجہ سے ایتھنز جیسی عظیم ریاست تباہی کا شکار ہو چکی ہے۔ اسے خاص طور پر ریاست میں رائج ”جس کی لاٹھی اس کی بھینس“ کے قانون پر اعتراض تھا اور کہتا تھا کہ شہریوں کو انصاف ملنا چاہیے، لاٹھی نہیں۔

ایتھنز کے ایکسٹرا محب وطن عناصر کو شدید غصہ چڑھا کہ ان کے وطن کو بدنام کیا جا رہا ہے اور اس کی پالیسیوں پر تنقید کی جا رہی ہے۔ سقراط کے سوالات کا ان کے پاس جواب نہیں تھا۔ جو جواب دینے کی کوشش کرتا، وہ جواب کی مزید تفہیم کے لئے کیے گئے اگلے سوالات کے نتیجے میں احمق دکھائی دینے لگتا۔ سقراط پر مقدمہ قائم کر دیا گیا کہ وہ نوجوانوں سے فلسفے اور عقل کی باتیں کر کے ان کو ایتھنز کے دیوی دیوتاؤں سے برگشتہ کر رہا ہے اور خود بھی ریاست کے وسیع تر مفاد کے خلاف کام کر رہا ہے۔ ریاست کی پالیسیوں کے خلاف عقل کی بات کرنا ریاستی زعما کو قبول نہ تھا۔

اس زمانے میں دستور تھا کہ ایتھنز کی جیوری، استغاثہ کی تجویز کی گئی سزا کے علاوہ مجرم کو اپنی سزا خود تجویز کرنے کا اختیار بھی دیا کرتی تھی اور آخر میں فیصلہ کرتی تھی کہ کون سی سزا دی جانی چاہیے۔ استغاثہ نے موت کی سزا تجویز کی۔ لوگ یہ سوچ رہے تھے کہ سقراط یہ تجویز کرے گا کہ اسے جلاوطن کر دیا جائے۔ لیکن سقراط نے کہا کہ اسے معاشرے میں روشن خیالی پھیلانے کے اعتراف میں نہ صرف معاوضہ ادا کیا جائے بلکہ مناسب اعزاز بھی دیا جائے۔ جیوری نے سزائے موت دے دی۔

سقراط کے شاگردوں نے اسے کہا کہ وہ اسے قید خانے سے فرار ہونے میں مدد دیں گے۔ سقراط نے انکار کر دیا۔ سقراط نے جواب دیا کہ وہ ایتھنز کی ریاست کا وفادار شہری ہے اور اس کے قانون کا احترام کرے گا، خواہ یہ قانون اسے سزائے موت ہی کیوں نہ دے دے۔ سقراط نے زہر کا پیالہ پی لیا۔ ایتھنز کا سنہرا دور ختم ہو گیا۔ اس وقت سقراط کی عمر ستر برس سے کچھ اوپر تھی۔

سقراط کے آخری الفاظ تھے ”کریٹو، ہمیں (حکمت کے) دیوتا ایسی کلپئیس پر ایک مرغا قربان کرنا ہے۔ یہ قرض ادا کرنا مت بھولنا“۔

سقراط کے بعد ایتھنز کبھی بھی اپنی کھوئی ہوئی عظمت حاصل نہ کر پایا۔ تلوار کو باعث عزت سمجھنے والے سپارٹا سے شکست کے بعد جلد ہی وہ مقدونیہ کی غلامی میں چلا گیا۔ مقدونیہ میں دانش کو بھی تلوار سے کم اہمیت نہیں دی جاتی تھی۔ مقدونیہ کے بادشاہ فیلقوس نے اپنے ولی عہد سکندر کا اتالیق ارسطو کو مقرر کیا جو سقراط کے شاگرد افلاطون کا شاگرد تھا۔ یوں دانشمندوں کی بات کو اہمیت دینے والی مقدونیہ کی چھوٹی سی ریاست دنیا کی سب سے بڑی سلطنت قائم کرنے میں کامیاب ہوئی۔ اس نے ایتھنز اور سپارٹا کے علاوہ اس وقت کی سپر پاور ایران اور مصر کو بھی شکست دی اور ہندوستان تک آ پہنچی۔

جو ریاست حب الوطنی کے نام پر اپنے بڈھے فلسفی مار ڈالتی ہے وہ خود مر جاتی ہے۔ جو ریاست دانشوروں کو اپنے حکمرانوں کا اتالیق مقرر کرتی ہے، وہ عظمت کی بلندی پا لیتی ہے۔

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar