جنسی ہراسانی: بچپن کے سنبھالے درد


بچوں کی دنیا ہی اور ہوتی ہے، اس دنیا کی خوشی، دوستی اور اعتبار کا معیار بھی اور ہوتا ہے، بچے دین فطرت پر چلتے ہیں انہیں میٹھی چیزیں، میٹھی نیند اور میٹھے بول پسند آتے ہیں مگر جو چیز پسند نہیں آتی اس کی تعریف وہ خود بھی بیان نہیں کرسکتے، وہ نہیں بتا سکتے کہ کب کس انکل کا میٹھی ٹافی دینا اچھا لگا اور کب انکل کی نیت بدل گئی اور وہ میٹھی ٹافی اس کڑوی گولی میں بدل گئی ہے جو یا تو حلق میں پھنس کر جان لے لے گی، یا پھر زندگی بھر کے لیے کڑواہٹ چھوڑ جائے گی۔

یہ ذکر ایسے ہی نادان بچپن کا ہے جب سوئم جماعت کے ہمارے چھوٹے سے کلاس فیلو کے بستے سے ایک وڈیوکیسٹ برآمد ہوئی، معاشرتی علوم کی ٹیچرکے علم میں آیا تو اس بچے کی کلاس میں بہت درگت بنی، پھر مس اسے مارتے مارتے باہر لے گئیں، ہم بچوں کو کچھ علم نہ ہوسکا۔ اگلے دن لنچ بریک میں ہم نے اپنے ساتھی سے پوچھا تو مجھے اچھی طرح یاد ہے اس معصوم نے سارا ملبہ کلاس سیون کے ایک لڑکے پر ڈال دیا کہنے لگا کہ میرے ابو یہ فلم دیکھتے ہیں، بڑی کلاس کے لڑکے نے مجھے کہا تھا کہ اپنے ابو کی وہ کیسٹ مجھے لا کر دو ہم مل کر دیکھیں گے، وہ ننھا ساتھی ہمیں اپنی غلطی بتا چکا تھا، ہم اس کے ارد گرد کھڑے تھے، حیرت کی تصویر بنی بڑی بڑی آنکھوں پر پلکیں جھپک کر ہم بچے معاملہ سمجھنے کی کوشش کررہے تھے۔

ایسا ہی ایک مبہم سا قصہ بھی میرے آنکھوں نے اسی نادان بچپن میں دیکھا تھا، یہ کراچی کا علاقہ ملیر تھا جہاں ہم پہلی بار گرمیوں کی چھٹیوں کا ایک ہفتہ اپنی دادی کے گھر رہنے گئے تھے، گھر میں دادی کے پاس کھلونے نہیں تھے سو ہم ناشتہ کرکے ان کی بالکونی میں آکھڑے ہوئے، نیچے گلی میں چھہ سات سال کے بچے چھپن چھپائی کھیل رہے تھے، ایک بڑا لڑکا عمر شاید یہی کوئی پندرہ سولہ برس ہوگی، وہ یہاں وہاں چھپے ہوئےبچوں کو تلاش کرتا، جو پہلے پکڑا جاتا اسے سزا کے طور پر وہ بڑا لڑکا اسی گلی کے ایک گھر کی باہری دیوار کے پیچھے لے جاتا، وہاں ایک موٹر سائیکل کھڑی تھی، کچھ نظر نہیں آرہا تھا کہ وہاں کیا ہوا، بس اتنا یاد ہے کہ اس دیوار کے عقب سے جو بچہ یا بچی باہر نکلتا وہ اپنے نیکر یا اتری ہوئی شلوار کو اوپر چڑھا رہا ہوتا، باقی سب بچے اس سزا پر خوب ہنس رہے تھے، اور ہم بالکونی میں کھڑے اپنی آنکھوں کو اور بھی بڑا کرکے اپنی معصومیت میں اس نئے کھیل اور اس کے قاعدے سمجھنے کی کوشش کررہےتھے، جو کھیل خود ہمیں سمجھ نہیں آیا تھا اس کا دادی کو کیا بتاتے۔

اگلا واقعہ مجھے خوب یاد ہے، بچپن ہی تھا، ہماری کلاس میں ایک لڑکی کے ہاتھ پسینے میں بھیگےرہتے تھے، وہ ذرا ذرا سی بات پر پیلی پڑ جاتی تھی، اس کی میرے علاوہ کسی سے دوستی نہ تھی، کسی ٹیچر کے اسکول نہ آنے پر جب فری پریڈ ہوتا تھا تو وہ مجھ سےسرگوشیوں میں باتیں کرتی تھیں، ایک بار اس سے ڈھیر ساری مہنگی چاکلیٹس میرے بستے میں بھردیں، میں نے پوچھا ”اتی ساری چاکلیٹس“ تو کہنے لگی کہ اس کے چچا جان باہر سے آئے ہیں وہ دیتے ہیں، پھر مجھے یاد ہے وہ ہلکا سا کانپتے ہوئے بولی تھی کہ ”چچا جان نے اگر یہ چاکلیٹس دیکھ لیں تو وہ مجھے ماریں گے“ اس نے بتایا تھا کہ اس کا چچا اسے چھت والے کمرے میں لے جاکر کپڑے اتار کر پہلے مارتا ہے، پھر چاکلیٹس دے کر کہتا ہے کہ اسے ختم کرکے نیچے آنا“۔ میری اس معصوم ننھی دوست کا قصہ ختم ہوا، میں نے پھر شاید امپورٹڈ چاکلیٹس ملنے کی خوشی میں اس وقت اس قصے پر دھیان بھی نہ دیا نہ گھر آکر امی کو بتایا، مگر آج بھی ہاتھ ملتی ہوں کہ کاش میں اس وقت اتنی نادان نہ ہوتی۔

اور سر پیٹنا ہے، تو سنیں، میں سیکنڈری اسکول میں تھی، ہمارا گھر کراچی کے علاقے کھارادر بولٹن مارکیٹ میں تھا، یہ ملک کا تجارتی حب ہے، ہماری بلڈنگ کی پہلی منزل پر حلوائی کا کچن تھا، وہاں مٹھائیاں بنتی تھیں، چیف حلوائی قصور کا تھا جسے ہم بچپن سے دیکھ رہے تھے وہ دن بھر مٹھائیاں بناتا، اور رات اسی کچن میں سوجاتا، خاموش طبع سنجیدہ حلوائی، پھر یوں ہوا کہ وہ اپنا ہاتھ بٹانے کے لیے قصور سے کسی غریب رشتے دار کا بچہ لے آیا، میں آتے جاتے دیکھتی تھی بچے کے آنے سے حلوائی کا مزاج ہی بدل گیا تھا، وہ بچہ رات حلوائی کے ساتھ ہی اس کچن میں سوتا تھا، پھر سننے میں آیا کہ وہ بچہ غلط استعمال ہورہا ہے، مجھے محسوس تو ہوتا تھا کچھ غلط ہورہا ہے، مگر اس موضوع پر سوال اٹھانے کی ہمت نہ جوڑ سکی۔

یہ تو نادان بچپن کے قصےتھے، برسبیل تذکرہ، ہمارے یہاں تو لب کشائی کی ہمت بڑے ہوکر اب کہیں جا کر پیدا ہوئی ہے ورنہ تو پہلے لڑکے لڑکیاں اپنے ارد گرد ہوتے گھناؤنے فعل کو بیان کرنے سے قاصر ہوتے تھے، میں نے جیل چورنگی کے نزدیک اپنے انٹرمیڈیٹ سرکاری کالج میں اسلامک اسٹڈیز کا ایک ایسا ٹیچر بھی دیکھا تھا جو کلاس میں آتے ہی اپنی شرٹ کے اوپری بٹن کھول دیتا تھا اور جب تک کلاس میں رہتا تھا اس کی انگلیاں اس کے سینے کے بالوں سے کھیلتی رہتیں تھیں، ہم بچے نہیں تھے، سب لڑکیاں گھن محسوس کرتی تھیں مگر مجھ سمیت کسی لڑکی میں اس وقت اتنی ہمت نہ تھی کہ روز کلاس میں ہونے والے اس جنسی ہراسانی کے معاملے کو پرنسپل کے سامنے اٹھاتے، آپس میں ڈسکس یہی ہوتا تھا کہ وہ ٹیچرہمارے ساتھ تو کچھ نہیں کرتا، اگر شکایت کی بھی تو کس چیز کی کریں گے۔

ایسا ہی کچھ کراچی کی بسوں اور کوچز میں ہوتا رہا بلکہ اب بھی ہوتا ہے، اسکول کالجز اور یونیورسٹیز کی لڑکیاں عموماً بسوں کی اس سیٹ پر بیٹھنے سے کتراتی ہیں جس بالکل عقب میں مردانہ کمپارٹمنٹ شروع ہوجاتا ہے، اس کی وجہ کچھ اور نہیں بلکہ عقبی نشستوں پر بیٹھے مردوں کی دست و پا درازی ہے، بڑی عمر کی خواتین سے ایسے مرد کتراتے ہیں، مگر وہ جانتے ہیں کم عمر بچیاں کم ہی بھری بس میں اتنی ہمت مجتمع کر پاتی ہیں کہ شور مچائیں اور شکایت کرسکیں۔

پوچھنے بیٹھیں گے تقریباً ہر بچے چاہے لڑکا ہو یا لڑکی کی یاداشت میں کوئی نہ کوئی ایسا واقعہ دھندلی سی لکیر بن کر موجود ہے، اس وقت بچے تھے اس لیے جو دیکھتے تھے انہیں لفظوں میں اظہار نہیں کرپاتے تھے، اب بڑے ہوگئے اب ہمارے وہ مسائل نہیں رہے۔

کیا کیا قصے بیان کیے جائیں، کیسے بتایا جائے کہ بھیڑیے جنگلوں میں نہیں یہیں ہمارے درمیان بستےہیں، اور کیسے ننھے ذہنوں میں یہ بات ڈالی جائے کہ بیٹا گلی کا انجان انکل ہی نہیں، تمھارا چچا بھی گندا ہوسکتا ہے؟ ہم یہاں خواتین کو جنسی ہراسانی رپورٹ کرنے پر اب تک اعتماد نہیں دے سکے کجا یہ کہ ہم بچوں کو شعور دیں گے، بچوں کو جنسی ہراسانی کے خلاف ٹریننگ دینے کی بات بالکل بجا ہے بلکہ انہیں ایسی وارداتوں پہ چیخنا اور شکایت کرنا بھی سکھائیں، مگر بڑے بھی اپنی آنکھیں کھلی رکھیں کیونکہ ہیں تو وہ بچے ہی، وہی بچے جنہیں فطری طور پر میٹھی چیزیں، میٹھی نیند اور میٹھے بول پسند ہوتے ہیں۔

عفت حسن رضوی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عفت حسن رضوی

نجی نیوز چینل میں ڈیفنس کاریسپانڈنٹ عفت حسن رضوی، بلاگر اور کالم نگار ہیں، انٹرنیشنل سینٹر فار جرنلسٹس امریکا اور نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی اسلام آباد کی فیلو ہیں۔ انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں @IffatHasanRizvi

iffat-hasan-rizvi has 29 posts and counting.See all posts by iffat-hasan-rizvi