بلوچستان تبدیلیوں کی زد میں


ویسے تو کوئٹہ کا موسم تبدیلیوں کا شکار رہتا ہے لیکن اس بار بلوچستان میں حکومت، وزراء سپیکر، ڈپٹی سپیکر اور گورنر وغیرہ تبدیلیوں کی زد میں ہیں۔

وزیر اعلی اور وزراء کی راتوں رات تبدیلی کے بعد اب سپیکر، ڈپٹی سپیکر اور گورنر کی باری ہے۔ سپیکر اور ڈپٹی سپیکر تو وزیر اعلی صاحب کی صوابدید پر تبدیل ہونے جا رہے ہیں جبکہ گورنر بلو چستان کو میاں محمد نواز شریف تبدیل کر رہے ہیں۔ گورنر کی جگہ نیا گورنر یعقوب ناصر ہو گا۔ جو خزاں کے زرد پتوں کی طرح بکھری ہوئی مسلم لیگ نون کو متحد کرنے کی کوشش کرے گا۔ یہ کام انتہائی مشکل ہو گا۔ کیونکہ مسلم لیگ نون کا بلوچستان سے صفایا ہو چکا یے۔ مسلم لیگ نون سینیٹ الیکشن سے پہلے ہی الیکشن ہار چکی ہے۔ گورنر صاحب سابق وزیر اعلی ثناء اللہ زہری کی طرح پہلے ہی استعفی دے دیں تو بہتر ہو گا ورنہ اس عمر میں بڑی پریشانی ہو گی جب نواز شریف حلیف ہو کر بھی گورنر کو برطرف کریں گے۔

اپوزیشن لیڈر کے لیے بھی رسہ کشی شروع ہو چکی ہے۔ مقابلہ رحیم زیارتوال اور مولانا واسع کے درمیان ہے۔ اپوزیشن لیڈر منتخب کرنے میں کلیدی کردار نیشنل پارٹی کا ہو گا۔ ان کی 8 سیٹیں ہیں۔ اگر مستقبل پر نیشنل پارٹی کی نظر ہوئی تو وہ مولانا واسع کا ساتھ دے گی۔ کیونکہ بلوچ بیلٹ میں 2018 کے الیکشن میں جمعیت کے ساتھ جس نے بھی اتحاد کیا اس کی کامیابی کے امکانات روشن ہوں گے۔

کوئٹہ میں بارشیں نہیں ہو رہی البتہ وزارتوں کی تبدیلیوں کی بارش ضروری شروع ہے۔ عہدے اور منصب اس تیزی سے بدل رہے ہیں جیسے خزاں میں درختوں سے گرتے پتے۔ سوکھے ہوئے پتے جب پاوں کی نیچے آتے ہیں تو کریچ کریچ کی آواز یہ پیغام دیتی ہے کہ ہر چیز کو زوال ہے۔ وزارتیں بہار ہوتی ہیں لیکن خزاں کے تھپیڑوں سے نہیں بچ سکتیں۔ کامیاب وزیر، مشیر اور گورنر وہ ہے جو بہار کے دنوں میں خزاں کو سامنے رکھے۔ جو پتوں کے سرسبز ہونے کے بعد ان کے مرجھانے کو مد نظر رکھے۔ لیکن کیا کہنا تاج بادشاہت کا۔ سر پر رکھتے ہی انسان اپنی اوقات بھول جاتا ہے۔ جس عوام نے انہیں اپنے اوپر حق حکمرانی کے لیے منتخب کیا ہوتا ہے اسی عوام کو یہ بادشاہ حشرات سمجھنے لگتا یے۔ معلوم نہیں کہ حکمرانی کے اس تاج و تخت میں وہ کونسا جادو ہے جو انسان کو انسانیت سے گرا دیتا یے۔

تبدیلیوں کی ہوائیں چل رہی ہیں، عہدے بدل رہے ہیں
عوام پس رہی ہے، حکمرانوں کے نصیب بدل رہے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).