پاک امریکہ ”گھریلو“ تعلقات


جب دوسری جنگ عظیم کے خاتمے اور سرد جنگ کے آغاز کے ساتھ ہی امریکہ نے سسرالیوں کو ماموں بنا کر ان کی مدد سے ہمسایوں کو زیر کرکے دنیا پر حکمرانی کرنے کا انوکھا ڈھنگ نکالا تھا۔ ٹھیک اسی وقت پاکستان دنیا کے نقشے پر ایک آزاد ملک کی صورت میں نمودار ہوا۔ اکیلا اور کمزور ہونے کے ساتھ ساتھ، اپنے خوبصور ت خدوخال اور بھرپور ہمسایوں کی وجہہ سے اس کی مثال اس وجیہہ شکل خاتون کی تھی جس سے مراسم استوار کرنے کے لیے اقوام متحدہ کے بگڑے یا بگاڑے ہوئے سویت یونین جیسے بڑے بڑے مدر در آزاد ”لڑکے“ بھی ہاتھ پاوں مار رہے تھے۔ مگر اس نازنین نے سویت یونین کا رشتہ ٹھکرا کر اس سے بھی بڑے لاڈلے امریکہ کے ساتھ رشتہ ہموار کرنے کے واسطے لیاقت علی خان کو امریکی یاترا پر روانہ کیا جس نے سب اچھا ہے کی رپورٹ دی اور دو سال کے اندر اندر رچرڈ نکسن نے پاکستان کا دورہ کیا اور لڑکی کی وفاداری اور خوش اسلوبی کی ضمانت دے کر دونوں کو ایک دوسرے سے باندھ لیا۔

ہنی مون کا دورانیہ انتہائی خوشگوار تھا جہاں دونوں ایک دوسرے کے باہوں میں باہیں ڈالے کوریا کا مقابلہ کیا تو سیٹو اور سینٹو SEATO & CENTO کی صورت میں ساتھ جینے مرنے کی قسمیں کھانے لگے۔ یہی نہیں بلکہ امریکہ نے پاکستان کو “the most allied ally”کا تمغہ دینے کے ساتھ ہر ممکن مدد کی یقین دہانی کرائی۔ یاد رہے کہ اس رشتے میں منسلک ہونے کی واحد وجہ پاکستان کے ظاہری خدو خال ہی نہیں بلکہ امریکہ کا سسرالیوں کے ذریعے ہمسایوں کو دبانے کا طریقہ ورادات بھی تھا۔ اور اس بار کمیونزم جیسی آفت پاکستان کے ہمسائے میں پنپنے کی کوشش کررہی تھی۔ بہرحال دونوں نے ایک دوسرے کی احساسات وضروریات کا خیال رکھتے ہوئے زندگی گزارتے رہے۔ لیکن ہنی مون کا دورانیہ گزرتے ہی 1965 میں امریکہ نے روایتی سردمہری کا مظاہرہ کرتے ہوئے ہندوستانی قیادت میں لڑکی کو گھیرتے ہوئے غنڈوں کو دھتکارنے تک کی زحمت نہ کی۔ نتیجتا پاکستان نے سیٹو اور سینٹو جیسے نکاح ناموں کو پھاڑ کر امریکہ سے خلع لینے کا اصولی فیصلہ کرلیا۔ اور یوں دو عشروں پر محیط رشتے ٹوٹ گئے۔

تاہم چند سال گزرنے کے بعد ہی دونوں کو احساس ہوا کہ دونوں ایک دوسرے کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتے کہ نازنینوں جیسی زندگی گزارنے کے لیے پاکستان کو امریکی امداد اور سویت یونین جیسے رقیبوں سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لئے امریکہ کو پاکستان کی ضرورت ہمیشہ رہے گی۔ مجبورا دونوں نے کارٹر ڈاکٹرائن کے تحت دوبارہ شادی رچانے کا فیصلہ کرلیا۔ تاہم حق مہر میں جو 402 ملین امریکی ڈالر پاکستان کو ملنے تھے انہیں ضیا الحق نے ناکافی قرار دے کر ٹھکرا دیا۔ اور پاکستان نخرے کیوں نہ کرتا کہ امریکہ کا رقیب اس بارپاکستان کے بالکل نزدیک پہنچ چکا تھا اور دونوں کا ملاپ افعانستان کی سرزمیں پر کسی بھی وقت ہوسکتا تھا۔ اسی ملاپ کو روکنے کی خاطر پاکستان اور سویت یونین کے درمیاں اختلافات کو پروان چڑھا کر انہیں ایک دوسرے کا دشمن بنایا گیا۔ امریکہ نے پاکستانی کی مذہب پرست قیادت کے ذریعے پاک سویت یونین تعلقات کو مذہبی نقطہ نظر سے حرام اور ناممکن قرار دے کر پاکستان کو اپنا لاڈلا بنائے رکھا۔ امریکہ میں حکومت تبدیل ہوئی مگر خیالات ویسے ہی رہے اور کارٹر کے بعد ریگن نے بھی لڑکی کے نازنخرے اٹھانے میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھی۔ تاہم سویت یونین کے علاقے سے بھاگنے کے بعد امریکہ نے ایک بار پھر پاکستان کی طرف عجیب نظروں سے دیکھنا شروع کیا۔ قدم قدم پر پاکستان پر ”ایٹمی موٹاپے“ کا الزام لگا کر دبلے پتلے خوبرووں کو ہی من پسند قرار دے کر پاکستان سے بے اعتنائی برتنا شروع کیا گیا۔ ساتھ ساتھ پاکستان پر امریکہ سے بے وفائی کرکے دوسروں کو بلاوجہ پہلو میں جگہ دینے کا الزام بھی لگایا گیا۔ اس بار امریکہ کا الزام کچھ غلط بھی نہ تھا کہ پاکستان کو اپنے پہلو میں امریکہ سے بھی خوبرو اور وفادار چین نظر آچکا تھا۔ اور اس کے ساتھ پاکستان کے خفیہ تعلقات اس نہج تک پہنچ چکے تھے کہ Brown Amendment کی شکل میں رشوت دے کر اپنی طرف مرعوب کرنے کی امریکی کوشش بھی ناکام ہوئی۔ حالات اس وقت ناقابل یقین حد تک خراب ہوگئے جب پاکستان نے ایٹمی دھماکہ کیا اور پھر ”لڑکی کے بھائی“ نے جمہوری قوتوں کو سارے مسائل کی جڑ قرار دے کر لڑکی کے دفاع کی ذمہ داری واحد قوت کے طور پر خود کرنے کی ٹھان لی۔ اور یوں نوبت طلاق تک پہنچ گئی۔ وہ جو طلاق سے پہلے پاکستان کے نازو نخرے اٹھاتے تھے آج پاکستان کو بھوکا اور بے یارو مددگار دیکھنے کی خواہش کرنے لگے۔ اور پاکستان کو دنیا کے نقشے میں اکیلا کرنے کی خاطر کسی بھی معاشی و سفارتی تعلقات سے اجتناب کیا گیا۔

مگر پھر اچانک 11/9 کے واقعے نے دونوں پر یہ ثابت کیا کہ اگر وہ ایک ساتھ نہیں رہے تو باہر سے طاقتیں آکر دونوں کا ریپ Rape)) کر کے بھاگ جائیں گے کہ اس بار ریپ کرنے والے لڑکی دیکھتے تھے نہ لڑکا۔ اس لئے دونوں نے ایک بار پھر اچھے میاں بیوی بن کر ایک دوسرے کا خیال رکھتے ہوے اپنی عزت بچائے رکھنے کا فیصلہ کیا۔ پاکستان نے محلے کی ہر خبر امریکہ تک پہنچائی تو امریکہ نے دولت کے دروازے کھول کر پاکستان کو دنیاوی رنج و الم سے بیگانہ کردیا۔ یہی نہیں بلکہ لڑکی کے بھائی کو ڈیوڈ کیمپ بلا کر شاباشی بھی دی گئی۔ اور پھرپاکستان امریکہ کی ہر جائز و ناجائز خواہش پوری کرتا رہا۔ جوںہی ریپ کرنے والے کمزور ہوئے، پاکستان پھر شکوک وشبہات کی زد میں آگیا۔ البتہ الزامات وہی پرانے اور گھسے پٹے ہیں۔ اس لیے توقع رکھی جاسکتی ہے کہ جلد یا بدیر، طلاق ہونی تو ہے تاہم ان دونوں کے کیس میں طلاق کے بعد رجوع ہمشہ کی طرح یقینی ہے لہذا کسی کو فکر کرنے کی چندان ضروت نہیں ہاں اس بات پر سوچنا ضرور ہے کہ اس بار رجوع کی وجہ کیا ہوسکتی ہے اور اللہ کرے یہ وجہ معمول سے ہٹ کر کچھ ہو کہ ہر رجوع کے وقت عوام ہی پستے ہیں۔

تعارف: نور شمس الدّین جون ایلیا کے شعر ”جو دیکھتا ہوں وہی کہنے کا عادی ہوں“ کے مصداق دوسروں کے جذبات و احساسات پر اپنے خیالات کو قربان کرنے کا عادی نہیں اور وہی لکھتے ہیں جو اُن کو صحح لگے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).