غربت کیسے دور کی جائے!


چکوال کے الیکشن کا نتیجہ آ چکا ہے۔ نواز لیگ اپنی سیٹ پہ بحال ہے۔ کافی حد تک یہ حلقہ عمران خان کی حالیہ محاذ آرائیوں کی وجہ سے بھی پی ٹی آئی کو ہاتھ دکھا گیا لیکن بہت زیادہ فیکٹر اس شکست میں وہی ہے جس کا سامنا اس وقت نواز لیگ کے مدمقابل ساری جماعتوں کو ہے۔ کام کرتے نظر آنا، یہ وہ چیز ہے جس کا سلیقہ ہماری زیادہ تر سیاسی پارٹیاں ابھی تک جان نہیں سکیں۔ بیان بازیاں بھی اس وقت جچتی ہیں جب ہاتھ پلے کچھ ہو۔ یہ حلقہ تو خیر پی ٹی آئی کے موجودہ حالات کی نذر ہوا سو ہوا‘ لیکن پورے ملک میں پھیلا ہوا تاثر بھی دیکھا جائے تو وہ دو چیزوں کی طرف اشارے دیتا ہے۔ نمبر ایک یہ کہ نواز لیگ کرپٹ ہے۔ نمبر دو یہ کہ نواز لیگ دھڑا دھڑ ترقیاتی کام کرتی ہے۔ اب سمجھنے والا ذہن اگر ان دو نتیجوں کو ملاتا ہے تو ایک تیسری مساوات یہ بنتی ہے کہ جو کام کرتا ہے وہ کرپٹ ہے۔ نہ کام کرو گے نہ کرپشن کا الزام لگے گا۔ انتہائی سادہ سی، سامنے کی بات ہے۔ کسی بینک میں، سرکاری دفتر میں، یونیورسٹی میں، کالج میں، سکول میں، کاروبار میں، کہیں بھی دیکھ لیجیے، جو دوسروں کو آؤٹ شائن کرے گا، تھوڑا آگے بڑھتا ہوا نظر آئے گا، محنت کرے گا، چیزوں کو اون کرے گا، معاملات میں دلچسپی لے گا بہت جلد اس کے بارے میں کرپشن کے پہاڑ جیسے ثبوت مخالفین کی طرف سے تیار کر دئیے جائیں گے۔ اس کے بعد پھر اس بندے کی قسمت، بچ گیا تو بہت اوپر چلا گیا، پھنس گیا تو رل گیا، پہلا حل ٹرانسفر دوسرا جیل، تو وہ ریل یا جیل کے دو آپشنوں کے درمیان کام کرنے والا آدمی بے چارہ ساری زندگی معلق رہتا ہے۔

دو تین روز پہلے سکھر میں ایک ہسپتال کا افتتاح کرتے ہوئے بلاول بھٹو نے فرمایا کہ عوام کو فیصلہ کرنا ہو گا، وہ پنجاب کی میٹرو چاہتے ہیں، خیبر پختون خوا کے درخت چاہتے ہیں یا غربت کا خاتمہ چاہتے ہیں۔ نیز یہ کہ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام فلاح کا وہ پروگرام ہے جسے پوری دنیا مانتی ہے اور 2018 ء میں وہ اقتدار میں آئیں گے اور اسے مزید فعال کریں گے۔ اس بیان کے دو تین حصے بہت سارے سوالات کو جنم دیتے ہیں۔ کیا میٹرو، موٹر وے، اورنج ٹرین یا کوئی بھی میگا پروجیکٹ شروع کرنے کا فیصلہ عوام سے پوچھ کر کیا جاتا ہے؟ کیا غربت کا خاتمہ صرف روپے بانٹ کر ہو سکتا ہے؟ کیا پندرہ سو‘ دو ہزار کی ماہانہ انکم سپورٹ پانچ بندوں کا ایک خاندان پال سکتی ہے؟ کیا درخت لگانا غربت کا خاتمہ کرنے کی راہ میں رکاوٹ بنتا ہے؟ ماحولیات اور معیشت کا آپس میں کیا تعلق ہے؟ انفراسٹرکچر اور معیشت کا آپس میں کیا تعلق ہے؟ پنجاب اور سندھ میں بانٹے جانے والے ان روپوں کا تقابلی جائزہ ماہانہ بنیادوں پہ فیکٹ شیٹ کی صورت میں کیوں نہیں لایا جاتا؟ کیا پنجاب کی میٹرو یا پختونخوا کے درختوں کی بات کر کے ترقیاتی کام صوبائی تعصب کی نذر کر دینا درست عمل ہے؟ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام پوری دنیا میں کہاں مانا جاتا ہے؟ پیپلز پارٹی 2018ء میں کس بنیاد پہ الیکشن جیتنے کا دعویٰ کر رہی ہے، بھٹو فیکٹر، بے نظیر فیکٹر؟ یہ دونوں تو کام آ چکے، نیا فیکٹر کون سا ہے؟ آخری سوال یہ کہ سندھ کے عوام کیا ٹی وی اور اخبارات سے دور ہیں جو اس بیان پر آنکھیں بند کر کے سر دھنیں گے؟

منٹو کی ایک کہانی تھی کسی بھلے نام سے، اس میں ایک دولت مند شخص کی آپ بیتی بیان کی گئی جسے نیک کام کرنے کا خبط ہو گیا تھا۔ اسے یہ سمجھ نہیں آتا تھا کہ نیک کام کرے تو کرے کیا، شہر میں جاتا تو ہر دوسرا شخص بھکاری نظر آتا، سوچا لنگر خانہ کھولنے سے آخر کتنے پیٹ بھریں گے۔ لوگوں کے پاس بیٹھ کے ان کے مسائل سنے تو اسے معلوم ہوا کہ ہر شخص ہی دکھی ہے چاہے امیر ہو یا غریب ہو، وہ کس کس کے مسئلے حل کر سکتا ہے۔ آخر بہت سوچنے سمجھنے کے بعد اسے یہ طریقہ سمجھ میں آیا کہ دنیا میں پائے جانے والے سارے مسائل فالتو آبادی کی وجہ سے ہیں، آبادی کم ہو گی تو سارے سسٹم خود بخود ٹھیک ہو جائیں گے۔ پھر اسے یہ معلوم ہوا کہ اگر کوئی مظلوم انسان حادثے میں مارا جائے تو وہ آخرت میں اچھے رتبے پاتا ہے۔ اس کے بعد وہ جگہ جگہ کیلے کے چھلکے گراتا تھا، کبھی کوئی پرانی ترین عمارت لے کے اس میں غریب لوگوں کو بسا دیتا تھا اور جیسے ہی کوئی آدمی چھلکے سے پھسل کے گرتا اور مر جاتا یا وہ پرانی عمارت گرتی اور ملبے میں لوگ دب کے مر جاتے تو وہ اپنے تئیں بہت خوش ہوتا کہ یہ بے چارے حادثاتی موت مر بھی گئے اور میں نے انہیں دکھ درد سے بھی آزاد کر دیا۔ جو آدمی بچ جاتا، وہ اس کی نظر میں گناہگار ٹھہرتا۔ سمجھا جاتا کہ اس کے مقدر میں اعلیٰ رتبوں والی موت نہیں ہے۔ تو لگتا ہے کہ ہمارے بعض لیڈر فی الوقت اسی فارمولے کے حساب سے سوچ رہے ہیں۔ انہیں نیک کام کرنا مطلوب تو ہے لیکن کوئی بھی واضح راستہ اختیار نہیں کرنا چاہتے۔ پل، میٹرو، درخت، رنگ روڈ یہ سب بکھیڑے انہیں دنیاوی نظر آتے ہیں، غربت کے خاتمے کی بات کریں گے اور جتا بھی دیں گے کہ ہم سے ایسی نعمتوں کی امید مت رکھنا ۔

بھائی دنیا بھر میں غربت کا خاتمہ معیشت سے جڑا ہے۔ مضبوط معیشت آپ سے اچھا انفراسٹرکچر مانگتی ہے، کاروبار کرنے کا سازگار ماحول مانگتی ہے، امن و امان مانگتی ہے، ترقی کا ٹرکل ڈاؤن ایفیکٹ مانگتی ہے، زرعی معاملات کی بہتری مانگتی ہے، بجلی کی فراہمی، تعلیم کا معیار، ڈگری دینے والے اداروں کی وقعت، چھتیس چیزیں اور وہ ہیں جو یہاں غربت کے خاتمے پر گنوائی جا سکتی ہیں لیکن چند روپے بانٹ دینے سے یا گمبٹ اور سکھر میں دو ہسپتال بنا دینے سے جو لیڈر یہ سمجھنے لگیں کہ غربت بس ایویں ختم ہو جائے گی اس پہ مزید بات کس طرح کی جائے؟

اسی سکھر میں گھنٹہ گھر چوک ہے، جس صبح دو تین ماہ کے بعد پیسے نکالنے ہوتے ہیں اس سے پہلے کی رات پورا پورا خاندان ایزی پیسہ کی دکانوں یا اے ٹی ایم کے باہر سوتے جاگتے ہوئے گزارتا ہے کہ باری کسی طرح جلدی آ جائے۔ پچھلے سال عید پہ دو ہزار روپے فی خاندان الگ سے بانٹے گئے، ایک ہجوم بلکہ جم غفیر تھا جو پورے سندھ کی سڑکوں پہ رلتا رہا، ایک خاتون ہلاک ہوئیں، کئی بے ہوش ہو گئیں۔ بات یہ ہے کہ ترستے بلکتے عوام کے لیے مہینے میں ہزار دو ہزار واقعی بڑی وقعت رکھتے ہوں گے لیکن کیا یہ بھیک ہے یا حکومتی سپورٹ ہے جو لوگوں کو رل رل کے ملتی ہے؟ کیا یہی پیسہ غریب افراد کو اشیائے خورونوش پہ سبسڈی دینے میں نہیں لگایا جا سکتا؟ کیا اسی پیسے کو استعمال میں لا کے چھوٹے کاروباری یونٹ نہیں بنائے جا سکتے تھے جو کئی گھرانوں کو اپنے پیروں پر کھڑا ہونے میں مدد دیتے؟ کیا ایک بھی خود روزگار سکیم آج تک غریبوں کی پیپلز پارٹی نے لانچ کی؟ ادھر ییلو کیب سکیم پٹ گئی لیکن گاڑیاں آج تک لوگ چلاتے ہیں اور فیملیاں پلتی ہیں، قرضے لینے والے روپیہ پی گئے الگ بات، سکیم تو کتنے گھروں کو خود کفیل کر گئی۔ تو روپیہ ایک کارڈ کے ذریعے خیرات میں بانٹنا اچھا ہوا یا اس کا عقلمندانہ استعمال؟

بات گھوم پھر کے وہیں واپس آتی ہے جہاں صدیوں پہلے ذوق اشارہ کر گئے تھے کہ پل بناؤ، کنویں کھدواؤ، تالاب بنواؤ، لوگوں کو فائدہ پہنچانے کا بندوبست کرو لیکن کوئی حرکت کرنے کو تیار ہو تو بات سمجھے۔ لوگ اب مقابلہ کرتے ہیں مرشدو، خالی باتوں سے دال نہیں گلتی۔ غربت کم ہوتی نظر آتی ہے جب کام ہوتا ہے، صادق آباد سے آگے جب مٹی کا رنگ آہستہ آہستہ بدلتا ہے تو سڑک کی حالت بڑی تیزی سے بدلتی نظر آتی ہے۔ یہی غربت کی پہلی نشانی ہے، تنقید کرنے والے ایسے انڈیکیٹرز پہ توجہ دیں گے تو امید کی جا سکتی ہے کہ ان کے چیلنج کچھ بہتر شکل اختیار کر جائیں ورنہ خیر یہ رہا 2018ء اور یہ رہے الیکشن! (اگر رہنے دئیے گئے)۔

حسنین جمال

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

حسنین جمال

حسنین جمال کسی شعبے کی مہارت کا دعویٰ نہیں رکھتے۔ بس ویسے ہی لکھتے رہتے ہیں۔ ان سے رابطے میں کوئی رکاوٹ حائل نہیں۔ آپ جب چاہے رابطہ کیجیے۔

husnain has 496 posts and counting.See all posts by husnain