خواتین اور انتخابی عمل


اپنے وجود کو تسلیم کروانا ایسی خواہش ہے جو کہ ہر جاندار میں پائی جاتی ہے (میرا تو خیال ہے بے جان چیزوں میں بھی، مگر وہ اظہار نہیں کرپاتیں)۔ اسی طرح جب کوئی اپنے وجود کو تسلیم نہیں کرواپاتا تو اس کی حیثیت معاشرے میں ایک بے جان شے کی سی رہ جاتی ہے جس کی نہ کوئی مرضی ہے اور نہ اختیار۔ اگر شناخت کی اس خواہش کو آسانی سے تسلیم نہ کیا جائے تو ہر ذی شعور اس خواہش کو پورا کرنے کے لئے مختلف طریقے استعمال کرتا ہے۔ ضروری نہیں کہ یہ رویے مناسب اور قابل قبول بھی ہوں اور بہت زیادہ دبائے جانے کی صورت میں اعتماد ختم کردیتے ہیں تو کبھی تو یہ نفسیاتی عارضوں کی شکل میں انسانی وجود کو کھوکھلا کردیتے ہیں۔

اسی طرح خواتین سے بات کی جائے کہ سیاست کا ان کی زندگی میں کیا کردار ہے تو وہ اس بات سے بالکل بے خبر کہ ان سے سیاسی محاذ پر کیا چال چلی جارہی ہے۔ بہت بے دلی سے کہتی ہیں کہ ہمارا سیاست سے کیا تعلق؟ یہ لاتعلقی ان کی انتخابی عمل میں حصہ نہ لینے کی ایک بڑی وجہ ہے۔ اور اس لا تعلقی کوبڑھانے میں مختلف عوامل اپنا حصہ ڈال رہے ہیں۔ بہت سے عوامل میں سے ایک یہ بھی ہے کہ ہم نے خواتین کو فیصلہ سازی سے الگ رکھ کر نہ صرف ان کا بنیادی حق سلب کیا ہے بلکہ ان کی فیصلہ سازی کی صلاحیت پر بھی شب خون مار ا ہے۔

الیکشن کمیشن کے اکتوبر 2017 تک کے اعداد و شمار کے مطابق رجسٹرڈ و وٹران کی کل تعداد 9کروڑ 70 لاکھ 20 ہزار ہے، جن میں سے 5 کروڑ46 لاکھ مرد ووٹر ہیں جو کل تعداد کا 56 فی صد بنتے ہیں۔ اس کے مقابلے میں خواتین ووٹر کی تعداد 4 کروڑ 24 لاکھ 20 ہزار ہے جو کہ کل تعداد کا 46 فی صد ہیں۔ ان اعداد و شمار کے مطابق خواتین ووٹرز کی تعداد مرد ووٹرز سے 1 کروڑ 21 لاکھ ستر ہزار کم ہے جبکہ 2013 کے عام انتخابات میں یہ فرق 1کروڑ 9 لاکھ 70 ہزار کا تھا۔ یہ فرق اس لئے بھی تشویش ناک ہے کہ حالیہ مردم شماری کے مطابق خواتین پاکستان کا 51 فی صد ہیں تو اصولی طور پر ان کی تعداد انتخابی فہرستوں میں بھی زیادہ ہونی چاہیے۔

حکومتی اداروں کی غیر سنجیدگی خواتین کی انتخابی عمل میں عدم شرکت کی ایک بڑی وجہ ہے۔ اس غیر سنجیدگی میں جہاں ایک طرف ان کی صلاحیتوں میں کمی کا عنصر شامل ہے وہیں انہیں اس مسئلے کی سنگینی کا ادراک ہی نہیں۔ 100فی صد ذمہ دار ان کی نیتوں کو بھی نہیں ٹھہرایا جاسکتا کیونکہ ان کے ادراک کی پرواز بس حکومتی احکامات اور بین الاقوامی معاہدات کی تقلید تک ہے۔ اس میں ان کی ذاتی کاوش، لگن، شعور اور صلاحیت کا کوئی دخل نہیں۔ لہٰذا وہ ان مسائل کی پیروی اہل نہیں۔

خواتین کے ووٹ کے اندراج کا وقت آتا ہے تو سب سے پہلا مرحلہ شناختی کارڈ بنانے کا ہوتا ہے۔ نادرا کے آرڈینینس مجریہ 2000 کی زیر دفعہ 30(A) کے تحت بغیر کسی وجہ سے شناختی کارڈ نہ بنوانے کی صورت میں 6 ماہ قید یا 50 ہزار جرمانہ یا دونوں سزائیں بھی ہوسکتی ہیں۔ اس قانون کی عوامی سطح پر کوئی آگہی مہم نہ چلائی گئی اور اس کے بینر صرف نادرا دفاتر کے اندر آویزاں کیے گئے ہیں۔ اس سے نادرا کے عملہ کی غیر سنجیدگی یا نا تجربہ کاری کا با آسانی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔

ایک حکومتی پالیسی کے تحت جس شخص کا شناختی کارڈ بنا ہے وہ خود بخود ووٹر بن جاتا ہے مگر یہ بات پالیسی بنانے کی ہی حد تک محدود رہی۔ ابھی بھی نادرا کے رجسٹرڈ بہت سے افراد کے نام ووٹروں کی فہرست میں موجود نہیں۔ اسی طرح بہت سی خواتین کے شناختی کارڈ صرف اس وجہ سے نہیں بنتے کہ خاندان کے مرد حضرات بھی ابھی اس حق سے محروم ہیں۔ کیونکہ انہیں شناختی کارڈ کے لئے دیہاڑی ضائع کرنا قبول نہیں۔ دیہی علاقوں میں ابھی بھی کثیر تعداد میں ایسے لوگ موجود ہیں جن کے بغیر کسی لکھت پڑھت کے صرف شرعی نکاح ہوتے ہیں اور ان کے پاس نکاح کے کوئی دستاویزی ثبوت موجود نہیں۔ لہٰذا ایسی خواتین تا عمر پاکستانی شہری ہونے کی شناخت سے محروم رہتی ہیں۔ اس سلسلے میں بڑے پیمانے پر آگہی مہم کی ضرورت ہے تا کہ مستقبل میں اس نوعیت کے مسائل درپیش نہ ہوں۔ حکومتی سظح پر بھی ایسی پالیسیاں وضع کرنے کی ضرورت ہے کہ کیسے ان خواتین کے نام ووٹر لسٹوں میں درجکیے جائیں۔

نادرا کے اس اعلان کے باوجود کہ شناختی کارڈ بنانے کے عمل میں بہت سی آسانیاں فراہم کی جارہی ہیں نادرا کے دفاتر میں عملے کی سطح پر عوام سے تعاون نہ ہونے کی وجہ سے شناختی کارڈ بنوانے کا عمل آسان نہ ہو سکا۔ الیکشن کمیشن نے واضح طور پر کہہ دیا ہے کہ دسمبر 2017 کے بعد شناختی کارڈ بنوانے والے افراد 2018 کے الیکشن میں ووٹ ڈالنے کے اہل نہیں۔ حالانکہ جدید ٹیکنالوجی کے اس دور میں کمپیوٹرائزڈ شناختی کارڈ رکھنے والے فرد کا ووٹر فہرست میں اندراج کرنا شاید کچھ سیکنڈز کا کام ہو۔

اب اگرآپ میں سے کوئی الیکشن کمیشن کی اصلاحات کا ذکرسنے تو میری ان سے گزارش ہے کہ پتہ کروا لیں کے ان اصلاحات کے تجویز کرنے میں الیکشن کمیشن کے عملے کتنا کام بغیر کسی غیر سرکاری تنظیم یا غیر ملکی ایجنسی کی مدد کے اپنے عملے کی محنت یا زحمت سے کیا ہو۔ الیکشن کمیشن کی ایک اور کوتاہی خواتین کے لئے الگ پولنگ سٹیشنز کی کمی ہے۔ جو ایک بہت بڑی ثقافتی رکاوٹ ہے۔ الیکشن کمیشن کے افسران خود دفتر سے باہر جاکر کام کرنے کی زحمت نہیں کرتے اور دوسرے غیر سرکاری اداروں کے بتائے ہوئے اعداد و شمار سے نتائج اخذ کرکے اپنے ائیر کنڈیشنڈ کمروں میں بیٹھ کر فیصلے کرتے ہیں۔ جس کا نقصان یہ ہوتا ہے کہ وہ افسران بالا کے سامنے اپنے نکتہ نظر کا دفاع نہیں کر پاتے اور اصلاحات محض کاغذکے پلندوں میں نافذ ہوتیں۔

سرکاری اداروں کو یہ کھلی چھٹی اس لئے بھی حاصل رہی ہے کہ اللہ اللہ کرکے جب بھی مارشل لاء کے بعدجمہوریت آئی تو وہ ”حکومت بچاؤ“ سیاسی مصلحت پر عمل پیرا رہی۔ خواتین کے انتخابی اور سیاسی عمل میں شمولیت کی اصلاحات پر کسی جمہوری حکومت نے از خود دل چسپی ظاہر نہ کی اور نہ ذمہ داری محسوس کی۔

بہت سے غیر سرکاری اداروں کی طرف سے بھی خواتین کی انتخابی عمل میں شمولیت پر کام شروع کیے ایک عرصہ گزر گیا۔ جہاں پہلے سے موجود اداروں نے اس کام میں اپنا حصہ ڈالا وہیں چند نئے ادارے بھی وجود میں آئے۔ یہاں مسئلہ نہ نیت کا تھا اور نہ ہی صلاحیت کا۔ ان اداروں کی کوششیں غیر مربوط اور غیر منظم رہیں۔ کبھی“ بیل کے آگے ہل جوت دیا جاتا“ تو کبھی ایک ہی قسم کے کام کے لئے بہت سے ادارے ایک ہی قسم کے اداروں سے مختلف اوقات ملاقات کرتے جو کہ وسائل کا ضیاع ہے۔ عوامی سطح پر ایک ہی کمیونٹی میں مختلف ادارے ایک ہی پیغام مختلف انداز میں یوں پہنچاتے کہ کارروائی تو ہوجاتی مگر پیغام کی اصل روح ختم ہوجاتی۔ عوام بھی خوش، ملازمین بھی خوش، ادارے بھی خوش اور ڈونر بھی۔ مگر مقصد کا کچھ فی صد ہی حاصل ہوپاتا۔ یہ ادارے غیر جانبداری اور شفافیت کا دعویٰ اور مطالبہ کرتے ہیں جبکہ عملی طور پر ان کے اپنے بہت سے اقدامات ان اصولوں کے بر عکس ہوتے ہیں۔

ایک عام شخص یہ گتھی سلجھانے سے محروم رہے گا کہ پاکستانی خاتون کے ووٹ پر ڈاکہ کہاں سے ڈالا جارہا ہے۔ حالیہ مردم شماری میں غیر حقیقی اعداد و شمارکے ذریعے، نادرا کی پیچیدہ اور ناقابل عمل پالیسیوں کے ذریعے یا الیکشن کمیشن کے عملے کی سہل پسندی اور محتاجی کے توسط سے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ خواتین کو ان کے ووٹ کی اہمیت کا احساس دلایا جائے اور انہیں آسان پیغامات کے ذریعے باور کروایا جائے کہ بہت سی دیگر ذمہ داریوں کے ساتھ ان کے ذمے ملک کی حکومت سازی میں اپنا حصہ ڈال کر اپنے حقوق کا دفاع کر نا بھی ہے۔ ان عوامل کی طرف توجہ دلانے کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ اگر خواتین کو رائے دہی میں اسی طرح رکاوٹوں کا سامنا رہا توخواتین میں مسلسل فیصلہ سازی اور حکومت سازی کے عمل سے باہر رہنے کی وجہ سے حقوق کے عدم تحفظ کی صورت میں پیدا ہونے والے نفسیاتی عارضے خانگی اور معاشرتی ذمہ داریوں میں عدم استحکام اور خدانخواستہ بگاڑ پر منتج ہو سکتے ہیں۔ حکومتی مشینری کو بروئے کار لاتے ہوئے موجودہ وسائل میں اداروں کے باہمی تعاون سے خواتین کی انتخابی عمل میں شرکت بہتر بنائی جاسکتی ہے۔ خواتین کی انتخابی عمل میں شمولیت کے لئے انتہائی ضروری ہے کہ سرکاری، غیر سرکاری اور سیاسی ادارے مل کر کام کریں تاکہ وہ ایک دوسرے کی صلاحیت، اہلیت، نیت، طاقت اور تجربے کو بروئے کار لاکر ایسی اصلاحات لائیں جو نہ صرف سب کے لئے قابل قبول ہوں بلکہ سطح پر قابل عمل بھی ہوں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).