کیا آصف زرداری اب ضیا الحق کی بغاوت کو بھی درست مان لیں گے؟


حالات، الزامات، مقام، انتظامات، بیانات اور فرمودات گویا تمام معاملات اور واقعات، تمام اتفاقات بالکل ویسے ہی ہیں جیسے 9 اپریل 1977 کو تھے۔ فرق ہے توتاریخ مہینے اور سال کا کیونکہ آج 17 جنوری 2018 ہے اور دوسرا فرق شاید یہ ہے کہ ستاروں کی تعداد 9 سے بڑھ کر گذشتہ 41 برسوں میں اب 40 تک پہنچ گئی ہے۔ تیسرا فرق یہ کہ اس بار حکومت کی آئینی مُدت ختم ہونے میں صرف 5 ماہ باقی ہیں لیکن تب الیکشن ہونے کے بعد ایک مہینہ بھی مکمل نہیں ہوا تھا۔ گویا وقت مختلف لیکن بنیادی الزامات اور کھیل کا انداز وہی جو 41 برس قبل تھا۔ جہاں یہ ایک لمحۂ فکریہ ہے کہ ہم کیا واقعتا آج بھی 41 برس پیچھے ہی کھڑے ہیں؟ یا پھر ہم اتنے پیش بین ہو چکے ہیں کہ محض 41 برس پیچھے دیکھنا بھی خلافِ شان سمجھتے ہیں۔

یوں تو قریب قریب پاکستان کی ہر سیاسی جماعت میں ایسے رہنما موجود ہیں جنہوں نے یا تو سیاسی سفر کا آغاز پاکستان پیپلز پارٹی سے کیا یا پھر کم از کم کچھ نہ کچھ عرصہ اس سے منسلک رہے۔ اور جب تک ایسا رہا تب تک وہ ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف 9 ستاروں کی روشن مہم جوئی کو نا صرف ناجائز بلکہ سازش اور غیر جمہوری عمل قرار دیتے رہے اور 5 جولائی 1977 اور 4 اپریل 1979 کا سبب بھی اسی غیر جمہوری عمل کو سمجھتے رہے۔ اور آج وہ اپنی اپنی موجودہ جماعت کی نمائیندگی کرتے ہوئے وہی نعرے دہراتے پائے جا رہے ہیں جو 41 برس قبل نو رتن لگاتے تھے۔ چلیں اُن۔ ’’رہنماؤں‘‘ نے تو اب سیاسی قبلے تبدیل کر لئے ہیں لہذا ایسا ہو سکتا ہے کہ اُن کے خیالات یا نظریات کسی ارتقائی عمل سے گزرنے کے بعد پختگی آنے کے باعث اس نتیجے پر پہنچ گئے ہوں کہ وہ سب کچھ درست تھا جو 9 اپریل 1977 کو ہوا اور جس جس ہدف پر منتج ہوا۔

لیکن ایک غور طلب نکتہ اور بھی ہے جسے شاید بہت آسانی سے نظر انداز کرنا آسان نہیں۔ ایک ایسی سیاسی جماعت کے شریک چئیرمین اور سابق صدر اور اسی جماعت کے سرکردہ رہنما آج 40 ستاروں کے اس جھرمٹ میں سرکردہ ستارے کے طور پرنہ صرف شامل ہیں بلکہ سابق صدر صاحب یہ بھی فرما چکے ہیں کہ اس اتحاد اور تحریک کا مقصد موجودہ حکومت کو گرانا ہے۔ اس عمل نے کئی سوالوں کو جنم دے دیا ہے۔

کیا چند برس پہلے تک پاکستان کی سب سے بڑی شمار ہونے والی سیاسی جماعت کا وہ دعویٰ غلط تھا کہ اُن کے خلاف کوئی سازش ہوئی ہے۔ کیا یہ اس بات کی بھی تردید ہو گی کہ وہ ایک غیر فطری اتحاد صرف حکومت گرانے اور بھٹو کو زیر کرنے کی غرض سے تشکیل دیا گیا تھا؟ اگر اس کے نتیجے میں خُدا نخواستہ کوئی 5 جولائی واقع ہوتا ہے تو اُس کی روشنی میں 5 جولائی 1977 کو بھی مذکورہ جماعت کی طرف سے درست تسلیم کر لیا جائے گا؟ کیا آپریشن فئیر پلے کی طرح اگر معاملات خُدا نخواستہ 4 اپریل 1979 کی شکل میں منتج ہوتے ہیں تو کیا مذکورہ جماعت یا سابق صدر صاحب اِس سُرخ روئی کے جھنڈے کے ساتھ کھڑے ہو کر وہ 4 اپریل 1979 کو بھی درست تسلیم کر لیں گے؟ کیا سابق صدر اور شریک چئیرمین صاحب اس بات کو بھی تسلیم کر لیں گے کہ کل تک جسے وہ غیر جمہوری عوامل، سازش اور جمہوریت دشمنی کہتے رہے اور ان تمام معاملات کو اپنی گذشتہ انتخابی مہموں کا محور بھی بناتے رہے وہ سب کچھ در اصل اُس کے برعکس تھا اور جو کچھ 41 برس قبل ہوا تھا وہ اُن کی دانست میں درست ہوا تھا۔

کیا وہ اپنے سیاسی کارکنان کو بتائیں گے کہ بقول اُن کے جیسے 1977 کا غیر فطری اتحاد مبینہ طور پر غیر مرئی ہاتھوں نے تشکیل دیا تھا ویسے ہی ابھی وہ خود بھی مبینہ غیر مرئی ہاتھوں میں کھیل رہے ہیں یا کہ اُن کا پہلا موقف غلط تھا؟ کیا سابق صدر اپنی جماعت کے بانی اور بی بی شہید کو یہ بتانا پسند فرمائیں گے کہ وہ تمام عمر جو جدوجہد کرتے رہے یہاں تک کہ اپنی جانوں تک کا نذارانہ دے ڈالاوہ در اصل سیاسی بے شعوری تھی۔ کیا وہ مستقبل میں بھٹو کے حوالے سے عدالتی فیصلے کو عدالتی قتل نہیں بلکہ اُس وقت کے جائز اور مکمل طور پر سیاسی واقعات کے سلسلے کی ایک کڑی کہنے لگیں گے۔ کیا سابق صدر بی بی شہید کو یہ بتانا پسند فرمائیں گے کہ وہ کس مصلحت کے تحت 10 شہدا ء کے لئے انصاف مانگنے کے لئے اُن لوگوں کے ساتھ جا بیٹھے ہیں جو اُس وقت مرکز میں حکمران تھے جب 12 مئی جیسی خون کی ہولی کھیلنے کے بعد مُکے لہرائے جا رہے تھے۔ ایسے درجنوں سوالوں کا جواب تو بہرحال دینا ہوگا کیونکہ دو ایک جیسے معاملات یا تو دونوں درست ہوں گے یا پھر دونوں غلط۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).