نجی طور پر پاکستان آنے والے چینیوں کے مشکوک رویے


چند ہفتوں قبل کی بات ہے۔ مقامی پولیس کے جوان انار کلی میں معمول کی گشت کر رہے تھے۔ غالباً ان کو سلامتی کے حوالے سے غیر معمولی حالات کے سبب سے یہ ہدایت جاری کی گئی تھی کہ غیر ملکی افراد کی تمام احترام کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے شناختی دستاویزات کی جانچ پڑتال کریں۔ دنیا بھر میں یہ ایک معمول کا معاملہ تصور کیا جاتا ہے اور دوست ممالک کے شہری بھی اس پر ناگواری کا احساس ظاہر نہیں کرتے۔ قصہ مختصر کہ پولیس نے چند چینی افراد کو چہل قدمی کرتے ہوئے دیکھا اور دوستوں سے شناخت طلب کی۔ مگر رد عمل غیر معمولی طور پر غیر متوقع اور جارحانہ سامنے آیا۔ پولیس والے بھونچکا رہ گئے۔ جب ان افراد نے اپنی شناخت کروانے اور کسی بھی قسم کی شناختی دستاویزات کو پیش نہ کرنے کا رویہ اپنایا۔ غیر ملکی اور وہ بھی چینی۔ پولیس والوں کو سمجھ نہ آیا کہ چوک میں لگے اس تماشے سے جان کیسے چھڑائیں۔ بہرحال جان کسی نہ کسی طرح چھڑا لی گئی۔

مگر اس واقعے نے ہر اس شخص کو جھنجوڑ کر رکھ دیا جو کہ پاکستان اور چین کی مستحکم دوستی میں دونوں ملکوں کا مفاد دیکھتا ہے۔ کیونکہ اس نوعیت کے چھوٹے چھوٹے واقعات غلط فہمی اور رفتہ رفتہ معاملات کو بدمزگی کے حوالے کر ڈالتے ہیں۔ اور لازم ہے کہ ہم پاک چین دوستی کو ان دونوں المیوں سے بچانے کی غرض سے کھل کر اپنا نقطہ نظر بیان کریں۔ گزشتہ سال کی آخری سرماہی میں چینیوں کی دعوت پر دو بار چین کی سرزمین پر وقت گزارنے کا موقع ملا۔ دوستوں نے اس امر کا برملا اظہار کیا کہ انہیں سی پیک کے منصوبے کے پائیہ تکمیل تک پہنچانے میں پاکستان میں کچھ رکاوٹیں درپیش ہیں۔ غیر ضروری رکاوٹیں، شکایات افسوس ناک تھیں۔ مگر اسی طرح پاکستان کے سرکاری، سیاسی اور صحافتی حلقوں میں بھی بعض رویوں کے سبب سے چین کے معاملات پر ایک ابہام نظر آیا۔ دوستوں میں شکایت کی کیفیت ہو یا ابہام کا معاملہ۔ رفع فوراً ہونا چاہیے۔

پاکستان کے مقتدر سیاسی اور غیر سیاسی حلقوں میں اس امر پر کافی تشویش پائی جاتی ہے کہ جو چینی حکومت چین کی طرف سے پاکستان آ رہے ہیں۔ وہ تو مکمل دستاویزات رکھتے ہیں۔ مگر جو چینی برائے راست حکومت چین کی طرف سے نہیں آ رہے ان کی دستاویزات نا مکمل بلکہ مشکوک تک پائی گئی ہے۔ مشکوک دستاویزات کے حامل افراد مشکوک دستاویزات پر کیوں سفر کر رہے ہیں؟ معاملے میں اس وقت مزید چونکا دیا۔ جب چینی باشندے ایک صوبے سے غائب ہوئے اور بدقسمتی سے قتل ہو گئے۔ چونکنے کا معاملہ یہ تھا کہ یہ ویزا جن وجوہات کی بناء پر لے کر آئے تھے اس کی بجائے عیسائیت کی تبلیغ وہ بھی درپردہ میں مصروف تھے۔ ایسی مزید مذہبی سرگرمیاں دیکھنے کو مل رہی ہیں۔ مقاصد صرف تبلیغ ہے۔ اس کے آگے سوالیہ نشان ہے۔

پھر پاکستان میں غیر ملکی افراد کی حصص کی خریداری اور جائیداد خریدنے کے لئے باضابطہ قوانین موجود ہیں جو ان قوانین کے اندر رہتے ہوئے باآسانی خریدی جا سکتی ہیں۔ مگر کچھ معاملات میں سامنے یہ آیا کہ پاکستانیوں کو فرنٹ مین بنا کر جائیداد، حصص چینیوں نے خرید لئے۔ کاروبار کی دنیا میں کاروباری حربے ضرور استعمال کیے جاتے ہیں مگر ایسے حربے جن سے تشویش جنم لے سی پیک اور دیگر سفارتی معاملات کے حوالے سے بہت نقصان دہ ثابت ہوں گے۔ کاروبار کے حوالے سے یہ بھی دیکھنے میں آ رہا ہے کہ بعض کاروبار کے دفاتر بنائے گئے۔ مگر ان دفاتر سے کاروبار نہیں کیا جا رہا۔ کاروبار کے دفاتر سے اگر کاروبار نہ کیا جا رہا ہو تو۔ دھوکے بازی کی جا رہی ہوتی ہے۔ یہ تصور کیا کیا گل کھلا سکتا ہے۔ نوشتہ دیوار ہے۔

پھر اسی طرح پرائیویٹ سکیورٹی ایجنسیز کے قیام کا پاکستان میں طریقہ کار وضع کر دیا گیا ہے۔ کوئی کتنا بھی دوست کیوں نہ ہو۔ اس طریقہ کار سے روگردانی کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ مگر شکایت اس حوالے سے بھی موجود ہے۔ ابھی ان معاملات کی مکمل رونمائی عوامی طبقات میں نہیں ہوئی۔ اس لئے عوامی سطح پر یہ زیر بحث بھی نہیں۔ لیکن کوئی وقت لگتا ہے کہ ابہامات کے بادل برسنے بھی لگیں گے۔ کچھ دن قبل پشتونخواہ ملی عوامی پارٹی کے سینیٹر عثمان خان کاکڑ میرے پاس تشریف لائے۔ دوران گفتگو کہنے لگے کہ ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف کا قرضہ نہ دے سکو تو وہ مزید قرضہ دے کر اپنا قرضہ واپس نکلانے کی سبیل پیدا کرتے ہیں۔ مگر سری لنکا جب چین کا قرضہ نہ دے سکا تو آج اس کی بندرگاہ چین کے پاس ہے۔

دنیا بھر میں کیے گئے اقدامات کی پرکھ حکمت عملی کو سمجھنے کے لئے مناسب ہوتی ہے۔ اس امر میں کوئی دو رائے نہیں کہ پاکستان اور چین کی دوستی دونوں برابر ممالک کے لئے بہت اہمیت کی حامل ہے۔ چین میں جو بھی سی پیک پر بریفنگ ملی اس میں چینی دوستوں نے برملا اعتراف کیا کہ چین کے لئے سی پیک بنیادی اور پائلٹ پروجیکٹ ہے اور نہایت ضروری ہے۔ جبکہ پاکستان کے لئے اس کا پائلٹ بننا کتنا اہم ہو گا کوئی ڈھکا چھپا راز نہیں۔ جن مسائل کے حوالے سے گفتگو کی گئی ہے ابھی اپنی ابتدائی شکل میں وارد ہو رہے ہیں۔ لامحالہ جب سی پیک جیسے بڑے منصوبے پر عملدرآمد کیا جاتا ہے تو عملدرآمد کے ساتھ ساتھ نئے نئے چیلنج بھی درپیش ہوتے رہتے ہیں۔ یہ بھی اس نوعیت کے معاملات ہیں۔ دونوں ممالک کی حکومتوں کو فی الفور ان پر مشاورت کا عمل شروع کر دینا چاہیے۔ اگر سی پیک اور اس سے منسلک معاہدوں میں ان حوالوں سے خاموشی ہے۔ ابہام ہے یا یکطرفہ ہے تو یہ سقم نکال ڈالنے چاہیں کیونکہ چھوٹی چھوٹی باتیں بڑی بن جاتی ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).