عمران خان کا بی بی سی کے پروگرام ہارڈ ٹاک میں دیا گیا مکمل انٹرویو


( بامحاورہ اردو ترجمہ:مترجم: صوفی نعمان ریاض)

میزبان (زینب بداوی) : آپ کو یہ یقین کیونکر ہے کہ آپ کے پاس وہ مہارت اور تجربہ موجود ہے جس کے ہوتے ہوئے آپ پاکستان جیسے بڑی آبادی والے، متنوع اور پیچیدہ ملک کا نظام چلا سکتے ہیں؟

عمران خان: پاکستان کے ساتھ جو مسئلہ ہے وہ دراصل بالکل وہی مسئلہ جو دنیا کے تقریبا تمام ترقی پذیر ممالک کو درپیش ہے، اور وہ مسئلہ ہے اچھی گورننس کا، اچھی گورننس نا ہونے کی وجہ سے ہی ہم لوگ ابھی تک ناکام ہیں، یہی وجہ ہے کہ ہمارے ادارے کمزور ہیں اور کمزور ریاستی اداروں کی وجہ سے ہی ہم لوگ ملکی سطح پر اتنا ریونیو اکٹھا نہیں کر پاتے کہ ہم اپنے لوگوں کو ترقی یافتہ بنا سکیں، مختصراً دو بڑے مسئلے ہیں۔ ایک تو ریاستی اداروں کی بحالی اور دوسرا ریونیو اکٹھا کرنا تاکہ ہم اپنے لوگوں پر، ان کی تعلیم، صحت اور صاف پانی وغیرہ پر پیسہ خرچ کر سکیں۔

میزبان : آپ کیوں سمجھتے ہیں کہ آپ ایک درست آدمی ہیں جو یہ تمام تبدیلیاں پاکستان میں لاسکتے ہیں اور وہ مسائل حل کرسکتے ہیں جن کے بارے میں ہر بندہ جانتا ہے کہ وہ پاکستان کو لاحق ہیں؟

عمران خان: اچھا، اس لیے کہ جو دوسری دو سیاسی جماعتیں ہیں جو پچھلے تیس سال سے اقتدار میں آنے کی باریاں لگا رہی ہیں وہ ناکام ہو گئیں۔ ان کی حکومتوں میں پاکستانی ادارے کمزور ہوئے، پاکستان کی اعلی عدالت میں ہمارے سابق وزیر اعظم پر کیس چلتا رہا، چیف جسٹس نے عدالت میں کہا کہ پاکستانی ادارے تباہ ہو چکے ہیں۔

میزبان: آپ بات کر رہے ہیں پاکستان پیپلز پارٹی کی جس کے چیئرمین اس وقت بلاول زرداری ہیں اور مسلم لیگ ن کی جو کہ حکمران جماعت تھی جس کے سابق وزیراعظم نواز شریف کا آپ حوالہ دے رہے ہیں۔ دیکھیں ہو سکتا ہے کہ اُن کی آپ کی نظر میں کوئی وقعت نا ہو، آپ ان سے مطمئن نا ہوں لیکن اس کا مطلب ہم یہ نہیں لے سکتے کہ آپ بہر حال پاکستان میں اچھی گورننس کے لیے ایک موزوں انسان ہیں، کیونکہ ایک مصدقہ عوامی گیلپ سروے کے مطابق آپ کی جماعت تحریک انصاف کی مقبولیت اور محنت کے حق میں لوگوں نے 24 فیصد وو ٹ دیے جبکہ پاکستان مسلم لیگ ن کے لیے 36 فیصد ووٹ دیے۔ لہذا آپ نے دیکھا کہ ایک بہت بڑا پہاڑ ہے آپ کے آگے جو آپ کو عبور کرنا ہے۔

عمران خان: دیکھیں یہ گمراہ کن سروے ہیں، ان پر نا جائیں، اگر آپ انگلینڈ میں ڈیوڈ کیمرون کا الیکشن دیکھیں تو آپ کو یاد ہوگا کہ اس وقت یہ سوچا جا رہا تھا کہ کنزرویٹو پارٹی اور لیبر پارٹی دونوں ایک جتنے ووٹ لیں گے لیکن پھر آپ نے دیکھا کہ کیمرون نے ایک لینڈ سلائیڈ فتح حاصل کی۔ اس وقت یہ سروے ایسا ظاہر کر سکتا ہے، لیکن جب الیکشن کا وقت آتا ہے اور جب الیکشن میں جماعتیں اپنے منشور لے کر لوگوں کے ساتھ سامنے آتی ہیں تو اس وقت حالات ایک نیا رخ اختیار کرتے ہیں۔ اور مجھے یہ یقین ہے کہ یہ وہ وقت ہے جب میری پارٹی تحریک انصاف لینڈ سلائیڈ سے جیت سکتی ہے۔

میزبان: لیکن دیکھیں، مجھے یہ بات واضح کر نے دیں کہ آپ یہ عوامی سروے وغیرہ کو تو غلط کہہ سکتے ہیں، لیکن آپ کو معلوم ہے کہ پنجاب میں اگر اکثریت حاصل نا کر پائے تو آپ قومی الیکشن نہیں جیت سکتے، پاکستان کی آدھی آبادی تو ہے ہی وہاں پر اور پاکستان کا اہم ترین صوبہ بھی یہی ہے، ذرا یہ بتائیں کہ ابھی چند ماہ پہلے فروری میں، وہاں ضمنی انتخابات میں آپ کی پارٹی بری طرح ہاری ہے، زیادہ پرانی بات نہیں ابھی یہ گزشتہ فروری میں، خان صاحب یہ آپ کے لیے اچھی بات نہیں۔

عمران خان : زینب، دیکھیں، اگر آپ کو ہماری، یعنی پاکستان کی تاریخ کا پتہ ہو تو آپ دیکھیں گی کہ پاکستان میں ضمنی انتخاب ہمیشہ وہ جماعت جیتتی ہے جو اقتدار میں ہو۔ جب ن لیگ اپوزیشن میں تھی 2002سے 2007 کے درمیان تو وہ بھی مسلم لیگ ق سے سارے ضمنی انتخابات میں ہاری تھی لیکن عام انتخاب میں جیت گئی اور یہی سب پیپلز پارٹی کے دور میں بھی ہوا۔ اس لیے ضمنی انتخاب بھی کوئی اچھا معیار نہیں ہے کسی جماعت کی مقبولیت پرکھنے کا، ہاں لیکن ضمنی انتخاب ایک پارٹی کے مقبول ہونے کی طرف اشارہ کر سکتا ہے، آپ بالکل ذرا یہ دیکھیں کہ کچھ عرصہ پہلے کے سرویز کا نتیجہ دیکھا جائے تو تحریک انصاف بہت نیچے تھی لیکن اگر ابھی آپ دوبارہ کوئی سروے کروا کر دیکھیں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ تحریک انصاف غالباً مسلم لیگ ن کی سطح پر ہے۔

میزبان: اچھا، ویسے ابھی تک اپنے کو سسٹم سے باہر کا بندہ بنا کر پیش کیا ہے جو ایک ایسے سسٹم کے خلاف جنگ لڑ رہا ہے جو آپ کے کہنے کے مطابق غیر منصفانہ اور کرپٹ ہے، آپ ایک نیا پاکستان بنانا چاہتے ہیں لیکن آپ کی اپنی سوچ، ارادوں، پالیسیوں میں ایسا کیا مختلف ہے؟ وہ تو ویسا ہی لگتا ہے جو باقی پارٹیاں کہہ رہی ہیں۔ روٹی کپڑا اور مکان کا سلوگن تو پیپلز پارٹی کا ہے اور آپ ویسا ہی کچھ کہہ رہے ہیں۔ تو آپ میں ایسی کیا مختلف چیز ہے؟

عمران خان: اچھا، دیکھیں جو پہلے والی دو جماعتیں ہیں ان کی پالیسیز اور منصوبوں نے امیروں کو امیر اور غریبوں کو غریب کیا ہے، اس لیے امیروں اور غریبوں کے درمیان فرق پچھلے تیس برس میں بڑھ گیا ہے، اس وقت ہمارے پاس امیروں کا ایک چھوٹا سا جزیرہ اور غریبوں کا ایک بہت بڑا سمندر ہے۔ اور یہ فرق مزید بڑھ رہا ہے صرف ان دونوں جماعتوں کی پالیسیز کی وجہ سے۔

اچھا اب ہم کیوں مختلف ہیں؟ تو میں وہی بات دوبارہ کروں گا کہ ہم واحد جماعت ہیں جو سیاسی ادارے بنا سکتے ہیں۔ سب سے زیادہ مشکل کام پولیس کے ادارے کو بحال کرنا ہے۔ لیکن کے پی میں، یعنی پختونخوا، یہ پختونخوا وہ صوبہ ہے جس میں ہماری جماعت پانچ سال بر سر اقتدار رہی۔ یہ وہ صوبہ ہے کہ جس کے بارے میں ہر عوامی سروے کہتا ہے کہ سب سے اچھی پولیس خیبر پختونخوا کی ہے۔

وجہ یہی ہے کہ ہم نے اسے غیر سیاسی کر دیا، میرٹ پر نوکریاں دیں۔ اب یہ ایک بہترین ادارہ ہے، 2013 تک پولیس کا ادارہ ویسے ہی طالبان نے دہشتگردی نے تباہ کر دیا تھا سب سے زیادہ یہ ادارہ نشانہ بنا، لیکن اب یہ بہترین ادارہ ہے۔ جرائم اور دہشت گردی کم ہوئے ہیں۔ جو جماعتیں ادارے تباہ کردیتی ہیں وہ کبھی دوبارہ وہ ادارے نہیں بنا سکتیں۔

مضمون کا بقیہ حصہ پڑھنے کے لئے “اگلا صفحہ” کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3