مارٹن لوتھر کنگ اور امن کا خواب


مارٹن لوتھر کنگ 15 جنوری1929 کو ATLANTA GEORGIA کے ایک پادری گھرانے میں پیدا ہوئے۔ سوشیالوجی میں بی اے کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد وہ اپنے والد کے ساتھ BAPTIST CHURCH کی تعلیمات میں مصروف ہو گئے 1953میں انہوں نے کوریتا سے شادی کی اور 1954 میں گرجے کی باقاعدہ ذمہ داری سنبھال لی۔ انہوں نے اپنی تعلیم کا سلسلہ جاری رکھا اور جون 1955 میں بوسٹن یونیورسٹی سے دینیات میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔

دسمبر 1955 میں ROSA PARKS کے واقعہ نے نہ صرف مارٹن لوتھر کنگ کی زندگی بلکہ امریکہ کے کالے لوگوں کی تقدیر بدل ڈالی۔
یکم دسمبر 1955 کو مسز روزا پارکس جو اپنے علاقے کی محترم خاتون تھیں دن بھر کی مزدوری سے تھکی ہاری واپس لوٹ رہی تھیں۔ وہ بس میں چڑھیں تو سفید لوگوں کے لیے مقرر سیٹوں کی پچھلی قطار میں بیٹھ گئیں۔ تھوڑی دیر کے بعد ایک سفید فام شخص بس میں سوار ہوا تو ڈرائیور نے روزا پارکس سے کرسی خالی کرنے کو کہا۔ تھکی ہاری روزا پارکس نے خاموشی سے اٹھنے سے انکار کر دیا۔ ڈرائیور نے پولیس کو اطلاع دی اور انہیں گرفتار کر لیا گیا۔ عدالت میں روزا پارکس کے ایک دوست مسٹر نکسن نے انہیں ضمانت پر رہا کروا لیا۔ مسٹر نکسن نے مارٹن لوتھر کنگ کو اطلاع دی اور مشورہ دیا کہ بسوں کا بائیکاٹ کرنا چاہیے۔

مارٹن لوتھر کنگ نے گرجے میں ایک میٹنگ کا انتظام کیا جس میں مختلف علاقوں کے چالیس نمائندے شامل تھے۔ اس میٹنگ میں MONTGOMERY IMPROVEMENT ASSOCIATION کی بنیاد رکھی گئی اور مارٹن لوتھر کنگ کو صدر منتخب کیا گیا۔ سب نے مل کر فیصلہ کیا کہ 5 دسمبر 1955 بسوں کا بائیکاٹ کیا جائے گا کیونکہ ان بسوں میں کالے لوگوں کو مساوی حقوق حاصل نہ تھے۔ یہ بائیکاٹ ایک سال تک جاری رہا۔ منٹگمری کے پچاس ہزار کالے لوگوں نے بسوں میں سفر کرنے سے انکار کر دیا۔

21 دسمبر 1956 کو سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق بسوں میں نسلی امتیاز کو غیر قانونی قرار دیا گیا اور کالے اور گورے اکٹھے سفر کرنے لگے۔ مارٹن لوتھر کنگ جو ایک گمنامی کی زندگی گزار رہے تھے ایک ہی سال میں کالے لوگوں کے امیرِ کارواں اور بین الاقوامی شخصیت بن گئے۔ اس جانگسل جدوجہد میں مارٹن لوتھر کنگ کو کئی بار جیل کی صعوبتیں بھی برداشت کرنی پڑیں۔
28 اگست 1963 کو مارٹن لوتھر کنگ نے 250000 لوگوں کے ساتھ واشنگٹن کے لنکن میموریل تک جلوس کی سربراہی کی اور اپنی مشہور تقریر ’میں ایک خواب دیکھ رہا ہوں‘ سے قوم کو نوازا۔
اکتوبر1964 میں مارٹن لوتھر کنگ کو امن کا نوبل انعام دیا گیا۔

4 اپریل1968 کو جب مارٹن لوتھر کنگ اپنے ہوٹل کے کمرے کی بالکونی میں کھڑے بات چیت کر رہے تھے کسی نے چھپ کر انہیں گولی سے ہلاک کر دیا۔ مرتے وقت ان کی عمر صرف 39 برس تھی۔
1986 میں امریکہ کے صدر نے اعلان کیا کہ ہر سال جنوری کی تیسری پیر کو مارٹن لوتھر کنگ کے اعزاز میں پورے ملک میں تعطیل ہوا کرے گی تا کہ ہم سب ان کی جدوجہد اور کارناموں پر فخر کر سکیں اور ملک میں آزادی‘ انصاف اور برابری کی فضا قائم ہو سکے۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

’ہم سب‘ کے قارئین کے لیے مارٹن لوتھر کنگ کے چند فرمودات کا ترجمہ حاضر ہے۔

عظمت
ہر شخص عظیم بن سکتا ہے کیونکہ عظمت کی بنیاد خدمت ہے
خدمت کرنے کے لیے نہ تو کالج کی ڈگری کی ضرورت ہے نہ ارسطو اور سقراط کے فلسفے کی
خدمت کرنے کے لیے نہ آئن سٹائن کا نظریہ چاہیے نہ فزکس کے اصول
خدمت کرنے کے لیے صرف درد بھرے دل اور محبت بھری روح کی ضرورت ہے۔

معاف کرنا
ہمیں معاف کرنے کے جذبے کی پرورش کرنی چاہیے
جو شخص معاف نہیں کر سکتا وہ محبت بھی نہیں کر سکتا
ہم میں سے وہ لوگ جو سب سے اچھے ہیں
ان میں بھی کچھ خرابیاں ہیں
اور جو سب سے برے ہیں
ان میں بھی کچھ اچھائیاں ہیں
جب انسان میں اس بات کا شعور پیدا ہو جاتا ہے تو وہ
دشمن سے نفرت نہیں کرتا

فلسفہ
کالے گوروں سے بہتر ہیں
اتنا ہی خطرناک فلسفہ ہے جتنا کہ
گورے کالوں سے بہتر ہیں

امن
امن
ماحول میں صرف
کشیدگی کی کمی کا نام نہیں
انصاف کی فراوانی کا نام ہے

سیدھی کمر
اس دور کی سب سے بڑی فتح ایک داخلی تبدیلی ہے
اس دور نے کالے لوگوں کے ذہنوں اور روحوں کا بدل ڈالا ہے
اس دور نے کالے لوگوں کو عزتِ نفس اور خود اعتمادی کی دولت سے مالا مال کر دیا ہے
اس دور میں کالے لوگ تن کر کھڑے ہو گئے ہیں
اور جان گئے ہیں کہ
کوئی شخص آپ کی کمر پر اس وقت تک سوار نہیں ہو سکتا
جب تک کہ وہ کمر جھکی ہوئی نہ ہو

تشدد
تشدد کے ذریعے نسلی انصاف حاصل کرنی کی کوشش
ناقابلِ عمل بھی ہے اور غیر اخلاقی بھی
ناقابلِ عمل اس لیے کہ ایک دفعہ
تشدد شروع ہو جائے
تو اس کا انجام سب کی تباہی ہے
ایک آنکھ پھوڑنے کے بدلے دوسری آنکھ پھوڑنے سے
سب کے اندھے ہو جانے کا ڈر ہے
غیر اخلاقی اس لیے کہ
تشدد سے انسان مخالفوں کو نیچا دکھانے کی کوشش کرتا ہے ان کا ذہن نہیں بدلتا
انہیں نیست و نابود کرنے کی کوشش کرتا ہے ان کا دل نہیں جیتتا
تشدد کی بنیاد محبت پر نہیں نفرت پر ہے
تشدد لوگوں میں فاصلے بڑھاتا ہے قربتیں نہیں
تشدد معاشرے میں تبادلہِ خیال کے دروازے بند کر دیتا ہے
تشدد اپنے پاؤں پر خود کلہاڑی مارتا ہے
تشدد جیتنے والوں میں تلخی
اور ہارنے والوں میں ظلم کو پروان چڑھاتا ہے

تعلیم اور قانون
ہم تعلیم کے ذریعے لوگوں کے رجحانات
اور قانون کے ذریعے ان کے اعمال بدلنا چاہتے ہیں
ہم تعلیم کے ذریعے لوگوں سے تعصب اور نفرت کے جذبات کم کرنا چاہتے ہیں
قوانین کے ذریعے ان کے جذبات کی وجہ سے رونما ہونے والے اعمال کی روک تھام کرنا چاہتے ہیں
ہم تعلیم کے ذریعے لوگوں کے درمیان روحانی دیواروں کو
اور قوانین کے ذریعے ظاہری دیواروں کو گرانا چاہتے ہیں
ہم ان دونوں طریقوں کو لازم و ملزوم سمجھتے ہیں
جن لوگوں کا خیال ہے کہ نسلی انصاف کی منزل کی طرف ان میں سے صرف
ایک راستہ جاتا ہے
ہمیں ڈر ہے کہ ان کا یہ نظریہ
راستے میں رکاوٹیں کھڑی کرے گا
اور منزل تک رسائی حاصل کرنے میں بہت دیر لگ جائے گی

میں ایک خواب دیکھ رہا ہوں
اے مرے دوستو! ہم سب ایک ہی کشتی میں سوار ہیں
ہم سب مسائل کا سامنا کر رہے ہیں اور دن رات کی مصیبتیں برداشت کر رہے ہیں
لیکن میں ایک خواب دیکھ رہا ہوں امریکہ کے مستقبل کا خواب
میں خواب دیکھ رہا ہوں کہ ایک دن یہ قوم جاگ جائے گی اور اس نظریے کو عملی جامہ پہنائے گی کہ سب انسان برابر تخلیق کیے گئے ہیں
میں خواب دیکھ رہا ہوں کہ ایک دن جیورجیا کے سرخ پہاڑوں پر آقاؤں اور غلاموں کے بیٹے ایک ہی دسترخوان پر بیٹھ کر کھانا کھائیں گے
میں خواب دیکھ رہا ہوں کہ ایک دن مسی سپی میں جہاں ظلم اور نا انصافی کی گہری رات ہے آزادی اور انصاف کا سورج طلوع ہوگا
میں خواب دیکھ رہا ہوں کہ ایک دن میرے چاروں بیٹے ایسے ماحول میں جوان ہوں گے جہاں ان کا کردار ان کی جلد کی رنگت سے زیادہ اہم ہوگا
میں آج ایک خواب دیکھ رہا ہوں
میں خواب دیکھ رہا ہوں کہ ایک دن ایلاباما میں کالے بچے اور بچیاں گورے بچوں اور بچیوں کا ہاتھ پکڑ کر بہن بھائیوں کی طرح زندگی گزاریں گے
میں خواب دیکھ رہا ہوں کہ ایک دن اس ملک میں سب لوگ برابر تصور کیے جائین گے اور مل کر خوشی سے چلا اٹھیں گے ’ہم آزاد ہیں ہم آزاد ہیں‘
میں آج ایک خواب دیکھ رہا ہوں‘

ڈاکٹر خالد سہیل

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ڈاکٹر خالد سہیل

ڈاکٹر خالد سہیل ایک ماہر نفسیات ہیں۔ وہ کینیڈا میں مقیم ہیں۔ ان کے مضمون میں کسی مریض کا کیس بیان کرنے سے پہلے نام تبدیل کیا جاتا ہے، اور مریض سے تحریری اجازت لی جاتی ہے۔

dr-khalid-sohail has 689 posts and counting.See all posts by dr-khalid-sohail