زینب کا قتل اور بچوں کی سیکس ایجوکیشن کا مسئلہ


چکوال کے کچھ گاؤں میں ایک این جی او، بیداری، بچیوں کی سیکنڈری تعلیم کا کام کرتی ہے۔ وہ گاؤں کے غریب گھروں کی بچیوں کو سیکنڈری سکول جانے کے اخراجات مہیا کرتی ہے تاکہ وہ میٹرک یا انٹرمیڈیٹ لیول تک تعلیم مکمل کر سکیں۔ سیکنڈری لیول تک کی تعلیم حاصل کرنے کے سکالرشپ کے ساتھ ساتھ وہ ادارہ اپنے طور پر ان بچیوں کی لائف سکل بیسڈ تربیت (Life skill based education) پر بھی کام کرتا ہے۔ سیکنڈری لیول پر سکول جانے والی بچیوں کی تربیت کی جاتی ہے تاکہ وہ وہ سارے ہنر اچھی طرح سے سیکھ سکیں جو اچھی زندگی گزارنے کے لیے ہر کسی کو چاہیے ہوتے ہیں۔

یہ کام پچھلے کئی سالوں سے چل رہا ہے اور بہت سے لوگ خاص طور پر مائیں اس کام کی اہمیت اور اس کے فوائد سے خوب واقف ہیں اور وہ اس سلسلے میں اس ادارے کی حوصلہ افزائی بھی کرتے رہتے ہیں۔ بچیاں تو ادارے کے اس کام سے بہت ہی خوش ہیں اور تربیت میں بہت شوق سے حصہ لیتی ہیں۔ سب کچھ روٹین سے چل رہا تھا کہ بدقسمت زینب کے قتل کا کیس سامنے آ گیا۔

زینب کا کیس سامنے آیا تو عجیب و غریب قسم کے تبصرے ہوئے۔ ہمارے غیرت برگیڈ نے تو ٹی وی، اخبار، انٹرنیٹ، سوشل میڈیا اور لبرلز سبھی کو مورد الزام ٹھہرایا۔ بڑے ”سیانے“ لوگ اس سات سالہ بچی کے ریپ اور قتل جیسے بھیانک جرم کی وجہ یہ بتاتے ہیں کہ سوشل میڈیا پر جنسی مواد اور لبرلز کی گندی باتوں سے لوگوں کے جنسی جذبات ابھرتے ہیں اور پھر ان جذبات کی تشفی کے لیے معقول راستے میسر نہیں ہیں اس لیے ایسے واقعات ہو رہے ہیں۔ اس بیانیے کے ماننے والے لوگوں کی تعداد کافی ہے اس لیے اسے خوب زور شور سے پھیلایا گیا۔

بیداری جن گاؤں میں بچیوں کے ساتھ سیکنڈری ایجوکیشن اور زندگی کے ہنر سیکھنے کا کام کرتی ہے ان میں سے دو گاؤں کے لوگوں نے اس بیانیے پر یقین کیا اور اپنی بچیوں کے ساتھ بیداری کے کام پر اعتراض کیا۔ گاؤں کے لوگوں کا کہنا یہ تھا کہ بیداری این جی او کے لوگ (خواتین سٹاف) بچیوں کی اٹھارہ سال کی عمر کو پہنچنے سے قبل شادی کی مخالفت کرتے ہیں اور جنس اور جسم کے بارے میں نوجوان لوگوں کے ساتھ بات کرتے ہیں۔ ایسے ہی کاموں کی وجہ سے ہمارا معاشرہ خراب ہو رہا ہے اور زینب جیسی چھوٹی عمر کی بچیوں کے ریپ اور قتل کے اتنے زیادہ واقعات ہو رہے ہیں۔

لوگوں کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اس طرح کے اکا دکا واقعات تو ساری دنیا کے ہر ملک میں ہی ہوتے ہیں۔ ان واقعات سے بچنے کے لیے بچوں اور بڑوں کو آگاہی دینی ہے نہ کہ انہیں بے علم اور جاہل رکھنا ہے۔ کون سا بچہ یا بچی اپنی بہتر حفاظت بہتر کر پائے گا وہ جس کو علم ہو گا کہ اس طرح کے واقعات ہو سکتے ہیں اور ان سے بچنے کا کیا طریقہ ہے یا وہ جس کو اس کے متعلق کچھ علم ہی نہ ہو گا۔ بات تو واضح ہے لیکن روایات سے ہٹ کر سوچنا اور کرنا مشکل کام ہے اور سب کے بس کی بات نہیں ہے۔

ایک اور بات یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ریپ یا بچوں کے جنسی استحصال (child sexual abuse) کی وجہ مردانہ جنسی طاقت کا زیادہ ہونا یا اس کی تشفی کے معقول ذرائع نہ ہونا نہیں ہے۔ بہت سے لوگ جو عورتوں کے ریپ کرتے ہیں وہ شادی شدہ ہوتے ہیں اس لیے انہیں اپنے جنسی جذبات کی تسکین کا کوئی مسئلہ نہیں ہوتا۔ اگر شادی شدہ نہ بھی ہوں یا اپنی بیوی کے ساتھ نہ بھی رہ رہے ہوں تو سارے مردوں کو خود لذتی کا علم ہے اور تقریبا سارے مرد زندگی کے کسی نہ کسی دور میں اس کا مزا بھی لیتے ہیں۔ اس لیے اپنے جنسی جذبات کی تسکین کے لیے ریپ کرنے کی ضرورت بالکل بھی نہیں ہوتی۔ مزید یہ کہ جنگوں میں جب مخالف فریق کی عورتوں کے بڑے پیمانے پر ریپ کیے جاتے تو وہ جنسی جذبے کی تشفی کے لیے نہیں ہوتے۔ اس لیے ریپ اور بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی یا عورتوں اور بچوں کی جنسی ہراسانی ”پاور“ کے زمرے میں آتی ہے۔ طاقت ور فریق کمزور فریق کا مالی اور جنسی استحصال کرتا ہے۔ اس سے بچا جا سکتا ہے۔ وہ کیسے؟

اس سے بچنے کا طریقہ یہ ہے کہ کمزور کی داد رسی اور انصاف کے لیے بندوبست کیا جائے اور طاقت ور کو قانون کی مدد سے کنٹرول کیا جائے۔ صرف دعاؤں اور تبلیغ سے کسی کا اخلاق ٹھیک نہیں ہو سکتا۔ اس کے لیے عملی طور پر کام کرنا لازمی ہوتا ہے۔ بہت سے ممالک نے اس پر بہت کام کر لیا ہے اس کو سمجھنے کے لیے بے پناہ تحقیق کی گئی ہے۔ اس تحقیق اور علم کی بنیاد پر انتظامات کیے گئے ہیں۔ وہ بندوبست بچوں اور عورتوں کو جنسی استحصال سے بچاتے ہیں۔ قوانین بنائے گئے ہیں۔ والدین، اساتذہ، عام لوگ اور بچوں کو آگہی دی گئی ہے تاکہ سب لوگ چھوٹے سے چھوٹے الارم کو بھی محسوس کر سکیں اور چوکنے ہو جائیں۔ والدین اور اساتذہ کی خاص طور پر تربیت کی جاتی ہے کہ وہ بچوں اور عورتوں کی حوصلہ افزائی کریں تاکہ بچے اپنی شکایت یا پرابلم ان تک بلا خوف اور بلا جھجھک ان تک پہنچا سکیں۔ بچوں میں رویے کی تبدیلی پر خاص نظر رکھی جاتی ہے اور کسی بھی چھوٹی موٹی تبدیلی کو نظرانداز نہیں کیا جاتا۔

حوصلہ افزائی کی بات یہ ہے کہ بدقسمت زینب کے واقعے کے بعد زیادہ تر لوگوں نے اس آگہی اور علم و تربیت دینے کے طریقے کو ہی اس مسئلے کا حل سمجھا ہے اور انہوں نے بیداری کے بچیوں کے ساتھ تربیتی کام کی مزید حوصلہ افزائی کی ہے۔ کئی ایسے گاؤں جن میں یہ کام نہیں ہو رہے تھے انہوں نے بھی بیداری کو اپنی بچیوں کے ساتھ یہی تربیتی کام کرنے کی دعوت دی ہے۔ ایسی دعوتیں سکولوں کی جانب سے بھی آنا شروع ہو گئی ہیں۔ ہماری حکومت بھی اگر اسی پر کام کرے تو بہتری کی امید کی جا سکتی ہے۔

سلیم ملک

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سلیم ملک

سلیم ملک پاکستان میں شخصی آزادی کے راج کا خواب دیکھتا ہے۔ انوکھا لاڈلا کھیلن کو مانگے چاند۔

salim-malik has 355 posts and counting.See all posts by salim-malik