سرسید کی بگیا میں ایک دن (آخری حصہ)


دوپہر کا وقت بیت چلا تھا اور احمد فوزان کا فون بھی بار بار آرہا تھا، سو جلدی مرکز لوٹ آیا۔ ادھر مہمان خانے میں کھانا چن دیا گیا تھا۔ روٹی’دال مکھنی’ اور سلاد پرمشتمل سادہ مگر صاف ستھرا کھانا اچھا لگا، میں پوری توجہ اور خلوص کے ساتھ اس کی طرف متوجہ ہوگیا۔ میرا انہماک اس وقت ٹوٹا، جب کچھ طلبا اندر آکر میرے پاس بیٹھ گئے۔ طلبا سے ملاقات اچھی رہی۔ طلبا سے اس بات چیت میں جہاں ان کی پریشانیوں کو جاننے کا موقع ملا، وہیں برج کورس کے فوائد اور اس سے طلبا کی زندگیوں میں پڑنے والے اثرات سے واقفیت ہوئی۔

جس بات کی مجھے سب سے زیادہ خوشی ہوئی وہ یہ تھی کہ یہاں ہر طالب علم میں کچھ جاننے اور سیکھنے کی خاطر بے چینی اورشوق تھا۔ بیش تر طلبا مدارس سے یہاں سے کورس کی تکمیل کے بعد مواقع اوراس مرحلے کے کورسوں میں داخلے اور تیاری کی بابت جاننا چاہ رہے تھے۔ بات چیت کے بعد وہاں سے باہر نکلا تو دیکھا کہ بیش تر طلبا لائبریری یا اپنے کمروں میں محو مطالعہ تھے۔ یہ منظرمیرے لیے بہت پرکشش تھا۔ آج ہمارے اداروں میں ذاتی مطالعہ آزادانہ اور ذمہ دارانہ غور و فکر ہی تو جیسے مفقود ہوکر رہ گیا ہے۔

برج کورس کے طلبا نے بات چیت میں جہاں اساتذہ اور نظام تعلیم کی تعریف کی وہیں کچھ طلبا نے بتایا کہ انھیں دیگر کورسوں کے طلبا کی طرح کھیل کود اور دیگر سرگرمیوں میں حصہ لینے کی آزادی نہیں ملتی۔ جب میں نے ذمہ داران سے اس بارے میں بات کی تو انھوں نے بتایا کہ ایسی بات بالکل نہیں ہے؛ ہاں! اس کے لیے وقت متعین ہے۔ ہم طلبا کو زیادہ تر پڑھائی لکھائی میں اس لیے مصروف رکھنا چاہتے ہیں کہ وہ ایک خاص مقصد سے یہاں آتے ہیں اور ہماری کوشش ہوتی ہے کہ وہ جس مقصد کے لیے آئے ہیں اس کے حصول میں ان کی توجہ زیادہ مرکوز رہے۔ ایک سال کا وقت یوں بھی بہت کم ہوتا ہے اور باہر کا کمپٹیشن بہت سخت، پھر علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں مستقل کوئی نہ کوئی تنازع بپا ہوتا رہتا ہے؛ کبھی سیاست کے نام پر تو کبھی کسی اور نام پر اور چوں کہ برج کورس میں پڑھنے والے طلبا سب کے سب مدارس کے فارغ التحصیل ہوتے ہیں، اس لیے باہر کے لوگ بھی ان پر سخت نظر رکھتے ہیں؛ ان کی تھوڑی غلطی کو بھی بڑا بنا کر پیش کیا جا سکتا ہے۔ انھیں ان تمام چیزوں سے بچا کر رکھنا ہماری ذمہ داری ہے، اس لیے ہم طلبا کو ہدایت کرتے ہیں کہ وہ تعلیم پر توجہ دیں اور دیگر مشغولیات میں اپنا وقت ضایع نہ کریں۔

یہاں پر برج کورس کے بارے میں طلبا سے بات چیت میں مثبت اور منفی دونوں قسم کی رائے سامنے آئیں، جہاں کچھ طلبا نے اس کورس کی بے انتہا تعریف کی وہیں کمیوں اور خامیوں کی جانب بھی نشان دہی کی، لیکن مکمل طور پر بغیر تحقیق کے اس بارے میں کچھ بھی تبصرہ کرنا قبل از وقت ہوگا۔ ان طلبا اور ان کے سرپرستوں سے جو اس میں داخلہ لینا یا دلوانا چاہتے ہیں، میں یہ ضرور عرض کرنا چاہوں گا کہ وہ فارم پر کرنے سے قبل ایک مرتبہ نصاب وغیرہ کا مطالعہ اچھی طرح کرلینے کے بعد ہی کوئی فیصلہ کریں۔ ہمارے یہاں بد قسمتی یہ ہے کہ ہم کہیں بھی داخلہ لینے جاتے ہیں، تو اس بارے میں بہت کم جانچ کرتے ہیں، حالاں کہ ہدف اور منزل کا تعین کرلیا جائے تو کسی سے بھی شکوہ یا شکایت کا موقع کم ہی رہ جاتا ہے۔

تقریباً چار بجے کے قریب برج کورس کے ڈائریکٹر ڈاکٹر راشد شاذ اوران کی اہلیہ ڈاکٹر فاطمہ کوثر سے ملاقات ہوئی۔ ایک ڈیڑھ گھنٹے کی ملاقات کافی بھرپور رہی۔ ٹھنڈ میں خوش ذائقہ دارجلنگ چائے کی سوغات پیش کی گئی اور بات چیت کا سلسلہ چلتا رہا۔ ہماری یہ گفتگو کب شروع اور کب ختم ہوئی پتا ہی نہیں چلا۔ ہماری گفتگو کا محور ہندوستانی مسلمانوں کے مسائل، سیاست، تعلیم و تعلم اوربرج کورس کے متعلق رہا۔ اس درمیان میں نے مطالعہ اور لکھنے کے انداز پر سوالات کیے، جس میں انھوں نے کئی اہم طریقے اور گر کے بارے میں مجھے بتایا۔

یوں تو میرے پاس پوچھنے کے لیے بہت کچھ تھا اور ان کے پاس بھی کہنے کے لیے ڈھیروں باتیں، مگر سرکتے وقت کو قابو میں کرنا ہمارے بس کی بات نہیں تھی، سو نہ چاہتے ہوئے بھی گفتگو کو سمیٹنا پڑا اور مغرب کی اذان کے ساتھ ہم نے مسجد کی راہ لی۔ نماز کے بعد مجھے دہلی کے لیے بھی نکلنا تھا۔ نکلتے وقت ڈاکٹرصاحب نے مجھے ڈھیر ساری کتابوں کے ساتھ رخصت کیا۔ مجھے ان کا یہ انداز بہت اچھا لگا کہ وہ اور ان کی اہلیہ دونوں بس تک اپنی کار سے مجھے چھوڑنے آئے۔

اس بار میں تنِ تنہا تھا تو کسی طرح کا کوئی دباؤ بھی مجھ پر نہیں تھا، میں بہت سارے لوگوں سے مل سکتا تھا، طلبا سے ان کے ‘من کی بات’ معلوم کر سکتا تھا، کیمپس میں گھوم پھر کر چشمِ تصورسے سرسید اوران کے رفقا سے ہم کلام ہو سکتا تھا، لیکن ”اے بسا آرزو کہ خاک شدہ“، ایک مرتبہ پھر وقت کی قلت کی وجہ سے دل مسوس کر رہ گیا۔ علی گڑھ کو اتنی فرصت سے میں نہیں دیکھ سکا جتنی فرصت کے ساتھ میں چاہتا تھا۔ ایک بار پھر شام ہو چلی تھی، بس کے چلنے کا وقت قریب سے قریب تر آرہا تھا۔ سو میں نے نکلنا ہی مناسب جانا۔ ڈاکٹر شاذ اور ان کی اہلیہ نے بہت ضد کی کہ رک جاؤ! کل صبح چلے جانا، مگر مجھے اگلے روز جامعہ، اپنے دفتر میں حاضری بھی دینا تھی۔ سو ناتمام آرزووں اور حسرتوں کے ساتھ سرسید کی بگیا کو آخری سلام پیش کرتے ہوئے واپس دہلی کی ہنگامہ خیزی کی طرف لوٹ آیا۔

اس مختصر وقت میں علی گڑھ اور جامعہ کے ماحول میں جو فرق میں نے محسوس کیا، وہ یہ ہے کہ علی گڑھ میں زندگی ٹھیری ٹھیری اور سمٹی سمٹی سی نظر آتی ہے۔ اس کے برعکس دہلی میں بہت بھاگم دوڑ اور افراتفری کا ماحول ہے۔ سرسید کے اس دیار میں عام ریسرچ اسکالر یا طالب علم سے بھی آپ بات چیت کریں گے تو وہ بہت پرسکون اور مطمئن نظر آئے گا۔ جب کہ دہلی یا جامعہ میں طلبہ اپنے کیریئر اور مستقبل کو لے کر بہت متفکر اور مضطرب نظر آئیں گے۔

معاملہ جو بھی ہو میں سمجھتا ہوں ان دونوں اداروں کا ملک و ملت پر بڑا احسان ہے، لیکن آزادی کے بعد سے جس طرح مسلمانوں کے ساتھ عصبیت، بھید بھاؤ اورانھیں حاشیہ پر رکھ دیے جانے کا رویہ اپنایا گیا، یہ ادارے بھی اسی کا شکار رہے اور موجودہ حکومت کی نگاہ میں تو یہ دونوں ان کی آنکھوں کا شہتیر بنے ہوئے ہیں، جنھیں ان کی ہر ادا میں کیڑے ہی کیڑے نظر آتے ہیں۔ یہ دونوں ملک میں اقلیتوں کی تعمیر و ترقی کے لیے بنائے گئے تھے مگر آج ان کے اسی کردار کو ختم کرنے کی بات کی جارہی ہے، جہاں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے اقلیتی کردار کا معاملہ عدالت عظمیٰ میں ہے، وہیں جامعہ ملیہ اسلامیہ کا اقلیتی کردار ختم کرنے کے لیے بی جے پی حکومت نے حلف نامہ ڈالا ہوا ہے۔

ان تمام کے باوجود دونوں نے جس انداز میں ملک کی تہذیب، ثقافت، اتحاد و سالمیت اور ان سب سے بڑھ کر جمہوریت کی بقا کے لیے کوششیں کی ہیں، وہ نصیبہ کم ہی اداروں کے حصے میں آیا ہوگا، انھی کی دین ہے کہ ہم دیہاتی اور جنگلی لوگ بھی حرف و قلم سے رشتہ جوڑ لیتے ہیں۔ اللہ ہمارے اس سرمائے کو دشمنوں کی نظر بد سے بچائے۔​​

محمد علم اللہ جامعہ ملیہ، دہلی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

محمد علم اللہ جامعہ ملیہ، دہلی

محمد علم اللہ نوجوان قلم کار اور صحافی ہیں۔ ان کا تعلق رانچی جھارکھنڈ بھارت سے ہے۔ انہوں نے جامعہ ملیہ اسلامیہ سے تاریخ اور ثقافت میں گریجویشن اور ماس کمیونیکیشن میں پوسٹ گریجویشن کیا ہے۔ فی الحال وہ جامعہ ملیہ اسلامیہ کے ’ڈاکٹر کے آر نارائنن سینٹر فار دلت اینڈ مائنارٹیز اسٹڈیز‘ میں پی ایچ ڈی اسکالر ہیں۔ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا دونوں کا تجربہ رکھتے ہیں۔ انھوں نے دلچسپ کالم لکھے اور عمدہ تراجم بھی کیے۔ الیکٹرانک میڈیا میں انھوں نے آل انڈیا ریڈیو کے علاوہ راموجی فلم سٹی (حیدرآباد ای ٹی وی اردو) میں سینئر کاپی ایڈیٹر کے طور پر کام کیا، وہ دستاویزی فلموں کا بھی تجربہ رکھتے ہیں۔ انھوں نے نظمیں، سفرنامے اور کہانیاں بھی لکھی ہیں۔ کئی سالوں تک جامعہ ملیہ اسلامیہ میں میڈیا کنسلٹنٹ کے طور پر بھی اپنی خدمات دے چکے ہیں۔ ان کی دو کتابیں ”مسلم مجلس مشاورت ایک مختصر تاریخ“ اور ”کچھ دن ایران میں“ منظر عام پر آ چکی ہیں۔

muhammad-alamullah has 168 posts and counting.See all posts by muhammad-alamullah

1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments