اسرائیل بھارت : دو قوموں کی دوستی


اسرائیل کے وزیراعظم نیتن یاہوکے دورہ بھارت نے دونوں ممالک کی دوستی اور محبتوں کا چرچا چار دانگ عالم پھیلا دیا۔ نیتن یاہو اور نریندر مودی نے باہمی تعلقات کو ایک نئی جہت دی ہے۔ اب دوستی محض دو مملکتوں تک محدود نہیں رہی بلکہ دونوں قومیں یعنی یہودی اور ہندو باہمی تعاون اورطویل المعیاد اشتراک کے بندھن میں بندھ گئے ہیں۔ کروڑوں مسلمانوں کے جذبات کے برعکس دہلی میں نیتن یاہو کا پرتپاک اور تاریخی استقبال کیا گیا۔ وزیراعظم مودی جو سفارت کاری میں ذاتی تعلقات اور مہمان نوازی کا غیر معمولی استعمال کرتے ہیں، نے نہ صرف نیتن یاہو کے دورہ بھارت کو یادگار بنانے کے لیے نت نئے طریقے استعمال کیے بلکہ اسرائیل کی خوشنودی حاصل کرنے کی خاطر فلسطین اور عربوں کے جذبات کی بھی کوئی پراہ نہیں کی۔

بھارت نے فلسطینی کاز کے بارے لاتعلقی کی پالیسی کا اظہار تین دہائیوں قبل شروع کردیا تھا تاہم کچھ نہ کچھ توازن یا برہم برقراررکھنے کی خاطر بھارتی سیاسی قیادت تل ابیب کے ساتھ ساتھ فلسطین کا بھی دورہ کرلیا کرتی تھی لیکن گزشتہ برس بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے اسرائیل سے دوستی کو ایک اور رخ دیا۔ وہ تل ابیب گئے لیکن کسی فلسطینی لیڈر سے نہ ملے۔ نیتن یاہو کے دورے کے بعد اب بھارت سے فلسطینی کاز کی حمایت کی توقع حماقت کے سوا کچھ نہیں۔

بھارت اور اسرائیل کے درمیان تعلقات کوئی نئی بات نہیں۔ پچیس برسوں سے ان تعلقات میں مسلسل گہرائی اور گیرائی آتی گئی۔ ٹکنالوجی اور خاص کر جدید ہتھیاروں کا تبادلہ بھی کیا جاتا رہا لیکن بھارت کی طرف سارے عمل کی تشہیر نہیں کی جاتی تھی۔ بھارتی مسلمانوں کی طرف سے ردعمل کا خوف بھی رہتا تھا اور عرب ممالک اور خاص عالم اسلام سے تعلقات میں بگاڑ کا اندیشہ بھی تھا لیکن موجودہ بھارتیہ جنتاپارٹی کی حکومت نے ان دونوں خطرات کو بالاطاق رکھتے ہوئے اسرائیل کے ساتھ بھارت کی دوستی کی نہ صر ف تشہیر کی بلکہ اسے بھارت کی خارجہ پالیسی کی کامیابی بنا کر پیش کیا۔ حکمران بی جے پی چونکہ بھارت کو ایک ہندو ریاست جیسے وہ ہندو راشٹرایہ کہتے ہیں بنانے کی راہ پر گامزن ہے لہٰذا اسے مسلمانوں کے جذبات کی فکر ہے اور نہ ووٹوں کی ضرورت۔ امریکہ کے ساتھ تعلقات کے نشے میں سرشار مودی حکومت کو عالم اسلام یا مسلم ممالک کی بھی کوئی فکر نہیں۔ زیادہ تر طاقتور عرب ممالک امریکہ کے لے پالک ہیں۔ وہ بھارت کی مخالفت کا خطرہ مول نہیں لے سکتے۔ عرب ممالک میں کئی ایک اب ایران سے مقابلے کے لیے اسرائیل سے تعاون کے بھی طلب گار ہیں۔ ان کا اسرائیل کے خلاف موقف نرم پڑھ چکا ہے۔

اسرائیل کے وزیراعظم کے موجودہ دورے کو دنیا میں تیزی بڑھتی ہوئی تقسیم کے تناظر میں دیکھاجانا چاہیے۔ امریکہ کے سارے اتحادی بھارت، جاپان، آسڑیلیا اور اسرائیل سب ایک صفحے پر جمع ہورہے ہیں تاکہ وہ مستقبل میں ایشیا سے ابھرتی ہوئی نئی طاقتوں بالخصوص چین کی ترقی کی رفتار کو سست کرسکیں۔ پاک چین اقتصادی راہداری کی کوکھ سے جنم لینے والے ثمرات کو محدود سے محدود ترکر سکیں۔ سب سے بڑھ کر خطے میں چین کے وسعت پزیر اسٹرٹیجک اثرورسوخ کے آگے بھی بندھ باندھ سکیں۔

نیتن یاہو کے دورے نے اسلام آباد میں خطرہ کی گھنٹی بجادی ہے۔ یہ دورہ بھارت اس وقت ہوا جب پاکستان اور بھارت کے درمیان تعلقات زبردست کشیدہ ہیں۔ امریکہ بھی پاکستان کو نہ صرف کھلے عام کوس رہا ہے بلکہ دھمکا رہا ہے۔ بطور سزا صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پاکستان کی امداد معطل کردی ہے۔ پاکستان نے جوابی طوپرر سیکورٹی تعاون سے ہاتھ کھینچ لیا۔ بھارت کے آرمی چیف جنرل بپن روات نے پاکستان کے ایٹمی پروگرام کو فریب قراردے کر زبردست مذاق اڑایا۔ اگرچہ پاکستان نے جوابی بیانات میں بھارتی جنرل کو غیر ذمہ دار قراردیا اور کہا کہ وہ ہمارا عزم آزما سکتے ہیں۔

کنٹرول لائن پر جنگ کی سی کیفیت برپا ہے۔ کوئی دن جاتا نہیں کہ سویلین اور فوجی جوان شہید نہ ہوتے ہوں۔ محض اس ہفتے چار جوان شہید کر دیے گئے۔ داخلی سیاست اور خاص کر وفاق میں کمزور حکومت کے باعث سرحدوں پر جاری کشیدگی اور شہادتوں پر میڈیا کی کوئی توجہ نہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہزاروں شہری نقل مکانی کرچکے ہیں اور ان کا کوئی پرسان حال نہیں۔ پاکستان کی مغربی سرحد پر بھی حالات نہ صرف تناؤ کا شکا رہیں بلکہ حالیہ دنوں پہلی بار پاکستان نے کھلے عام کہا کہ افغانستان اور بھار ت کے خفیہ ادارے باہمی اشتراک سے پاکستان کے اندر عدم استحکام ہی نہیں بلکہ دہشت گردی کی کارروئیوں کو ہوا دے رہے ہیں۔

اس پس منظر میں اسرائیل اور بھارت کے درمیان بڑھتی ہوئی قربتیں نہ صرف پاکستان کی مشکلات میں اضافہ کرتی ہیں بلکہ عالمی سطح پر جاری پاکستان مخالف مہم کو تقویت پہنچاتی ہیں۔ اسرائیلی اور یہودی لابی کے عالمی مالیاتی نظام اور میڈیا پر غلبے کی ہوش ربا داستانیں زباں زدعام ہیں۔ دوسری جانب امریکی اسٹبلشمنٹ کی اسرائیل کے لیے غیر مشروط حمایت بھی ایک کھلی حقیقت ہے۔ صدر ٹرمپ کے اسرائیل کے ساتھ ذاتی روابط اور جھکاؤ کسی سے پوشیدہ نہیں۔ دنیا بھر کی مخالفت کے باوجود ٹرمپ اپنا سفارت خانہ یروشلم منتقل کرنے کو بے تاب ہیں۔ فلسطین کے ساتھ اسرائیلی حکومت کے جا رہا نہ طرزعمل میں کوئی کمی نہیں آرہی۔ ان کی مزاحمت کچلنے کے لیے بے دریغ طاقت کا استعمال کیا جاتاہے۔ حالیہ چند ہفتوں میں سوشل میڈیا نے اسرائیل کی چیرہ دستیوں کو بری طرح بے نقاب کیا ہے۔

اس گھمبیر صورت حال کا مقابلہ کرنے کے لیے پاکستان کو اعلیٰ پائے کی سفارت کاری کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ دشمنوں کی تعداد کم کرنے کی کوشش کرنا ہوگی۔ خاص کر افغانستان اور بھارت کے ساتھ کشیدگی کی موجودہ سطح کو کم کرنے کی کوشش کی جانی چاہیے۔ اگرچہ بھارت کی جانب سے مسلسل اشتعال انگیزی کی جارہی ہے لیکن اس کے باوجود کوشش ہونی چاہیے کہ مذاکرات کی بحالی کی کوئی راہ نکل آئے۔ حال ہی میں پاکستان کے نیشنل سکیو رٹی ایڈوائزر جنرل (ر) ناصر خان جنجوعہ اور ان کے ہم منصب اجیت ڈول کے مابین بینکاک میں مذاکرات کا ایک دورہوا۔ بات چیت کے اس سلسلے کو ٹوٹنے نہیں دینا چاہیے۔ پاکستان کو کم ازکم دس سے پندرہ سال کا عرصہ درکا ر ہے جس میں سی پیک کے اکثر منصوبے مکمل ہوجائیں گے۔ اس کی اقتصادی صورت حال میں نمایاں بہتری آجائے گی۔ پاکستان کے حریفوں کی خواہش ہے کہ اس دوران اسے داخلی سیاسی کشمکش کا شکار کردیا جائے۔ اس کے پڑوسیوں کے ساتھ بھی تعلقات کو تلخ کردیا جائے تاکہ وہ داخلی اور خارجی دباؤ کے سامنے ڈھیر ہوجائے اور سی پیک سے کوئی خاطر خواہ فائدہ نہ اٹھاسکے۔ اس پس منظر میں دانشمند تجزیہ کاروں کی رائے ہے کہ پاکستان کو امریکہ، بھارت، افغانستان اور اسرائیل کے ساتھ تناؤ کم کرنے کی خود بھی سنجیدہ کوشش کرنی چاہیے۔

ارشاد محمود

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ارشاد محمود

ارشاد محمود کشمیر سے تعلق رکھنے والے ایک سینئیر کالم نویس ہیں جو کہ اردو اور انگریزی زبان میں ملک کے موقر روزناموں کے لئے لکھتے ہیں۔ ان سے مندرجہ ذیل ایمیل پر رابطہ کیا جا سکتا ہے ershad.mahmud@gmail.com

irshad-mehmood has 178 posts and counting.See all posts by irshad-mehmood