ایک حسینہ تھی اور ایک دیوانہ تھا


ایک حسینہ تھی اور ایک دیوانہ تھا۔ دونوں ایک دوسرے کی چاہت میں گم ایک دوسرے سے ہی انجان۔ عشق کی ڈور میں بندھے۔ وہ ڈور جس کو کوئی کید و کوئی لہر کبھی نہ توڑ پائی۔ اگر کبھی یہ عشق کی ڈوری ٹوٹتی بھی ہے تو خود عاشقوں کے ہاتھوں۔ حسینہ خود عاشق بھی تھی اور معشوق بھی اور دیوانہ؟ دیوانہ بس دیوانہ تھا۔ اب نہ حسینہ ہے نہ ہی وہ دیوانہ۔ وقت گزر رہا تھا اور اس گزرتے وقت کے ساتھ حسینہ دیوانے کی چاہت پا کرحسین تر ہو رہی تھی اور دیوانہ بھی حسینہ کی محبّت میں مدہوش تھا۔ دونوں میں سے کسی نے محبّت سے فرار کا کبھی سوچا بھی نہیں تھا۔ دیوانہ تو دیوانہ تھا ہی، حسینہ بھی کہا کرتی تھی کہ مجھے کیا لینا دیوانے سے۔ میری تکمیل تو میرا اپنا عشق کر رہا ہے۔ بہت بڑی سعادت ہے یہ عشق بھی۔ حسن اور دیوانگی جب آپس میں ضم ہوتے ہیں تو ایک شاہکار کی تخلیق ہوتی ہے۔ ایک فسوں کار شاہکار جس کی مثال صدیاں دیا کرتی ہیں۔

عشق کی تاریخ گواہ ہے کہ حسن دیوانوں کا ساتھ اور ہاتھ کبھی نہیں چھوڑتا۔ بلکہ دیوانے کی تمام تر وحشت کو اپنے دامن میں سمیٹ لیتا ہے۔ حسن ایک حفاظتی حصار بن جاتا ہے اور دیوانے کو اپنے دامن میں یوں چھپا لیتا ہے کہ ایک بھی پتھر دیوانے کو نہیں لگتا۔ یہی ریت بھی ہے۔ اس حسینہ نے بھی یہی کیا تھا۔ مگر دیوانہ تو دیوانہ تھا۔ اس کو کیا ہوش کہ وہ کہاں کہاں سے گزر کر یہاں تک آ گیا ہے۔ پھر ایک روز دنیا کے بازار سے گزرتےہوے دیوانے کو ایک گڑیا پسند آ گئی۔ اس کی زد کرنے لگا۔ حسینہ معشوق تھی، عاشق بھی تھی اسے جلن ہوئی۔ پر عشق حاوی ہو گیا جلن پر۔ حسینہ نے دیوانے کو بہت روکا۔ دیکھو اس بےجان گڑیا کی چاہت میں نہ پڑو۔ یہ بازار میں بھلی دکھتی ہے۔ کھلونے بیچنے والے نے کہا کہ یہ کافر حسینہ تجھے اپنے دام میں الجھا کر ہمیشہ کے لئے قید کرنا چاہتی ہے۔ دیوانے کو حسینہ کی چاہ اور وفا پر خود غرضی کا گمان ہوا۔ دیوانہ جو تھا۔ حسینہ بولی بھلے میرا ہاتھ، ساتھ چھوڑ دے پر تو تو دیوانہ ہے تیرا کیا کام ان کھلونوں سے۔ تو چل میرے ساتھ کہیں بھٹک جا۔ دونوں ہی ایک دوجے کی قبر بن جاتے ہیں کہ جو دنیا تو نے دیکھی ہے اس میں جینا اب ممکن نہیں۔ یہاں پیار کی بولی لگتی ہے اور عشق کو شک کے زہر سے بھر دیا جاتا ہے۔ جان وارے ہوے جان ہارنے سے ڈرنے لگتے ہیں۔ ابھی بھی وقت ہے چل کسی ویرانے میں۔ اب تیرا میرا نصیب داشت کی خاک چھاننا ہے۔ مگر دیوانہ نہ مانا۔ دیوانہ جو تھا۔ گڑیا لے آیا۔ مگر قیمت چکا کر نہیں آیا۔ حسینہ نے قیمت چکائی۔ اپنی جوانی، اپنے جذبے، اپنے پیار، مان، خواب اور سب سے بڑھ کر اپنی آگہی دکان میں سجی گڑیا کے بدلے چھوڑ آئی۔ قیمت چکا کر پلٹی تو دیوانہ گڑیا کو لے کر جا چکا تھا۔

جانے کس دشت میں بھٹکتا ہو گا؟ حسینہ کے حسن کو چاٹ جانے کے لئے یہی کافی تھا کہ اس کا پلو چھوڑ کر دیوانہ نہ جانے کہاں ٹھوکریں پتھر کھا رہا ہو گا۔ میرے بغیر لہو لہو ہو گا۔ اسی سوچ کے تابع ایک معمول کی طرح وہ دنیا چھوڑ کر صحرا صحرا بھٹکی۔ پاؤں میں چھالے، خشک ہونٹ، خاک آلود پیرہن اور الجھے بال لئے سوچتی تھی ان صحراؤں کے پار میرا دیوانہ پیار کے میٹھے جھرنے تلے بیٹھا ہو گا۔ صحراؤں کے پار دیوانہ ملا۔ ایک حسین چمن میں۔ دیوانہ قسمت کا دھنی تھا۔ جو بےجان گڑیا وہ حسینہ کے پیار کے عوض لایا تھا۔ وہ طلسماتی گڑیا تھی۔ دیوانہ اس طلسم میں کھویا ہوا تھا۔ حسینہ نے آواز دی۔ دیوانے نے سنی بھی پھر گڑیا کے لب ہلے۔ اگر آنکھیں کھول کر پیچھے دیکھا تو پتھر کے ہو جاؤ گے۔ دیوانہ گڑیا کی گود میں سر رکھ کر آنکھیں موندے لیٹا رہا۔ دیوانہ جو تھا۔ پلٹ کر دیکھا تک نہیں۔

حسینہ واپس مڑی اور واپسی کی راہ اتنی طویل اور کٹھن تھی کہ وہ جس صحرا کو پار کر کے آئی تھی اسی میں کہیں کھو گئی۔ راستہ نہیں ملا اسے واپسی کا۔

اب کہانی پھر دہراتی ہوں۔ اک حسینہ تھی، اک دیوانہ تھا۔ اب ایک دیوانی ہے اور ایک طلسم ہوش ربا کا شہزادہ ہے۔ سنا ہے اس حسینہ نے جس دیوانے کو کبھی دنیا کا پتھر نہیں لگنے دیا تھا۔ وہی دیوانہ اب اسے پتھر مارتا ہے۔ اور حسینہ لہو لہو ہے۔ ڈور کا ایک حصہ ابھی بھی حسینہ کے ہاتھ میں ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).