امریکہ جنسی تعلیم یا انسانی حقوق کا علمبردار نہیں ہے


جنوبی ایشیاء میں‌ بچوں اور خواتین کے قتل، گھریلو تشدد اور جنسی جرائم کئی دہائیوں‌ سے چلتے آرہے ہیں۔ کافی خواتین نے اس بدسلوکی کو اپنی زندگی کا نارمل حصہ سمجھ کر قبول کرلیا ہے۔ منٹو، عصمت چغتائی اور کتنے لکھاری بچارے سچ لکھتے لکھتے گزر گئے۔ نئی ٹیکنالوجی کے ساتھ ہر ہاتھ میں‌ کیمرے کی وجہ سے پردے ہٹنا شروع ہوئے ہیں جیسا کہ میرا اندازہ تھا کہ ایسا ہی ہوگا۔ چونکہ میں‌ نے اپنی شروع کی زندگی پاکستان میں‌ گزاری اور بقایا امریکہ میں اور دونوں‌ جگہ پڑھا بھی پڑھایا بھی، میں‌ ان دونوں‌ ممالک کے حالات سے ذاتی اور پروفیشنل طور پر بخوبی واقف ہوں۔

کافی سارے لوگ وکی پیڈیا میں‌ جا کر اسٹاٹسٹکس یا سرسری تاریخ پڑھ کر جلدی سے وہ نتائج اخذ کررہے ہیں جن کے بارے میں وہ گہرائی سے نہیں‌ جانتے۔ اس کے علاوہ ایک ریسرچ پرنسپل انویسٹیگیٹر ہونے کے لحاظ سے میں‌ جانتی ہوں‌ کہ اگر ہم پہلے سے ہی نتائج پر پہنچ کر کسی بھی موضوع پر تحقیق کرنا شروع کریں‌ تو انہی نتائج پر پہنچ جائیں گے جو ہم نے اپنے تعصب کی وجہ سے پہلے سے طے کیے ہوئے ہیں۔ اس کو انویسٹگیٹر بایس کہتے ہیں۔ یہ تعصب رکھنے والے افراد کچھ بھی پڑھیں تو اس میں‌ وہی معلومات دیکھتے ہیں جو ان کے خیالات سے متفق ہوں یا جو وہ دیکھنا چاہتے ہوں۔ اس کو کنفرمیشن بایس کہتے ہیں۔
Investigator bias
Confirmation bias

کافی لوگ لکھ رہے ہیں کہ امریکہ میں تعلیم ہونے کے باوجود حالات ایسے ہیں تو تعلیم ہمارے مسائل کو حل نہیں کرے گی۔ آج کا مضمون صرف اس بارے میں‌ ہے کہ امریکہ کو یہ غلط القاب دینے بند کردیے جائیں‌ کہ وہ دنیا میں‌ جنسی تعلیم کا علم بردار ہے یا انسانی حقوق کا علم بردار ہے کیونکہ ایسا نہیں‌ ہے۔ امریکہ کی مثال سامنے رکھ کر خود کو یا اپنے پڑھنے یا سننے والوں‌ کو غلط اور ادھوری معلومات دینا بند کی جائے۔ امریکہ میں‌ یہ حالات ہیں‌ کہ اگر سو افراد کی تنخواہ کو جمع کرکے سو سے تقسیم کر دیا جائے تو شاید پڑھنے والے کو صرف یہی نظر آئے کہ فی شہری آمدن اچھی ہے لیکن یہ دیکھئیے کہ امیر اور غریب میں‌ کتنی بڑی خلیج ہے جو کہ یورپین ممالک میں‌ نہیں۔ ملک کی 90 فیصد دولت صرف ایک فیصد کے پاس ہے اور سب سے کم ممکن تنخواہ امریکی نظام میں‌ دیگر ترقی یافتہ ممالک سے کتنی کم ہے۔

دنیا کا سب سے مہنگا میڈیکل نظام امریکی ہے لیکن پھر بھی یہاں‌ طبعی زندگی یورپین ممالک اور چین سے کم ہے۔ صدر اوبامہ کی حکومت سے پہلے 50 ملین امریکیوں‌ کے پاس ہیلتھ انشورنس تک نہیں‌ تھی۔ امریکہ میں‌ ایچ آئی وی کے مریضوں‌ کی شرح یورپ سے زیادہ ہے۔ اعداد وشمار بتاتے ہیں کہ امریکہ میں‌ قتل کی شرح‌ کسی بھی یورپی ملک سے زیادہ ہے جو کہ ایک ترقی یافتہ ملک کے لیے شرمندگی کا مقام ہے۔ امریکہ میں‌ بندوقوں‌ اور پستولوں کی دہشت گردی تمام دنیا کے ترقی یافتہ ممالک سے زیادہ ہے۔ یورپ کا تعلیمی نظام امریکی تعلیمی نظام سے بہتر ہے۔ امریکہ میں‌ خواتین کی آمدن آج بھی برابر کا کام کرنے کے باوجود مردوں‌ سے کم ہے۔ اس ملک میں‌ 1921 تک خواتین کو ووٹ ڈالنے کا حق نہیں‌ تھا۔ کتنے چرچ اور مقامی تنظیمیں ارتقاء کی سائنس اور ویکسینوں‌ کے خلاف مہم جو رہتے ہیں۔

ٹرمپ دھڑا دھڑ خواتین اور بچوں کی صحت کے شعبوں‌ میں‌ سے بجٹ کاٹ رہا ہے اور اقلیتوں کے حقوق سلب کرنے میں‌ مصروف ہے۔ اس کی پالیسیوں‌ کا سارا زور اس بات پر ہے کہ امیر ترین کو مزید امیر بنائے، سفید فام نسل کے بچوں‌ کو دیگر نسلوں‌ کے بچوں‌ سے چھین کر تعلیم اور ترقی کے زیادہ مواقع دیے جائیں اور زمین اور جانوروں کا مزید دولت جمع کرنے کے لیے استحصال جاری رکھا جائے۔ جن ریاستوں‌ میں‌ چرچ اور مذہب کا اثر زیادہ ہے، جیسا کہ جنوبی ریاستیں‌ تو وہ تعلیم اور صحت کے میدانوں‌ میں‌ ترقی یافتہ سوچ رکھنے والی ریاستوں‌ کی نسبت بدحال ہیں۔ اوکلاہوما جس کو بائیبل بیلٹ کہتے ہیں، یہاں‌ ہر سڑک پر ایک چرچ ہے اور اسکولوں‌ میں‌ بالکل محدود جنسی تعلیم دی جاتی ہے جس کی وجہ سے یہ ان ریاستوں‌ میں‌ شامل ہے جہاں‌ سارے ملک کے مقابلے میں‌ سب سے زیادہ ٹین ایج حمل ہوتے ہیں۔ اس کے لیے علاوہ خواتین کے جیل میں‌ ہونے کی شرح‌ میں‌ اوکلاہوما دنیا میں‌ پہلے نمبر پر ہے۔

آج کا مضمون اس لیے لکھا ہے کہ امریکہ کے حالات خراب ہیں جن کو بہتر بنانے کے لیے مقامی سائنسدان اور صحت کے شعبے میں کام کرنے والے افراد ٹرمپ اور مائک پینس کی طرح‌ کے دقیانوسی اور تنگ نظر افراد سے لڑ رہے ہیں۔ اگر امریکہ بہت خراب ملک ہے تو اس سے کسی اور ملک کو برا ہونے کی اجازت تو نہیں مل جاتی۔ اگر کوئی اور ملک خود کو بہتر بنانے میں‌ مخلص ہو تو امریکہ کی مثال آگے نہ رکھی جائے بلکہ ڈیٹا دیکھیں‌ اور بہتر ممالک جیسا کہ کینیڈا اور یورپ کی طرف دیکھیں۔ صرف وکی پیڈیا سے سرسری مضامین پڑھ کر بیانات جاری نہ کیے جائیں‌ بلکہ ریسرچ کو اچھے طریقے سے تفصیل سے پڑھا جائے اور پھر خود بھی اپنے شہروں‌ میں‌ یہ مشاہدات اور تجربات کیے جائیں۔ مقامی ڈیٹا جمع کیا جائے اور اس ڈیٹا کی بنیاد پر ویکسین، جنسی تعلیم، برتھ کنٹرول اور اس طرح‌ کی دیگر اہم عوامی سہولیات میں‌ سرمایہ کاری کی جائے۔

اگر کوئی توجہ سے پڑھے گا تو اسے معلوم ہوگا کہ جنسی تعلیم اور تربیت صحت مند معاشرہ تخلیق کرنے کے لیے انتہائی اہم ہے۔ جس نظام سے پچھلے ستر سال سے ملکی قوانین، تعلیم اور صحت کے ادارے چلانے کی کوشش کی گئی ہے تو ان کے کیا نتائج سامنے آئے ہیں؟ آئن سٹائن نے کہا تھا کہ یہ ایک پاگل پن ہے کہ ہم ایک جیسے ہی قدم اٹھاتے رہیں‌ اور مختلف نتائج کی توقع کریں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).