کیا مولویوں کو انتشار سے پیار ہے؟


مسلمانوں میں دو محاذوں پر جم کر کام ہو رہا ہے۔ پہلا ایک دوسرے کے مسلک کو کافر ثابت کرنے پر اور دوسرا اپنے ہر مسائل کے پیچھے کسی نادیدہ دشمن کا ہاتھ ڈھونڈنے پر۔ کون سا ایسا مسلک ہے جہاں مناظرے باز کھل کر یا اشاروں میں یہ نہ کہتے ہوں کہ دیگر تمام مسالک گمراہ ہیں؟ ہر ایک مسلک اس زعم میں ہے کہ بس فلاح اور نجات کی ڈگر کا وہی اکلوتا راہی ہے اور بقیہ مسلک اور مکتب فکر جس راستے پر چل رہے ہیں وہ پگڈنڈی جہنم میں جاکر ختم ہوتی ہے۔ یہ دیکھ کر مزہ ہی آ جاتا ہے کہ جس سانس میں ہم اپنے ہی کلمہ گو بھائیوں کے خلاف آگ اگلتے ہیں اسی سانس میں یہ بھی فرما دیتے ہیں کہ ہمارا مذہب ہمیں پر امن بقائے باہم کا سبق دیتا ہے۔ اس ارشاد پر میرے جیسے گستاخ لوگوں کو اکثر دل کرتا ہے کھلکھلا کر ہنس پڑیں اور پوچھیں کہ بھائی، آپ اسلام کے اس پیغام کو کم از کم اپنے ہی مذہب کے دیگر مسالک کے ماننے والوں کے ساتھ نافذ کیوں نہیں کرتے؟

ایک طرف جہاں گمراہی کی سندیں دھڑا دھڑ باٹی جا رہی ہیں، وہیں ہر ایک مسلک میں کچھ ایسے بھی ہیں جو اتحاد کی راہ کھوجنے میں لگے ہیں۔ یہ راہ تلاش کرنے کے لئے خوب کوششیں ہوئی ہیں۔ ایک دوسرے کے پیچھے نمازیں پڑھی گئیں، مجلسوں اور میلادوں میں آیا جایا گیا، اتحاد بین المسلمین کے جلسے کرائے گئے اور اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رہو کا نغمہ مستانہ بار بار دہرایا گیا لیکن یہ امت ہے کہ ایک ہوکر نہیں دے رہی۔ سوال یہ ہے کہ مسلمانوں کے درمیان اتحاد ایسی کیسی انوکھی شئی ہے جو ہو کر نہیں دے رہا۔ ہم اکثر ایک بات سنتے آئے ہیں کہ مسلمانوں کو آپس میں لڑانا یہودیوں، امریکہ اور استعمار کی سازش ہے۔ اپنے مسائل کوٹوکروں میں بھر بھر کر دوسروں پر پھینکنے کی عادت اصل میں ہمارے اندر تک جڑ جما چکی بے حسی کی دلیل ہے، ہم جانتے ہیں کہ فلاں فلاں مسائل کے ذمہ دار یا کم از کم شریک جرم ہم ہیں لیکن ہماری بے حسی اتنی بڑھ چکی ہے کہ ہم تاویلات کے پردوں میں لپٹ کر خود کو ذمہ داریوں سے بری قرار دینے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں۔

میں مان لیتا ہوں کہ مسلمانوں کا کوئی عالم، ذاکر، خطیب، مناظر مسلمانوں کے درمیان تفرقہ نہیں چاہتا، میں یہ بھی مان لیتا ہوں کہ امت کے علماء اور قائدین اتحاد کے لئے ماہی بے آب کی طرح تڑپ رہے ہیں اور میں یہ بھی مان لیتا ہوں کہ مسلمانوں کے درمیان تفرقہ دشمنوں نے ڈالا ہے۔ یہ سب بجا تب بھی ذمہ داری سے کوئی نہیں بچ سکتا۔ ایسے سینکڑوں مدارس، تنظیمیں اور انجمنیں کس کام کی جو دشمن کی تفرقہ ڈالنے کی کوشش کو بھی ناکام نہ بنا سکیں؟ اگر یہ علماء کی فوج، خطباء کا جمگھٹ اور ذاکرین کا مجمع مل کر بھی مسلمانوں کو متحد نہیں رکھ پا رہا ہے تو ان سب کا کیا فائدہ؟ کیا صرف شرعی رقومات کو ٹھکانے لگانے کے لئے ہی ہمیں اپنے مذہبی قائدین کی ضرورت ہے؟

اگر ملت میں انتشار یورپ اور امریکہ ڈال رہے ہیں تو کیا ہم یہ مان لیں کہ منبر پر بیٹھ کر دوسرے مسلک کی دل آزاری کرنے والا انہیں یورپ اور امریکہ کا ایجنٹ ہے؟ ہم یہ کیوں نہ مانیں کہ دوسرے مسلک کو کافر ثابت کرنے کے لئے مضمون اور رسالے رقم کرنے والا دشمن کا تنخواہ دار ہے؟ ، ہم ایسا کیوں نہ سمجھیں کہ ایک دوسرے کی تکفیر کرنے والا ہر مولوی، قلمکار، ملی تنظیم کا اہلکار، شاعر، خطیب یا ذاکر ہمیں بے وقوف بنا رہا ہے، وہ یورپ، امریکہ اور استکبار سے بھی پیسے وصول کر رہا ہے اور مسلمانوں سے بھی لفافے لے رہا، ہمارا بھی اچھا بنا ہوا ہے اور دشمن کے لئے کام بھی کر رہا ہے۔ ایسے افراد کا کیا کیاجائے؟

مسلمانوں کے درمیان اتحاد کے نام پر جو پروگرام ہو رہے ہیں ان سے اس وقت تک فائدہ ممکن نہیں جب تک انتشار کی اصل وجہہ کو نہیں جان لیا جاتا۔ اصل میں مسلمانوں کے درمیان اختلاف عام لوگوں کا پیدا کیا ہوا ہے ہی نہیں، یہ اختلاف ان علماء، خطباء اور مناظرے بازوں کا دیا ہواہے جنہوں نے اتحاد ملت کا ذبیحہ کرنا اپنا ذریعہ معاش بنا لیا ہے۔ ان میں سے اکثر وہ نام نہاد علماء و ذاکرین ہیں جن سے آپ معمولی سے علمی بات بھی کریں تو ان کی گھگی بندھ جاتی ہے۔ امت میں اتحاد اسی دن ہو جائے گا جس دن ہم سب مل کر ان افراد کا بائیکاٹ کر دیں۔ نہ انہیں خطاب کے لئے مدعو کریں اور نہ ان کی اشتعال انگیز تحریروں پر کان دھریں۔

اگر کسی مسجد کا مولوی، خطبہ جمعہ میں کسی دوسرے مسلک کے خلاف زہر اگل رہا ہے، اگر دارالعلوم دیوبند جیسا معتبر سمجھا جانے والا ادارہ اپنے دارالافتاء سے کسی مسلک کے اسلام کے دائرے سے باہر ہونے کی بات کہہ رہا ہے۔ اگر منبر پر بیٹھ کر کربلا کے ذکر کے نام پر کوئی خطیب کسی دوسرے مسلک میں کیڑے نکال رہا ہے تو یہ سب تو قصوروار ہیں ہی وہ افراد بھی قصوروار ہیں جو یہ سب دیکھ پڑھ کر چپ ہیں اور اس کے خلاف کچھ نہیں بول رہے، وہ علماء بھی سوالوں کے گھیرے میں ہیں جو ایسی سرگرمیوں میں خود تو ملوث نہیں لیکن اس سب پر چپ رہ کر اس کام میں اپنا حصہ ڈال رہے ہیں۔

مالک اشتر ، دہلی، ہندوستان

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

مالک اشتر ، دہلی، ہندوستان

مالک اشتر،آبائی تعلق نوگانواں سادات اترپردیش، جامعہ ملیہ اسلامیہ سے ترسیل عامہ اور صحافت میں ماسٹرس، اخبارات اور رسائل میں ایک دہائی سے زیادہ عرصے سے لکھنا، ریڈیو تہران، سحر ٹی وی، ایف ایم گیان وانی، ایف ایم جامعہ اور کئی روزناموں میں کام کرنے کا تجربہ، کئی برس سے بھارت کے سرکاری ٹی وی نیوز چینل دوردرشن نیوز میں نیوز ایڈیٹر، لکھنے کا شوق

malik-ashter has 117 posts and counting.See all posts by malik-ashter