دس سالہ روپ فاطمہ کو سکول کے اندھیرے کمرے میں بند کیوں رکھا گیا؟


میں خصوصی بچوں کا استاد ہوں اکثر اوقات ان خصوصی بچوں کی دنیا میں اس قدر مگن رہتا ہوں کہ وقت کے گزرنے کا احساس ہی نہیں ہوتا۔ مصروفیت کی بنا پر اکثر اوقات موبائل فون تک دیکھنے کا ٹائم نہیں ملتا۔ 19 جنوری بروز جمعہ لگ بھگ دو بجے موبائل فون دیکھنے پر معلوم ہوا کہ بیگم کی کوئی 40 سے 50 تک کالز آئی ہوئی تھیں۔ اللہ خیر کرے دل میں عجیب و غریب خیالات آنے لگے۔ فون کرنے پر پتہ چلا کہ بڑی بیٹی روپ فاطمہ جو الائیڈ سکولز مارگلہ کیمپس اسلام آباد میں کلاس پنجم کی طالبہ ہے ابھی تک گھر نہیں پہنچی بیگم کا رو رو کر برا حال تھا۔ معصوم زینب کے دل خراش واقعے کے بعد تو ہر وقت بچوں کی وجہ سے دل کو ایک دھڑکا سا لگا رہتا ہے۔

بھاگم بھاگ جو روپ فاطمہ کے اسکول پہنچا تو پتہ چلا کہ کسی دہشتگرد کی طرح سکول کے ایک اندھیرے کمرے میں روپ کو کوئی دو ڈھائی گھنٹے سے بںد کیا ہوا تھا۔ اللہ کی پناہ ایسا روپ فاطمہ نے کیا کر ڈالا تھا کہ اسے اس طرح ہراساں کیا جا رہا تھا۔ میرے پہنچنے پر اسے اس اندھیرے کمرے سے نکالا گیا اور بتایا گیا کہ اس نے ایک بچی سے لڑائی کی ہے اور اسے مارا ہے جس کی سزا میں اسے اندھیرے کمرے میں بند کیا گیا ہے۔ میرے پوچھنے پر کہ کس قانون کے تحت بچی کو یہ سزا دی گئی ہے اور ہمیں اس واقعہ کی کوئی اطلاع کیوں نہیں دی گئی مگر کوئی تسلی بخش جواب نہ مل سکا۔ بچی بہت ڈری سہمی تھی مجبوراً بچی کو لے کر مجھے گھر آنا پڑا۔

اگلے دن بروز ہفتہ سکول کے ڈرائیور کے ہاتھ بچی کو سکول سے نکالنے کا لیٹر گھر پر بھجوایا گیا جسے دیکھ کر میرے ہاتھوں کے طوطے اڑ گئے۔ لیٹر کے مطابق، آپ کی بچی غیر مطلوب سرگرمیوں میں ملوث ہے اور سکول کے چھ بچوں، آیا اور کئی اساتذہ کو زخمی کرنے کے نتیجے میں آپ کی بچی کو سکول سے نکال دیا گیا ہے۔ میں حیران تھا کہ ایک دن پہلے تک تو ایسی کوئی بات ہمیں نہ بتائی گئی تھی صرف یہ کہا گیا تھا کہ اس کی دوسری بچی سے لڑائی ہوئی ہے۔

میں حیران تھا کہ میری دس سال کی بچی نے ایسا کیا کر ڈالا ہے کہ اس کے مستقبل کو داؤ پر لگا دیا گیا ہے جب کہ اگلے ماہ اس کے سالانہ امتحانات سر پر ہیں۔ اور فرض کریں کہ بچی واقعی میں اس طرح کی سرگرمیوں میں ملوث ہے تو اس سے پہلے آج تک اس کی کبھی کوئی شکایت موصول کیوں نہیں ہوئی اور اس دن ایسا کیا ہوا کہ اسے ہنگامی بنیادوں پر نکالنے کا فیصلہ کیا گیا؟ اتنے بڑے اسٹاف کی موجودگی میں یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک دس سالہ معصوم بچی مار دھاڑ کر کے اتنے لوگوں کو زخمی کردے اور کوئی اسے روک نا پائی اور روکنا اگر ان کے لیے اتنا مشکل ہو گیا تھا تو پولیس اور فوج کی مدد لے لی جاتی۔

اس لیٹر کے بعد میں نے کئی بار سکول پرنسپل سے رابطہ کیا کہ مجھے واقعہ کی سی سی ٹی وی فوٹیج دکھائی جائے اور وہ سب زخمی لوگ دکھائے جائیں مگر وہ کسی بات کو ماننے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ ایک استاد کی بچی کی داستان سن کر جب سکول پرنسپل سے ذاتی طور پر بچی سے ناروا سلوک کرنے پر رابطہ کرنے کی کوشش کی گئی تو ٹال مٹول سے کام لیا گیا اور پرنسپل کا موقف لینے میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ میں پو چھتا ہوں کہ اس طرح کسی بچی کے مستقبل کو داؤ پر لگانا کہاں کا انصاف ہے؟ ایک استاد کی بچی کو تعلیم کا حق کون دلائے گا؟ اور کوں پوچھے گا اس سکول کی انتظامیہ اور اساتذہ سے جنہوں نے ایک دس سالہ بچی کو حبس بے جا میں رکھا؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments