زیرو پوائنٹ فائیو۔ ڈڈو چارجر استعمال کرنے والی قوم


آپ افریقہ کے ملک کچھوکومے کی مثال لے لیں۔ یہ افریقہ کے انتہائی مغرب میں خط استوا سے قریباً ستائیس ہزار کلو میٹر دور واقع ایک چھوٹا سا ملک ہے۔ اس کی آبادی لگ بھگ چھ لاکھ نفوس پر مشتمل ہے۔ اٹھارہ سو اکانوے میں یہاں پر ایک عجیب واقعہ رونما ہوا۔ کچھوکومے کے برابر میں ایک ملک وجود میں آ گیا۔ ہم اس کو کالا شاہ کاکو کا نام دے دیتے ہیں۔ کالا شاہ کاکو کی آبادی تقریباً چار لاکھ تھی۔ یہ ملک بحر منجمد جنوبی کے مشرقی کونے پر واقع تھا۔

انیس سو آٹھ میں کچھوکومے میں ایک وبا پھوٹ پڑی۔ یہ ایک عجیب وبا تھی۔ اس وبا میں مبتلا ہوجانے والے لوگ ڈڈو چارجر استعمال کرنا شروع کر دیتے تھے۔ آپ کسی دن اس ملک کا ڈیٹا نکال کر دیکھ لیں۔ آپ حیران رہ جائیں گے۔ چھ لاکھ میں سے پانچ لاکھ ننانوے ہزار نو سو اور ننانوے لوگ ڈڈو چارجر استعمال کرنا شروع ہو گئے تھے۔ ٹیکنالوجی کا ایسا استعمال اس سے پہلے دنیا میں کسی نے نہ دیکھا تھا۔ چناچہ کالا شاہ کاکو کے لوگوں نے کچھو کومے کے لوگوں سے رابطہ کیا۔ وہ اس ٹیکنالوجی کے بارے میں علم حاصل کرنا چاہتے تھے۔ خط استوا سے ستائیس ہزار کلومیٹر دور ہونے کے باعث کچھو کومے کے لوگوں کو سردی نہیں لگتی تھی چناچہ انہوں نے کالا شاہ کاکو والوں کو ڈڈو چارجر کی ٹیکنالوجی دینے سے انکار کر دیا۔ کالا شاہ کاکو والوں نے اس انکار کو اپنی انا اور غیرت کا مسئلہ بنا لیا۔

یہاں ہم تھوڑی دیر کے لیے اس کہانی کو بریک لگاتے ہیں اور ایک دوسری کہانی کو دیکھتے ہیں۔ 1908 کے ٹھیک ایک سو سال کے بعد پاکستان میں بھی ڈڈو چارجر نامی اس وبا کا نزول ہوا۔ دیکھتے ہی دیکھتے یہ وبا ملک کے طول و عرض میں پھیل گئی۔ عوام کی ایک قابل ذکر تعداد ڈڈو چارجر استعمال کرنے کی عادی ہو گئی۔ ملک میں اس وقت تازہ تازہ جمہوریت قائم ہوئی تھی۔ بے نظیر بھٹو کا قتل ہو چکا تھا اور آصف علی زرداری ملک کا صدر بننے کے لیے پرویز مشرف کے خلاف مواخذے کی تحریک کی تیاریوں میں مصروف تھے۔ میں نے اس وقت تازہ تازہ کالم لکھنے شروع کیے تھے۔

قارئین کرام! آپ اپنی عینک کو تھوڑی دیر کے لیے ایک سائیڈ پر رکھ کر ٹھنڈے دل سے غور کریں کہ پرویز مشرف کے مواخذے کی تحریک کا میرے کالم لکھنے سے کیا تعلق ہے؟ اس کا جواب معلوم کرنے کے لیے ہمیں تاریخ کے صفحات پلٹنے پڑیں گے۔ پانچ سو سال قبل مسیح میں مصر کے ایک حکمراں کے خلاف بھی مواخذے کی تحریک ہوئی تھی۔ نیلاڈوڈرس نامی اس حکمراں میں ہر وہ برائی پائی جاتی تھی جو ہمارے آج کل کے سیاست دانوں میں موجود ہے۔ آپ کسی دن انٹرنیٹ پر جائیں اور نیلاڈوڈرس کو سرچ کریں۔ آپ کے سامنے حیرت انگیز معلومات کا ایک جہاں کھل جائے گا۔ آپ کو پانچ سو سال قبل مسیح کے مصر اور پاکستان کے حالات میں حیران کن مماثلت دکھائی دے گی اور آپ اپنا سر پیٹ لینے پر مجبور ہو جائیں گے۔ اس وقت بھی ایک صحافی تھا جس نے نئے نئے کالم لکھنے شروع کیے تھے۔ ان دنوں اس نے ایک کالم لکھا جس کا عنوان تھا ”اڑھائی ہزار برس کے بعد ڈڈو چارجر استعمال کرنے والی قوم“۔ اس کالم میں کالم نگار نے کچھو کومے، کالا شاہ کاکو اور پاکستان کےممکنہ حالات کا قبل از وقت اشارہ دے دیا تھا۔ آپ کو یہ جان کر حیرت ہو گی کہ اس زمانے میں نہ ٹی وی تھا اور نہ ہی انٹر نیٹ۔ مگر آپ ذرا اس کالم نگار کی صلاحیت کا اندازہ لگائیں۔ وہ اپنے حیرت انگیز تخیل کی مدد سے ایسی ایسی پیش گوئیاں کرتا تھا کہ اس کے زمانے کے لوگ اس کو احمق اور پاگل سمجھتے تھے۔ مگر آنے والے وقت نے ثابت کیا کہ اس کی پیش گوئیاں درست تھیں۔ چناچہ اس کالم نگار نےایک زوردار قہقہہ لگایا اور پیش گوئی کی تھی کہ مواخذے کی تحریک ناکام ہو جائے گی۔ مواخذے کی تحریک پیش ہوئی اور پیش گویؤں کے عین الٹ مواخذہ کامیاب ہو گیا۔ اسی طرح میں نے بھی پیش گوئی کی تھی کہ پرویز مشرف کے خلاف مواخذے کی تحریک کامیاب ہو جائے گی۔ یہ الگ بات ہے کہ پرویز مشرف نے اس سے پہلے ہی استعفیٰ دے دیا اور یوں مواخذے والا معاملہ درمیان میں ہی رہ گیا۔ اس سے ہم سب کو سبق حاصل ہوتا ہے۔

اب ہم یہاں سے دوبارہ اپنی پہلی کہانی کی طرف چلتے ہیں۔ کچھو کومے والوں نے کالا شاہ کاکو کو ڈڈو چارجر کی ٹیکنالوجی دینے سے انکار کر دیا تھا اور کالا شاہ کاکو والوں نے اس کو اپنی انا اور غیرت کا مسئلہ بنا لیا تھا۔ دونوں ملکوں پر جنگ کے بادل منڈلا رہے تھے۔ قریب تھا کہ کالا شاہ کاکو والے کچھو کومے والوں پر حملہ کر دیتے مگر انہی دنوں لاہور کی مال روڈ پر اپوزیشن کی تین پارٹیوں کا مشترکہ جلسہ ناکام ہو گیا۔ میں اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ادا کرتا ہوں کہ اس دن لاہور کی عوام سڑکوں پرنہیں نکلی ورنہ جو ہو جاتا وہ کم تھا۔ کالا شاہ کاکو والے کچھو کومے پر حملہ آور ہو جاتے اور کچھو کومے والے اپنے دفاع میں ایٹم بم چلا دیتے۔ امریکہ روس پر حملہ آور ہو جاتا اور ٹانگانیکا کے باسی ہدہدوں کی تجارت شروع کر دیتے۔ دنیا دیکھتے ہی دیکھتے کچھ کی کچھ ہو جاتی۔ آپ اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیے۔ یہ سب کیا ہے؟ کیا آپ یہ سب کچھ چاہتے ہیں؟

اس ساری کہانی سے ہمیں کیا سبق ملتا ہے؟ اس کہانی سے ہمیں یہ سبق حاصل ہوتا ہے کہ ڈڈو چارجر استعمال کرنا کچھو کومے والوں کا اندرونی معاملہ تھا اور کالا شاہ کاکو والوں کو ان کے اندرونی معاملات میں دخل اندازی نہیں کرنی چاہیے تھی۔ ہم اڑھائی ہزار برس قبل کے لوگوں کی باتوں کو تو مان سکتے ہیں لیکن اڑھائی برس سے ہم لوگ انتشار کا شکار ہیں۔ ہمیں ڈڈو چارجر استعمال کرنا پسند ہے مگر ہم پائیدار جمہوریت کے قائل ہی نہیں ہیں۔ اگر اڑھائی ہزار برس قبل کا کالم نگار آنے والے وقتوں کی درست پیش گوئی کر سکتا ہے تو ہمیں کیوں نہیں اس بات کی سمجھ آتی کہ حکومت کی تبدیلی ووٹ کی طاقت سے ہو تو بہتر ہے۔ ڈڈو چارجر کے استعمال سے ہم وقتی طور پر تو اپنی اپوزیشن کو متحد کر سکتے ہیں مگر آنے والے وقتوں میں مؤرخ ہماری ٹیکنالوجی پر ہنسے گا اور ہم صرف انٹر نیٹ پر ڈیٹا نکالتےرہ جائیں گے۔

اویس احمد

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

اویس احمد

پڑھنے کا چھتیس سالہ تجربہ رکھتے ہیں۔ اب لکھنے کا تجربہ حاصل کر رہے ہیں۔ کسی فن میں کسی قدر طاق بھی نہیں لیکن فنون "لطیفہ" سے شغف ضرور ہے۔

awais-ahmad has 122 posts and counting.See all posts by awais-ahmad