نیکر پہن کے ٹینس کھیلتا اردو شاعر


یار یہ تو بڑی کام کی بندی نکلی
کون بابا؟
جس نے گانے کی شاعری کی تھی، آج سے میری ساری خوشیاں تیری ہو گئیں۔
کیوں بابا؟
اس نے گلزار کا انٹرویو بھی کیا ہے ابھی اس نومبر میں، ڈو یو نو گلزار؟
گلزار کے گیتوں میں جب یو یو ہانی سنگھ گھس گیا والا گلزار؟
ڈیم! جی بیٹی!

اس مختصر ڈائیلاگ کے بعد بیٹی کو گلزار کا سفید لباس یاد آ گیا۔ تسلی ہوئی، نئی نسل گلزار کو جانتی ہے، جس بہانے سے بھی سہی، تیز انڈین اور انگریزی گانوں کے دیوانے کم از کم آئیڈیا تو رکھتے ہیں کہ ایک آدمی جو سفید کلف لگے کرتے میں نظر آتا ہے اور دھیمے سروں میں بات کرتا ہے، وہ کچھ ہٹ کے ہے۔ یہ گانا جب پہلی بار سنا تو میں چونک سا گیا۔ پہلے لگا کہ گلزار کی شاعری ہے، پھر ایک دو جگہ محسوس ہوا کہ نہیں یہ کوئی نیا لکھنے والا ہے۔ پھر بات بھول بھال گئی۔ آج ویک اینڈ تھا، باہر نکلے تو ریڈیو پہ سنا کہ اس گانے کے لیرکس کوثر منیر نے دئیے ہیں۔ اب کوثر منیر کو ڈھونڈتے ڈھونڈتے یہ انٹرویو مل گیا جو ابھی پچھلے نومبر میں انہوں نے گلزار صاحب کے ساتھ کیا تھا۔ تو وہ پڑھ کے بس بیٹی کے ساتھ یو یو ہانی سنگھ کے گلزار والا معاملہ ہو گیا۔ انٹرویو انگریزی میں تھا۔ چند باتیں جو گلزار پسند لوگ جاننا چاہیں گے وہ اس طرح سے تھیں؛

آپ سفید کپڑے کیوں پہنتے ہیں؟
اچھا لگتا ہے۔ میں کالج کے دنوں سے ہی سفید کپڑے پہن رہا ہوں۔ مجھے سب رنگ پسند ہیں لیکن اب اگر میں سفید کے علاوہ کوئی رنگ پہنوں گا تو ایسا لگے گا کہ میں کچھ غلط کر رہا ہوں۔ اور یہ میرے لیے بہت بری چیز ہو گی۔ مطلب پھر کام ہو یا گھر ہو میں، میں نہیں لگوں گا۔

گویا گلزار کرتا پائجامہ پہنے ہی سب سے زیادہ گلزار لگتے ہیں؟
لیکن میں نے پائجامہ تو کبھی پہنا ہی نہیں۔ یہ تو ایک عام پتلون ہے، کھڑی کریز والی اور عین ویسی ہی جیسی کوئی پتلون ہو سکتی ہے۔ پہلے میں اکثر دھوتی پہنتا تھا، (ہنستے ہوئے) شکر ہے کوئی لنگوٹ چور نہیں ٹکرا۔ میں اتوار کے دن اب بھی شلوار پہنتا ہوں۔ وہ پنجابیوں یا پٹھانوں جیسی، جو میرے آبائی علاقے دینے میں پہنی جاتی ہے، جو اب پاکستان میں ہے۔ اصل میں ایک اردو شاعر ہونے کی وجہ سے ہر بندہ یہی سمجھتا ہے کہ ہو نہ ہو میں نے کرتے کے ساتھ پائجامہ ہی پہنا ہو گا۔ فائنلی اب آپ اس غلط فہمی کو دور کر سکتی ہیں۔

لوگ اردو شاعروں کے بارے میں اور کیا کیا سوچتے ہیں؟
یہی کہ وہ نیکر پہن کے ٹینس نہیں کھیل سکتے۔ وہ سوچتے ہیں کہ یہ بس کوئی غریب اور عام سا بندہ ہو گا جو ٹوٹی پھوٹی سائیکل چلاتا ہو گا۔ وہ تصور بھی نہیں کر سکتے کہ ایک شاعر اپنی گاڑی میں پورا ملک گھوم سکتا ہے۔ ان کے ذہن میں شاعر بس غالب کی گردان کرنے والا ہوتا ہے، بلکہ وہ حیران ہو جاتے ہیں اگر کوئی شاعر یہ کہہ دے کہ مجھے سٹنگ (ماڈرن انگریزی گیت نگار) کے گیت پسند ہیں (یہ سب بات کرتے ہوئے گلزار صاحب دور دور تک کسی فرسٹریشن میں نظر نہیں آئے، وہ بس مزے سے بات کر رہے تھے)۔ مجھے شاعر کی اس امیجینیشن پہ کوئی مایوسی نہیں ہوتی۔ میں تو بھئی شارٹس میں ٹینس بھی کھیلتا ہوں، میں نے اپنی اس گاڑی میں پورے ملک کے سفر بھی کیے ہیں اور سٹنگ کے گیتوں سے متاثر ہو کے میں نے سو گانوں کی ایک کتاب پر بھی کام کیا ہے۔ میں کسی طریقے سے روایتی اردو شاعر کی تعریف پہ فٹ ہی نہیں بیٹھتا۔
ان کی سٹڈی کے ایک کونے میں غالب کا مجسمہ موجود ہے لیکن ان کی پوری میز بین الاقوامی لٹریچر اور کچھ علاقائی زبان والی کتابوں سے بھری ہوئی تھی۔ ”آپ پوچھتی ہیں ناں کہ میں نصف صدی سے لکھتا آ رہا ہوں تو اب تک نئے زمانے سے جڑا کیسے رہتا ہوں؟ (میز کی طرف اشارہ کرتے ہوئے) ایسے! گلی، محلے، قوم اور پوری دنیا کی نبضیں میں ان کتابوں میں ٹٹول رہا ہوتا ہوں۔ اردو کا ماہر ہو جانا میرے لیے کوئی اعزاز نہیں، اس گلوبل سوسائٹی کا ایک حصہ بن کے رہنا اور لوگوں میں اچھے کی امید بانٹنا، یہ سب مجھے زیادہ پسند ہے۔ یہ ایک شاعر کی ذمہ داری ہے کہ بھئی وہ معاشرے کے گھٹن میں لوگوں کو آکسیجن دے۔ میرے گانے تلخ یا نفرت پھیلانے والے نہیں ہوتے، کیونکہ میں ایسا نہیں ہوں۔ میں ہمیشہ اچھے کی امید رکھتا ہوں، اور ایک آرٹسٹ کے طور پہ مجھے رکھنی بھی چاہئے۔ صرف اپنے یا اپنے بچوں کے مستقبل کے لیے نہیں، مجھے پوری دنیا کے لیے اچھا سوچنا ہے!‘‘

گلزار بہت دفعہ اپنے گانوں میں شاعری کی روایات توڑنے کے مجرم بھی ٹھہرے، یہ ان کا پسندیدہ کام ہے۔ کہنے لگے؛
”مجھ پہ سب سے زیادہ تنقید بھی اسی حوالے سے ہوئی ہے۔ ایک گانا تھا، ہم نے دیکھی ہے ان آنکھوں کی مہکتی خوشبو، یہ اپنے گانوں میں مجھے اس قدر پسند تھا کہ میں اپنی بیوی سے بھی اس گانے پہ رومینٹک ہو جایا کرتا تھا۔ لیکن ماہرین نے کہا کہ بھئی یہ کیا غیر شاعرانہ بات کی ہے، آنکھوں کی بھلا کوئی خوشبو ہوتی ہے؟ پھر راہی معصوم رضا بڑے ناراض ہوئے جب میں نے وہ گانا بنایا، نام گم جائے گا۔ اسی طرح جب میں نے ”میرا کچھ سامان لوٹا دو‘‘ لکھا تو اس پہ بھی کافی آوازیں اٹھیں۔ تو شروع میں کافی مشکل ہوئی لیکن بعد میں ایسے نئے لوگ ملے کہ میں اس کام میں بہت تفریح محسوس کرنے لگا۔ اب وہ جانتے ہیں کہ میوزیکل نوٹس میں بھی شاعری ہوتی ہے۔ دھن تا نن، یہ بھی کسی کیفیت کا اظہار ہو سکتا ہے۔ تو یہ سب چیزیں میری کریٹیوٹی میں بہت اہم ہیں کیونکہ میرے نزدیک شاعر یا شاعری کی ایک مخصوص تعریف ہو ہی نہیں سکتی۔‘‘

لوگ نئے گانے پسند نہیں کرتے، وہ اپنے پرانے دور کے ناسٹیلجیا سے باہر ہی نہیں آنا چاہتے، اس پر گلزار کہنے لگے؛
”ان سے لڑئیے مت، ان کی باتوں پہ ناراض نہ ہوں، بس سر جھکائے ایک رائٹر یا شاعر کے طور پہ اسی دنیا کے لیے لکھتے جائیں جس میں آپ رہتے ہیں۔ بالکل کمرشل گانے بھی بعض اوقات بہت عمدہ بنائے جا سکتے ہیں اگر گیت نگار کو زبان آتی ہو۔ زندگی کے تجربوں سے سیکھیں اور اسے گانوں میں ڈھال دیں۔‘‘

پچپن سال سے لکھتے چلے آنے والے گلزار اب مزید کیا نیا کر سکتے ہیں، ان کا اب کنٹریبیوشن مزید کیا ہو گا؟ اس پہ تراسی برس کے جوان شاعر فوراً بولے؛
”بہت کچھ، بہت زیادہ کچھ! پچھلے چند برس میں نے یہی سوچ کر کام کیا ہے۔ میں ہندوستان کی ہم عصر شاعری (موجودہ دور کی شاعری) پہ ایک کتاب لا رہا ہوں۔ میں نے تقریباً پانچ سو نظموں کا ترجمہ کیا ہے جس میں تین سو شاعروں کا انتخاب ہے اور وہ سب اس ملک کی بتیس زبانوں کے شاعر ہیں۔ کوئی مہان شاعر نہیں، بس آج کل کے لوگ ہیں، اچھی شاعری کرتے ہیں۔ اصل میں شاعری کسی بھی زبان کی ہو، وہ ہمیشہ میرے دل کے قریب رہی ہے۔‘‘

انٹرویو کے بعد کوثر منیر نے سیلفی لینا چاہی تو گلزار بولے کہ پراپر تصویر کیوں نہ بنوائیں؟ اور پھر یہ انٹرویو انگریزی میں چھپا اور آج ہم یہ سیکھ پائے کہ ادب کو سر پہ سوار کر لینا ضروری نہیں ہوتا۔ آپ ایک عام پڑھنے والے ہوں، تھوڑا بہت لکھتے ہوں یا بس ویسے ہی لٹریچر سے دلچسپی ہو، اس کی روایتوں، اس کی بائونڈریوں سے نہیں ڈرنا۔ وہ ادب ہے یا نہیں، کوئی مسئلہ نہیں، مسئلہ یہ ہے کہ جو چیز کسی زبان میں آئے اسے پڑھنے والے، اسے سننے والے، اسے پسند کرنے والے موجود ہوں۔ اگر اس کا نازک سا خیال سامنے والے کے دل میں سیدھا جا کے گڑ گیا تو بھائی، بس پھر وہی سہاگن ہے جسے پیا چاہے۔ اور لکھنے والے کے پیا آپ جیسے پیارے لوگ ہوتے ہیں جو اس وقت یہ کالم پڑھ رہے ہیں!

حسنین جمال

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

حسنین جمال

حسنین جمال کسی شعبے کی مہارت کا دعویٰ نہیں رکھتے۔ بس ویسے ہی لکھتے رہتے ہیں۔ ان سے رابطے میں کوئی رکاوٹ حائل نہیں۔ آپ جب چاہے رابطہ کیجیے۔

husnain has 496 posts and counting.See all posts by husnain