کراچی کے دینی مدرسے میں مرنے والا بچہ کس کا تھا؟


امریکہ میں گن رائٹ (بندوق رکھنے کا حق ) کی طرح اسقاط حمل (Abortion ) ایسا موضوع ہے جس پر امریکی رائے عامہ ایسے تقسیم ہے جیسے مسلم معاشروں میں سنی شیعہ کی تقسیم۔ اختلاف کی یہ بنیاد نظریاتی ہے۔

اسقاط حمل کےحق کے مخالفین کا مؤقف ہے کہ ایک بچہ اگر ماں کے پیٹ میں بھی پیدا بھی ہو گیا ہے اسے مارنے کا کسی کوحق نہیں چاہے وہ ماں ہی کیوں نہ ہو۔ پیٹ میں موجود بچہ بھی ایک شہری ہے اور ریاست اس کا تحفظ کرے۔

ماؤں کے حق اسقاط حمل کے حامی ایک نعرہ لگاتے ہیں

My Body, My Freedom, My choice

کہ بچہ جب تک ماں کے پیٹ میں ہے اسے حق حاصل ہے کہ چاہے تو اسے دنیا میں آنے دے اور اگر چاہے تو حمل گرا دے کیونکہ اس کے جسم پر سوائے اس کے کسی کا حق نہیں۔

اسقاط حمل کے ضمن میں یہ بحث صرف امریکہ میں نہیں بلکہ پوری مغربی دنیا میں موجود ہے جس کے دلائل وہی ہیں جو میں نے اوپر ذکر کئے۔

سماجی عملوم کے ضمن میں موجود ٹھوس اعدادوشمار ثابت کرتے ہیں کہ بچوں کی بہترین تربیت والدین (parenting ) سے ہی ممکن ہے۔ مگر یہاں ایک پیچیدگی پیدا ہوتی ہے جب گھروں میں بچوں کے تشدد کے واقعات سامنے آتے ہیں۔ یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ کب ایک گھر کے معاملات میں ریاست کا دائرۂ کار شروع ہوتا ہے ؟ اگر جواب تشدد ہے تو تشدد کی تعریف کیا ہے؟ کیا تشدد محض ذہنی ہے یا جسمانی؟ عموماً یہ بچوں سے پوچھا جاتا ہے کہ آپ والدین کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں یا حکومت کی طرف سے قائم نرسنگ سنٹرز میں؟ مگر جب بچے نہیں بتاتے تب؟

کچھ دن پہلے میں ناروے کے حوالے سے پڑھ رہا تھا کہ ایک گھر جو ٹاؤن سے ہٹ کر تھا وہاں پولیس نے اس شکایت پر چھاپہ مارا کہ وہاں بچوں پر والدین تشدد کرتے ہیں۔ شکایت کرنے والے نے پولیس کو فون پر بتایا کہ باپ بچوں پر چلا رہا تھا اور بچے رو رہے تھے۔ والدین کا کہنا ہے کہ رات کی تاریک میں جب ہم سب سوئے ہوئے تھے تو پولیس اچانک سے گھر میں گھس آئی اور انہوں نے ہم پر بندوقیں تان لیں۔ بچوں کو لیا اور چلے گئے جبکہ ماں چیختی چلاتی رہی۔ کچھ دنوں تک والدین کو بچوں سے نہ ملنے دیا گیا اور بچوں سے پوچھ گچھ جاری رہی کہ کیا والدین ان پر تشدد کرتے ہیں۔ ماں نے گارڈین کو انٹرویو دیا اور انسانی حقوق کی تنظیموں کا کہنا تھا کہ یہ ریاست کی طرف سے گھریلو معاملات میں مداخلت ہے۔

مغربی ممالک میں اس ضمن میں انسانی حقوق کی تنظیمیں بھی دو حصوں میں تقسیم ہیں۔ ایک اسے فیملی لائف میں مداخلت قرار دیتے ہیں دوسرا اسے بچوں کے تحفظ کے ضمن میں لازم قرار دیتے ہیں۔ تیسری طرف طرف اس ضمن میں موجود سماجی علوم کی تحقیقات کو اگر سمرائز کیا جائے تو یہ سٹیٹمنٹ بنائی جا سکتی ہے کہ حکومتی شیلٹر ہاؤس میں پرورش پانے والے بچے بالغ ہو کر ، محفوظ parenting (والدین کی تربیت) میں پرورش پانے والے بچوں سے تخلیقی صلاحیتوں میں کمتر ہوتے ہیں۔

بچوں کی تربیت والدین کی ذمہ داری ہے اور اس ضمن میں والدین کا کوئی متبادل نہیں۔ نہ ہی بیوروکریسی اور نہ ہی نرسنگ سنٹرز۔

خبر آئی ہے کہ کراچی میں ایک بچے کو اس کے استاد نے پیٹ پیٹ کر مار ڈالا جس پر یہ سوال فیس بک پر گردش کر رہا ہے کہ آیا اس ضمن میں ریاست کیا کر سکتی تھی؟ جواب واضح ہے کہ ریاست کو چاہئے تھا کہ وہ بچے کا تحفظ کرتی۔

مگر ایک سٹیٹمنٹ فیس بک پر گردش کر رہی ہے کہ بچے ریاست کی ملکیت ہوتے ہیں۔ مجھے حیرت ہے کہ یہ سٹیٹمنٹ میرے ایک دوست کی ہے ، کیا وہ لفظ ملکیت کے معانی سے واقف نہیں ؟

ملکیت اشیاء کی ہوتی ہے جو قابل تبادلہ ہوتی ہے یعنی میں اپنی ملکیت کی کوئی چیز ایک مخصوص دام کے بدلے دوسرے کو منتقل کر سکتا ہوں۔ انسان کسی کی ملکیت نہیں ، نہ والدین کے اور نہ ہی ریاست کے۔ انسان آزاد ہے۔ بادشاہت میں انسان رعیت سمجھا جاتا تھا۔ برطانیہ میں جب سرفڈم (جاگیر داری کی ایک قسم ؛ Serfdom ) ابتدائی حالت میں پایا جاتا تھا تو ایک شخص اپنے لارڈ کی اجازت کی بغیر اپنا علاقہ نہیں چھوڑ سکتا تھا۔ زمین اور کسان ایک دوسرے کے ساتھ جڑے ہوئے تھے اور دونوں لارڈ کی ملکیت تھے۔ ہندوستان میں بھی غوریوں کی آغاز سے تقریبا وسط تک یہی دستور قائم تھا کہ ایک کسان مقامی زمیندار کی اجازت کے بغیر زمین نہیں چھوڑ سکتا تھا مگر پے درپے قحط اور کسانوں کی بغاوت کے سبب یہ پابندی اٹھا لی گئی تھی۔ اس کے بعد انسان بادشاہت کی رعیت میں تو تھا مگر عملی طور پر ملکیت میں نہیں۔ دور جدید نیشن اسٹیٹ کا دور ہے۔ اب ایک ریاست میں انسان کی حیثیت شہری کی ہے اور ریاست شہریوں کے حضور جوابدہ ہے نہ کہ ریاست شہریوں کی مالک ہے۔ اگر شہریوں کو ریاست کی ملکیت میں دے دیں تو انسانی حقوق کا سوال معطل ہو جاتا ہے۔

ریاست جو بیورکریسی اور سیاستدانوں کے مشترکہ انتظام کا نام ہے اس پر اتنے بوجھ نہ ڈالئے کہ اٹھا ہی نہ سکے۔ شہریوں کی جان اور آزادیوں کا تحفظ ریاست کی ذمہ داری ہے اس پر ریاست کو کٹہرے میں لایئے کہ آخر وہ کیوں اب تک ناکام ہے، نہ کہ بچے والدین سے لے کر اس کی ملکیت میں دے دیں۔ بچوں کا معاملہ بہت سنجیدہ ہے اور اس ضمن میں بہت سارے مسائل ریاستی یا سیاسی نہیں بلکہ کلچرل ہیں ، اس ضمن میں کمپین چلانے کی ضرورت ہے اور یہ بتانے کی ضرورت ہے تشدد سے پالے جانے والے بچے ساری زندگی عدم تحفظ کا شکار رہتے ہیں جو کہ نفسیاتی طور پر ایک کینسر جیسی بیماری ہے جو ساری انسانی شخصیت کو چاٹ جاتی ہے۔ بچوں کی مار پیٹ سے نہیں کونسلنگ سے تربیت کی جائے۔ مدرسوں میں بھی مار نہیں پیار کا ضابطہ نافذ ہونا چاہئے اور اگر کوئی استاد تشدد کرے تو وہ قانون کے حضور جوابدہ ہو۔ ایسے امور میں جذباتی بیان بازیوں کی نہیں بلکہ ہوشیار سمجھ بوجھ کی ضرورت ہے۔

ذیشان ہاشم

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ذیشان ہاشم

ذیشان ہاشم ایک دیسی لبرل ہیں جوانسانی حقوق اور شخصی آزادیوں کو اپنے موجودہ فہم میں فکری وعملی طور پر درست تسلیم کرتے ہیں - معیشت ان کی دلچسپی کا خاص میدان ہے- سوشل سائنسز کو فلسفہ ، تاریخ اور شماریات کی مدد سے ایک کل میں دیکھنے کی جستجو میں پائے جاتے ہیں

zeeshan has 167 posts and counting.See all posts by zeeshan