ڈی این اے ٹیسٹ اور نام نہاد سائنسدانوں کی معرکہ آرائیاں


کچھ فورمز پر ایک صاحب جو اپنا نام ڈاکٹر غلام اصغر ساجد بیان کرتے ہیں، کا ایک بلاگ ہمارے نام نہاد اسلام پسند دوست دھڑا دھڑ شیئر کئے جا رہے ہیں اور جیسا کہ ان سے توقع کی جا سکتی ہے، ان کے ہاتھ ایک ایسی چیز آ گئی ہے جس کی مثال کچھ لوگ بندر کے ہاتھ بندوق آ جانے سے بھی دیا کرتے ہیں۔ مصنف اور ان کے ہم خیال حضرات نے اس مضمون کے ذریعے اپنی کم علمی کے سوا اور کچھ بھی ظاہر نہیں کیا۔

ڈاکٹر صاحب نے اپنے نام کے ساتھ ڈاکٹر کا لفظ استعمال کر کے شائد ناپختہ ذہنوں پر اثر انداز ہونے کی ناکام کوشش کی ہے کیونکہ جس سطح کے سائنسی علم کا موصوف نے اظہار کیا ہے، بائیو ٹیکنالوجی اور مالیکیولر بایولوجی کےایک طالب علم کی حیثیت سے مجھے سمجھ نہیں آرہا کہ اس پر افسوس کا اظہار کروں یا تمسخر اڑاوں۔ بہرحال، میں یہاں موصوف کی پھیلائی ہوئی کنفیوژن کا تکنیکی جواب دینے کی کوشش کروں گا۔ اس مسئلے کے باقی قانونی پہلووں پر بہت تفصیل سے لکھا جا چکا ہے اور میں ان کا صرف سرسری ذکر ہی کافی سمجھتا ہوں۔

موصوف نے جس طرح ہیپا ٹائٹس کے ٹیسٹ کا موازنہ کسی انسان کی شناخت کرنے کے لئے کئے جانے والے ڈی این اے ٹیسٹ سے کیا، اسی سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان نام نہاد ڈاکٹر صاحب کا ڈی این اے اور بائیو ٹیکنالوجی کے متعلق علم شائد اس ٹریننگ کورس سے زیادہ نہیں جس کا انہوں نے حوالہ دیا۔ بات تھوڑی ثقیل ہو گی لیکن مجبوری یہ ہے کہ اس نظریانتی کنفیوژن کا جواب تکنیکی بنیادوں پر دیے جانے کے سوا کوئی اور چارہ نہیں۔

ہیپاٹائٹس کے لئے جو پی سی آر نامی ٹسیٹ کیا جاتا ہے، اس میں کسی فرد کے خون کے نمونے میں اس وائرس کے جینوم یعنی ڈی این اے کی موجودگی کا پنہ لگیا جا تا ہے، تاکہ اس بات کا تعین کیا جا سکے کہ آیا اس فرد کو یہ مرض لاحق ہے یا نہیں۔ یہ ٹیسٹ انتہائی قابل اعتبار ہے اور پوری دنیا میں معالج اسی ٹیسٹ کی بنیاد پر مرض کی تشخیص اور علاج کی قسم اوراس کے اوقات کار کا فیصلہ کرتے ہیں۔ پوری دنیا بشمول پاکستان میں یہ ٹیسٹ رائج ہے اور روزانہ لاکھوں مریضوں کی زندگیاں اس ٹیسٹ کی بدولت بچائی جا رہی ہیں۔ یہاں یہ بات ذہن میں رکھنا ضروری ہے کہ ہیپا ٹائٹس وائرس کے لئے کیا جانے والا یہ ٹیسٹ اس کے ڈی این اے کے ایک ہی مخصوص حصے کو چیک کرتا ہے۔ یعنی چاہے آپ امریکہ میں ہوں یا پاکستان میں یا مصر میں، ہیپاٹائٹس کے لئے کیا جانے والا پی سی آر اس وائرس کے ڈی این اے کے ایک ہی مخصوص حصے کی آپ کے خون میں موجودگی کا پتہ لگائے گا۔ اس صورتحال کو مد نظر رکھتے ہوئے ذرا ایک لمحے کو سوچئے کہ ایک لیب جہاں اس بیماری کے ٹیسٹ روزانہ سینکڑوں کے حساب سے کئے جاتے ہیں، وہاں اس ٹیسٹ میں استعمال ہونے والی کٹس اور دیگر کیمیکلز میں کسی ٹیکنیشن کی بے احتیاطی کی وجہ سے اس وائرس کے ڈی این کی آلودگی آ سکتی ہے۔ چونکہ میں اس شعبے اور اس ٹیسٹ سے براہ راست منسلک ہوں، اس لئے ہمارے لئے اس آلودگی کا آجانا ایک روزمرہ کا معمول ہے۔ اور ہمارے پاس اس کا پتہ لگانے اور اس سے نمٹنے کے طریقے بھی موجود ہیں۔ جس واقعے کا یہ نام نہاد ڈاکٹر صاحب حوالہ دے رہے ہیں، اس کا بغور جائزہ لیا جائے تو صورتحال واضح ہو جائے گی۔ عموماً ہر لیب میں احتیاط کے کچھ اصول ہوتے ہیں اور ان لیبوں میں کام کرنے والے افراد کو وہاں داخل ہونے سے پہلے ان سے متعارف کروایا جاتا ہے۔ مذکورہ صورتحال میں چونکہ ٹریننگ کے شرکا لیب کے پروٹوکول سے قطعی نا واقف تھے، اس لئے کچھ زیادہ بعید نہیں کہ یہ آلودگی ان میں سے ہی کسی صاحب کی بے احتیاطی کی وجہ سے کیمیکلز میں شامل ہوئی ہو۔
اب چونکہ ہیپاٹائٹس ایک ہی وائرس ہے اور اس کی تشخیص کے لئے ڈی این اے کے جس حصے کا پتہ لگایا جاتا ہے، وہ پوری دنیا میں ایک ہی ہے، اس لئے یہ بعید نہیں کہ ٹیسٹ میں استعمال ہونے والے کیمیکلز میں آلودگی آجانے کی وجہ سے کسی فرد کے ٹیسٹ کا نتیجہ غلطی سے پازیٹو آجائے۔ لیب میں اس چیز سے بچنے کے طریقے موجود ہیں اور ایک فرد کے خون کو کم از کم دو یا تین دفعہ اس عمل سے گزارنے کے بعد ہی حتمی نتیجہ اس کے حوالے کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ باقی کے کچھ لیب ٹیسٹ بھی معالج پی سی آر کے ساتھ ہدایت کرتا ہے، جن کے نتائج اس بات کو یقینی بناتے ہیں کہ پی سی آر کا رزلٹ صحیح ہے۔ کسی شک کی صورت میں ٹیسٹ دوبارہ، یا کسی اور لیبارٹری سے کروایا جاتا ہے۔ اس سب عمل سے کسی مریض کی غلط تشخیص کا چانس تقریباً نہ ہونے کے برابر رہ جاتا ہے۔
اب ہم آتے ہیں کسی انسان کی شناخت کے لئے کئے جانے والے ڈی این اے ٹیسٹ کی جانب۔ اب یہ تو شائد آپ سب جانتے ہی ہوں گے کہ ہر انسان کا ڈی این اے دوسرے سے مختلف ہوتا ہے اور ڈی این اے کے اسی مختلف ہونے کو انسان کی شناخت کے اس ٹیسٹ میں استعمال کیا جاتا ہے۔اگرچہ بنیادی طور پر ہیپاٹائٹس اور ہمارا زیر نظر ڈی این اے ٹیسٹ تقریباً ایک ہی طرح کے ہیں تاہم ان میں کچھ تھوڑا سا فرق بھی ہے۔ ہیپاٹائٹس کے برعکس جہاں ہر ایک ٹیسٹ میں ڈی این اے کا ہو بہو ایک جیسا ہی حصہ چیک کیا جاتا ہے، انسانی تشخیص کے ٹیسٹ میں ہر انسان کے لئے ہونے والا ٹیسٹ ڈی این اے کے کسی ایک مخصوص حصے کی موجودگی یا غیرموجودگی کا پتہ نہیں لگاتا بلکہ مشکوک شخص کے خون کے نمونے اور جائے وقوعہ سے حاصل ہونے والے نمونوں کا آپس میں موازنہ کرتا ہے۔ چنانچہ اس صورتحال میں کسی آلودگی کے نتیجے میں ٹیسٹ کے رزلٹ کا غلط آجانا اول تو ممکن ہی نہیں۔ تاہم اگر ایسا ہو بھی جائے، تو جیسا کہ اوپر بیان کیا جا چکا ہے جو لیبارٹریاں ایسے ٹیسٹ کرتی ہیں، ان کے طریقہ کار میں کسی فالس پازیٹو کا پتہ لگانا اس ٹیسٹ کے عمل کا ہی حصہ ہوتا ہے تاکہ حتمی رزلٹ کے معتبر اور مستند ہونے میں کوئی شک باقی نہ رہے۔ کسی بھی سائنسی تحقیق کی اشاعت کے وقت جب جریدے کے مدیر حضرات آپ کے پیش کئے گئے رزلٹس کا جائزہ لیتے ہیں تو کوالٹی کنٹرول کے ان پیمانوں کے بغیر آپ کے پیش کردہ نتائج کو قبول ہی نہیں کیا جاتا۔ اور شائد ہمارے فاضل دوست ڈاکٹر صاحب نے بھی اسی طرح کے کوالٹی کنٹرول کا لا علمی میں ذکر دیا جب انہوں نے ٹیسٹ کے کئی بار دہرائے جانے کا تزکرہ کیا۔

اب آئیے ڈی این اے ٹیسٹ کے قانونی معاملات میں استعمال کا جائزہ لیتے ہیں، جیسا کہ ریپ کیس۔ ایک خاتون کسی مرد پر الزام لگاتی ہے کہ مذکورہ مرد نے اس سے زبردستی جنسی زیادتی کا ارتکاب کیا ہے۔ پہلے تو اس بات کا جائزہ لیا جائے گا کہ آیا اس خاتون نے جنسی عمل کیا یا نہیں۔ اس میں ڈی این اے ٹیسٹ نہیں بلکہ کچھ اور طرح کے ٹیسٹ کئے جاتے ہیں۔ اگر یہ ثابت ہو جائے، تو پھر اس بات کا جائزہ لیا جاتا ہے کہ آیا یہ عمل زبردستی ہوا یا رضا سے، فورنزک سائنس کے مختلف ٹیسٹس سے اس بات کا جائزہ لیا جاتا ہے، جیسا کہ خاتون کے جسم پر تشدد کے نشان، اس کے جنسی اعضا پر پائے جانے والے ایسے نشان جو یہ پتہ دے سکیں کہ یہ عمل زبردستی تھا یا رضا سے۔ اگر ان سب ٹیسٹوں سے یہ بات ثابت ہو جائے کہ خاتون واقعی سچ کہہ رہی ہے تو اگلا مرحلہ مجرم کی درست شناخت کا ہوتا ہے۔ اور یہ وہ واحد مرحلہ ہے جہاں ڈی این اے نامی ٹیسٹ استعمال کیا جاتا ہے۔ اور جیسا کہ اوپر بیان کیا جا چکا ہے، یہ ٹیسٹ بھی لا پرواہی سے نہیں، بلکہ ہر طرح کی احتیاط سے کیا جاتا ہے، اورکڑے سائنسی طریقوں سے اس بات کو یقینی بنایا جاتا ہے کہ فالس پازیٹو نہ ہو۔ ان تمام کڑے مراحل سے گزر کر ہی جائے وقوعہ سے حاصل ہونے والے نمونوں اور ملزم کے ڈی این اے میں پائی جانے والی مماثلت کی بنیاد پر کسی کو مجرم گردانا جاتا ہے۔ یہاں یہ بیان کر دینا بھی میں ضروری سمجھتا ہوں کہ ریپ کے کیسز میں استعمال ہونے والا ٹیسٹ دنیا بھر میں اسی کامیابی اور اعتماد کے ساتھ استعمال کیا جا رہا ہے جیسا کہ ہیپاٹائٹس کا ڈی این اے ٹیسٹ۔ یہ ڈی این اے ٹیسٹ اس کے علاوہ دیگر جرائم کی تفتیش اور بیسیوں دیگر بیماریوں جیسا کہ ٹی بی کی تشخیص میں بھی استعمال ہو رہا ہے۔ دنیا بھر کے معلجین اس ٹیسٹ پر اعتبار کرتے ہیں اور تشخیص و علاج کے پیچیدہ فیصلے اس ٹیسٹ کی بنیاد پر ہی کرتے ہیں۔ دنیا بھر میں جرائم کے پیچیدہ کیسوں کی تفتیش میں بھی ڈی این اے بہت مددگار رہا ہے۔

میرے فاضل ہم پیشہ ڈاکٹر صاحب نے اپنے مضمون میں بار بار پاکستان کی لیبارٹریوں میں وسائل کی کمی، پیشہ ورانہ استعداد کے فقدان اور بے ایمانی کو ڈی این اے ٹیسٹ کو رد کرنے کا جواز بنانے کی کوشش کی، لیکن شائد موصوف یہ بھول گئے، کہ کل کو خدانخواستہ اگر ان کے خاندان کا کوئی شخص ایسی بیپاری کا شکار ہو جائے، جس میں ڈی این اے ٹیسٹ سب سے افضل تشخیصی ذریعہ ہو، تب موصوف نجانے اس ملک کی لیبارٹریوں کے رزلٹ پر یقین کریں گے یا نہیں۔ اور اگر خدانخواستہ کوئی ایسی بیماری ہو گئی جس کے علاج کے دوران ان کے معالج نے علاج کی کامیابی یا ناکامی کو جانچنے کے لئے ڈی این اے ٹیسٹ تجویز کیا، تو پھر کیا یہ صاحب اپنی جماعت کے امیر سے اس کا قرآن و حدیث کی روشنی میں حل پوچھیں گے یا چپ چاپ ہزاروں روپے خرچ کر کے یہ ٹیسٹ کروائیں گے؟

آئے اب ہم ذرا اپنے دوست کی جانب سے کی گئی سائنسی معرکہ آرائیوں کا جائزہ لیتے ہیں۔ موصوف لکھتے ہیں کہ

۔۔۔۔ڈی این اے ٹیسٹ کی کامیابی کا انحصار اسی پر ہوتا ہے کہ آپ نے جو نمونہ حاصل کیا اس میں واقعی وہ جنسی جرثومے اپنی اصل حالت میں موجود ہیں جس پر آپ ٹیسٹ کرنے والے ہیں یہ مختلف کیفیات پر منحصر ہے جس میں طریقہ واردات،ذانی کی جسمانی و جنسی صحت، نمونہ حاصل کرنے کا وقت اور نمونہ حاصل کرنے کا طریقہ کار و تجربہ کاری۔۔۔۔

جناب شائد آپ کو اس بات کا علم ہی نہیں کہ ریپ کیسز کے لئے کیا جانے والا ڈی این اے ٹیسٹ صرف جنسی جرثوموں کا استعمال نہیں کرتا۔ بلکہ جائے وقوعہ پر موجود ملزم کے جسم سے خارج ہونے والا کسی بھی قسم کا سیال مادہ مثلاً پسینہ، تھوک ریپ کے دوران ہونے والی کشمکش کے نتیجے میں مجرم کے جسم سے نکلا ہوا خون، جائے وقوعہ پر موجود اس کے بال، بستر کی چادر حتیٰ کہ اس کی انگلیوں کے نشانات سے بھی ڈی این اے حاصل کر کے اس ٹیسٹ میں استعمال کیا جاسکتا ہے۔ اس کے علاوہ شائد آپ کو اس بات کا بھی علم نہیں کہ ڈی این اے ایک انتہائی سخت جان کیمیکل ہے اور ہزاروں برس تک بھی اس کا کچھ نہیں بگڑتا۔ مثال کے طور پر سائنسدان آج کل ہزاروں سال پہلے معدوم ہو جانے والے جانوروں کو دوبارہ پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور ان کی کوششوں کی بنیاد ہی ان جانوروں کا وہ ڈی این اے ہے جو سائنس دانوں کو ان جانوروں کے ہزاروں سال پرانےفاسلز سے ملا ہے۔ تو جناب، جائے وقوعہ سے حاصل ہونے والا کسی بھی قسم کا مواد جس میں مجرم کا ڈی این اے موجود ہو سکتا ہے، جن کی تفصیل اوپر بیان کی جا چکی ہے، ان سے سیمپل حاصل کر کے وقوعہ کے کئی دن بعد تک بھی ٹیسٹ کیا جاسکتا ہے۔ اگرچہ یہ بات سچ ہے کہ بہت سے کیسز میں اس طرح کی شہادتیں میسر نہیں ہوتی اور جتنا جلدی کیس کو رپورٹ کر دیا جائے اتنا اچھا ہوتا ہے، تاہم یہ صورتحال اور بھی کئی قسم کے جرائم اور ان سے منسلک شواہد پر بھی لاگو آتی ہے، تو کیا ہم موصوف کی رائے کے مطابق ان تمام شواہد کو بھی ڈی این اے ٹیسٹ کی طرح نا قابل اعتبار قرار دے دیں؟ کسی شہادت کا قابل اعتبار ہونا اور بات ہوتی ہے اور اس شہادت کے استعمال سے منسلک شرائط کا پورا ہونا اور بات۔ اگر کسی کیس میں ڈی این اے کو بطور شہادت استعمال کرنا مقصود ہو تو اس کے ساتھ بھی اسی طرح کی شرائط عائد کی جاتی ہیں، تاکہ غلطی کا امکان ہر ممکن حد تک کم کیا جا سکے۔

اور آخری بات، ہم اپنے دوست کے اخلاقی نظریات کا احترام کرتے ہیں، اور باوجود اس کے کہ راقم بذات خود کسی کے جنسی رویے کو اس کا ذاتی مسئلہ سمجھتا ہے، ہم ایک لمحے کو اپنے فاضل دوست سے اتفاق کر لیتے ہیں کہ ڈی این اے ٹیسٹ زنا بالرضا کے کیسز میں قابل قبول شہادت نہیں۔ تو جناب، آپ اس بنیاد پر زنا بالجبر کے کیسز میں اس کے قابل قبول ہونے کو کیسے ٹھکرا سکتے ہیں؟ اور کنڈوم کا حوالہ دے کر جہاں آپ نے ایک طرف خاندانی منصوبہ بندی کے جدید طریقوں سے اپنی لاشعوری نفرت کا اظہار کیا ہے، وہیں آپ نے اپنی اس کم علمی کا ایک بار پھر ثبوت دیا جس کا ذکر ہم اوپر کر چکے ہیں کہ ریپ کے کیسز میں مادہ تولید ہی سیمپل کا واحد ماخذ نہیں ہوتا۔

اوپربیان کئے گئے تمام دلائل کا خلاصہ کچھ یوں ہو گا، کہ جہاں ڈی این اے کا سیمپل اپنے ساتھ منسلک تمام شرائط (جیسا کہ صحیح وقت پر اس کا حاصل کیا جانا یا مادہ تولید کے سوا سیمپل کے کسی اور ماخذ کا موجود ہونا وغیرہ وغیرہ) کے ساتھ میسر ہو، اور اس کے بعد اس پر لیبارٹری میں کئے جانے والے تمام ٹیسٹ ذمہ داری سے کئے گئے ہوں (جیسا کہ نبجی اور اس جیسے اداروں میں معمول ہے اور جیسا کہ درست سائنسی طریقہ ہے) تو ڈی این اے کو بطور قابل بھروسہ شہادت قبول نہ کرنا سراسر جاہلیت ہو گی۔ رہی بات پیشہ ورانہ استعداد اور بے ایمانی کے عنصر کی، تو اس بات کی کیا گارنٹی ہے کہ مروجہ طریقہ کار (گواہان اور واقعاتی شواہد وغیرہ) پران معاشرتی برائیوں کا کوئی اثر نہیں ہوتا؟ اس صورتحال میں آپ کا موجودہ نظام کسی بے گناہ کو کس طرح سخت اسلامی سزاوں سے بچا سکتا ہے؟

رہی بات ہمارے ملک کے قانون کے مطابق چار گواہوں کی موجودگی اور دیگر شہادتوں کی، تو میں اس کے متعلق کچھ نہیں کہنا چاہتا، ہمارے بہت سے دوست اس مضحکہ خیزی کی دھجیاں بکھیر چکے ہیں اور اس سے آگے کچھ کہنے کی مجھے ضرورت نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).