ہمیں جنس پر بات کرنے کی ضرورت ہے


زندگی حسین ہے مگر یہ اتنی آسان نہیں۔ فلسفہ کبھی کبھی تو سمجھ آ جاتا ہے تو کبھی نہیں بھی سمجھ آتا۔ بچے بڑے حساس ہوتے ہیں یہ بات ہمارے بڑے کہتے ہیں۔ یہی بڑے خود بچوں کو قاری صاحب کے حوالے کرتے ہوئے کہتے ہیں :’ قاری صاحب یا مولوی جی! نہیں قرآن پڑھتا یا شیطانی کرتا ہے تو بے شک چھنڈ دیو(پیٹو)۔‘ قاری صاحب بھی پھر ایسی ایسی مار دیتے ہیں کہ خدا کی پناہ۔ مار کھانے والا وہی بچہ ہے جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ بچہ حساس ہے۔ اپنے بچپن میں میں نے بھی ابا سے بہت مار کھائی۔ کبھی خواہ مخواہ تو کبھی چھوٹی سی غلطی پر۔ کیا ہے کہ اباحافظ قرا¿ن قرا¿ت کے ساتھ پڑھنے کا حکم صادر کرتے تھے۔ ہم ٹھہرے نرے کورے۔ نہ تب قرا¿ت کی سمجھ آئی نہ اب۔ ہمارے بچپن میںگھر میں اخبار آتا تھا۔ اخبار میں کئی خبریں ہوتی تھیں۔ جن میں بچیوں کے یا بچوں کے نام تو نہیں ہوتے تھے لیکن ان کے اسی طرح چیر اور کاٹ ڈالنے کی خبریں ہوتی تھیں جس طرح اب ہیں۔ زمانے بدلنے کے ساتھ بس یہ ہوا کہ اب ذرا سا شور بھی ہوتا ہے،کہیں سوشل میڈیا پر تو کہیں الیکٹرانک میڈیا پر۔
ہم یہی دہائی دیتے دکھائی دیتے ہیں کہ مسئلہ کیا ہے؟ حالانکہ سبھی جانتے ہیں کہ مسئلہ کیا ہے۔ اور سبھی حل بھی جانتے ہیں۔ میں سبھی لوگوں میں ان لوگوں کو نہیں گن رہی جو بے حس ہو چکے ہیں جو کوئی ٹھوس قدم اُٹھانے کی بجائے یہ دہائی دیتے ہیں کہ اسلام میں ہے کہ بچیوں کی جلدی شادی کر دی جائے۔ بچیوں کی جلدی شادیاں ہوں گی تو یہ درندگی ختم ہو گی۔ اللہ اکبر۔ احادیث کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ ہر عاقل و بالغ کو اختیار دیا گیا ہے کہ وہ اپنی مرضی سے اپنا لائف پارٹنر چنے اور لائف پارٹنر کا بھی عاقل و بالغ ہونا نیز اس کی مرضی ہوناضروری ہے۔ عمر کی حد نہیں رکھی گئی۔ شاید اسی لیے اجتہاد کا راستہ رکھا گیا۔
چلیے ٹھوس اقدام کی جانب چلتے ہیں۔ ہر سال ہزاروں بچیاں جن کے ابھی اعضاءکی نشوو نما ہونا شروع بھی نہیں ہوئی انہیں درندگی کا نشانہ بنا دیا جاتا ہے۔ کیا درندے اس زمین سے تعلق نہیں رکھتے؟ اور کیا ہم بچیوں کو اس بات کی اجازت دیتے ہیں کہ کچھ غلط ہو رہا ہو تو وہ والدین کو آگاہ کر سکیں؟ نہیں! وہ اپنے ہی ماں باپ کو اس حوالے آگاہ کرنے میں ناکام رہتی ہیں کیونکہ انہیں خود نہیں معلوم ہو رہا ہوتا کہ ہو کیا رہا ہے؟ یہ جو انکل ہیں اتنے پیار سے چاکلیٹ پر چاکلیٹ کیوں خرید کر دے رہے ہیں۔ یہ اپنے جسمانی اعضاءکو کیوں دکھا رہے ہیں؟ یا ہمیں کیوں ادھر ادھر ہاتھ لگا رہے ہیں؟ چھٹی حس کہتی ہے کہ کچھ غلط ہو رہا ہے؟ لیکن ننھا ذہن یہی نہیں سمجھ پاتا کہ کیا غلط ہو رہا ہے۔ اور جب بچے بتاتے ہیں امی کمر میں بہت درد ہو رہی ہے یا امی بہت تکلیف ہے تو جواب ملتا ہے۔ ابھی سے بوڑھے ہو گئے؟ بدمعاش! شیطانیاں نہ کرو۔ چپ کر کے ہوم ورک کرویا کوئی دوا دے کر سلا دیا جاتا ہے۔ معالج کے پاس تب تک نہیں لے جاتے جب تک کہ پانی سر سے گزر چکا ہو۔
جب تک بچوں کو مکمل حوالوں کے ساتھ رہنمائی نہیں ملے گی تب تک اسما، زینب اور دیگر شکار ہوتی رہیں گی۔ مزید یہ کہ ہمارے والدین کو بھی ابھی سیکھنے کی ضرورت ہے۔ اب مغرب نے اس چیز کو سیکھا ہے تبھی تو والدین کی کونسلنگ کے ادارے ان کے ہاں پائے جاتے ہیں۔ بچے کی پیدائش سے بچے کے اسکول جانے تک والدین کی ذمہ داری ہے کہ ان کا خاص خیال رکھیں اور انہیں اکیلا مت چھوڑیں۔ بچوں کی جسمانی حرکات و سکنات کو بھی دیکھا بھالا جاتا ہے۔ اتنا ہی نہیں جب بچہ اسکول جانے لگے تو اسکول میں بھی بچوں کی تربیت کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ ہمارے ہاں ایسا خال خال ہوتا ہے۔ اول تو پاکستان میں جگہ جگہ بنگالی باباو¿ں کے اشتہار چسپاں ہیں جو محبو ب کو قدموں میں ڈھیر کرنے کے ساتھ ساتھ اولاد بھی دیتے ہیں دوسرا نامردمی کے اتنے اشتہارات ہیں کہ کبھی کبھی گماں گزرتا ہے کہیں نامردوں سے تو نہیںپاکستان بھرا ہوا۔ اگر پاکستان میں نامرد ہی ہیں تو یہ کون لوگ ہیں جو اتنے سارے بچوں اور عورتوں کو جنسی تشدد کا نشانہ بنا رہے ہیں؟ آخر ہمارے ہاں جنس غیرمبحث موضوع کیوں ہے؟ اور جو دو لوگ بحث کر ہی لیں تو آگے پیچھے والے ان کے کردار پر کیوں شک کرنا شروع کر دیتے ہیں؟میرے ذہن میں تو یہ سوال ہی تب آیا جب جامعہ پنجاب کے جینڈرسٹڈی ڈیپارٹمنٹ کو آخری کونے میں پایا۔
آخر وہ کیا وجہیں ہیں جو ہمیں بات تک نہیں کرنے دیتیں۔ اب تو کچھ بدلاؤ آیا ہے۔ میرے خیال میں کوئی ایک دن منا لینا چاہیے جس میں ماہرین جنس اسکولوں کا دورہ کریں اور طلباءو طالبات کو مکمل آگاہی دیں۔ اسی طرح والدین کو بھی تعلیم کی اشد ضرورت ہے۔ ان کی کونسلینگ کے لئے بھی چاہے رضاکارانہ سہی مگر ماہرین و معالج کو آگے آنا چاہیے۔ کیونکہ جس ماہر نے انسانی جسم کا مطالعہ کر رکھا ہے اور جو اناٹومی پر بات کر سکتا ہے وہی اس موضوع کو ٹھیک طریقے سے بیان بھی کر سکتا ہے۔ مکالمہ ہونا چاہیے اور ذاتی و حکومتی سطح پر اقدامات ہونے چاہئیں تا کہ ان معاملات سے جلد سے جلد نمٹا جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).