جنسی درندے کون پیدا کررہا ہے؟ (2)


کہیں ملک میں ایسے واقعات کی وجہ کہیں ایسی مذہبی تعلیمات اور ماحول تو نہیں بن رہا جس کی طرف روشن نظر علمائے دین بھی توجہ مبذول کراتے ہیں۔ بچیوں سے ساتھ جنسی زیادتی کا ذمہ دار مخصوص طرز کی مذہبی سوچ کو قرار دینے والوں کے برعکس مذہبی ایسٹیبلشمنٹ کا ہمیشہ یہ خیال رہا ہے کہ ان واقعات کی وجہ مغربی اقدار کا عام ہونا ، بے حیائی اور بے پردگی ہے۔لیکن مذہبی ایسٹیبلشمنٹ کی ان باتوں پر زیادہ تر وہ لوگ یقین کرتے ہیں جنہوں نے مغرب کو کبھی آنکھوں سے نہیں دیکھا۔ ہم نے دیکھا ہے کہ وہاں آدھی رات کو ایک تنہا لڑکی رات کے وقت سائیکلنگ سے لطف اندوز ہوتی ہے اور کوئی اس پر حملہ نہیں کرتا۔ اس کے برعکس مغرب کی بے حیائی پر ہمارا وہ سماج مگر مچھ کے آنسو بہا کر کانوں کو ہاتھ لگاتا ہے جو اعتماد سے ہمسایوں کے گھر اپنی سات آٹھ سالہ بچیاں نہیں بھیج سکتا۔

 اس لئے اصل مسئلہ مذہبی و غیر مذہبی کا نہیں بلکہ انسانی و معاشرتی نفسیات اور بطور شہری ہماری تربیت کا ہے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ جنسی زیادتی کے واقعات مغرب میں بھی پیش آتے ہیں اور جنسی ہیجان مغرب میں بھی موجود ہے مگر وہاں قانون کے آگے کوئی راج ہنس بھی پر نہیں مارسکتا اور قانون پادریوں کا جبہ و دستار کو بھی خاطر میں نہیں لاتا۔ وہاں طاقتور سے طاقتور انسان بھی اگر اپنے جنسی جذبات کو لگام نہیں دے سکتا تو قانون کی گرفت میں آجاتا ہے۔

اس کے برعکس ہمارے ہاں صورتِ حال کچھ اور ہے۔ جنس اور جنسی موضوعات پر بات کرنا ممنوع ہے۔ بچوں کو شروع سے شرم و حیا کے نام پر ’شیم شیم ‘ کہہ کر ایسا ڈرایا جاتا ہے کہ وہ یہ بات والدین کو بھی نہیں بتا پاتے کہ فلاں شخص ان کے جسم کو مشکوک انداز میں چھیڑنے کی کوشش کرتا ہے۔ بچوں کو جنسی معروض پر استعمال کرنے والے درندوں میں سے اکثر ایسے لوگ ہوتے ہیں جن پر کوئی شک نہ کرسکتا ہو۔ اس لئے ان میں بڑی تعداد ان قریبی رشتہ داروں کی ہوتی ہے جو جنسی لحاظ سے احساسِ کمتری کا شکار ہوتے ہیں۔ مغرب میں ایسے لوگ کوئی جنسی کھلونا خرید لیتے ہیں، سیکس ورکرز کے پاس جاتے ہیں یا پھر خود لذتی کا شکار ہوجاتے ہیں۔

مغرب بہت حد تک سیکس معمول پر لایا ہے یعنی وہاں اسے normalize کرلیا گیا ہے۔ اس کے برعکس ہمارے ہاں اسے بہت حد تک مذہبی فکر کی مدد سے  abnormalize کر دیا گیا ہے جس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ سیکس کو غیر معمولی عمل سمجھنے والے شرمیلے نوجوانوں کے نزدیک اس کی خواہش اور خوف بڑھ گیا ہے۔ اس لئے یہاں جو عورت سے بات کرتے ہوئے تھر تھر کانپنا شروع کردیں، وہ جنسی کھلونے کی کمی حور کے تصور سے پوری کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

حور جنسی کھلونا ہے یا نہیں اس پر بہت سے علما کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے مگر عام طور پر مذہب طلب و رسد (demand & supply) کے اصولوں پر عمل پیرا ہوتا ہے۔ چالاک اور طاقت پرست قائدین علما کے روپ میں محض اپنے پیروکار بڑھانے کے لئے یہ اصول اپنا لیتے ہیں ، ’جو تمہاری طلب ہے ہم مذہب سے وہی کچھ نکال کر تمہاری خدمت میں پیش کریں گے‘۔ جنسی گھٹن کا شکار شرمیلے لوگوں کی طلب ہے کہ انہیں بھی اختیار اور ادارے سے محروم جنسی غلام میسر ہوں اور موقع پرست انہیں یہ خواب بیچ دیتے ہیں۔ یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ ایسی کہانیاں بیچنے والے لوگ ہی عورت کی آزادی اور بااختیار ہونے کی مخالفت کرنے لگتے ہیں۔ اس کی وجہ کیا ہے؟

اس کی وجہ یہ ہے کہ حور کے تصور کے ساتھ درپیش ایک بہت بڑا مسئلہ ہے اور وہ یہ کہ کوئی بھی انسان خالص حور کا تصور نہیں باندھ سکتا۔ وہ جب بھی کوشش کرے گا اس کے خیالات اور خوابوں میں میں عورت یا لڑکی ہی ابھرے گی کیونکہ حور پرست دراصل خواہش تو عورت کی ہی کرتا ہے مگر اُسے عورت کے بااختیار ہونے، انکار کرنے کی طاقت سے خوف اور نفرت ہو جاتی ہے۔

ہمارے ہاں قریبی رشتہ دار وں کے علاوہ مولوی حضرات اس لئے بھی بچوں کو جنسی ہوس کا نشانہ بنانے میں کامیاب ہورہے ہیں کیونکہ انہوں نے لوگوں کو اس غلط فہمی کا شکار کردیا ہے کہ عبادات فی ذاتہ نیکی اور شرافت ہیں۔ تاہم حقیقت یہ ہے کہ نیکی اور شرافت معاملات ہیں اور خود اسلامی تعلیمات میں یہ اصول موجود ہے کہ’ لوگوں کو عبادات سے نہیں، معاملات سے پہچانو‘۔ معاملات کے برعکس ہمارے ہاں جو نماز پڑھتا ہے، قرآن پاک پڑھا لیتا ہے ، جس نے داڑھی رکھ لی ہے وہ نیک اور شریف کہلاتا ہے لیکن حقیقی نیکی و شرافت کے لئے عبادات سے زیادہ محنت ، ریاضت اور ضبطِ نفس کی ضرورت ہے۔

 اس لئے ہمارے سماج کو اس خطرناک غلط فہمی سے نکلنے کی ضرورت ہے کہ ہر عبادت گذار اور مذہبی شکل اختیار کرنے والے نے اپنی حیوانی جبلتوں کو مسخر کرلیا ہے۔ وہ حیوانی سطح ماورا اور بلند ہوگیا ہے لہٰذا وہ کسی جنسی جرم کا مرتکب نہیں ہوسکتا۔ یہ سب ان لوگوں کی پھیلائی ہوئی باتیں جو لوگوں کی نظروں سے چھپ کر اعتماد کے پردے میں ان پر وار کرنا چاہتے ہیں۔

ہمارے ہاں اس صورتِ حال کو دیکھ کر شاید کبھی اس مسئلے پر کوئی سنجیدہ نفسیاتی تحقیق نہ کی جائے حوروں کے ساتھ جنسی معاملات کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنے اور جذباتی گھٹن کا شکار شرمیلے جوان پیدا کرنے سے معاشرے میں کس قدر جنسی ہیجان پیدا ہورہا ہے کیونکہ یہاں لوگوں کی ایک بڑی تعداد بغداد کے کوتوال اور خود ملا نصیر کی طرح وقوفی و شناختی اور سہل پسندی کا شکار ہوکر اپنی بچیوں کی عصمت بریدہ لاشیں کوڑے کے ڈھیر وں سے اٹھا رہی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments