جامعہ پنجاب۔ بدمعاشوں اور سادھوؤں کے بیچ


معاملہ جامعہ پنجاب کا ھو۔ ساتھ جمعیت کا نام بھی ھو تو خبر محض خبر نہیں بلکہ سنسنی خیز خبر بن جاتی ہے۔ ملکی تعلیمی اداروں کی زبوں حالی پر افسوس ہوتا ہے۔ لیکن تعلیم کی محبت اور بالخصوص جامعہ پنجاب میں تعلیمی زبوں حالی پر بعض اہل قلم اور نشریاتی مکالمہ کرنے والے صحافی حضرات کی دل گرفتگی کو دیکھ کر دل کو اک اطمینان کا احساس ہوتا ہے کہ نہیں ابھی درد مند لوگ زندہ ہیں۔ افسوس جلد ہی معلوم ہوا کہ ان کی تعلیم و تدریس سے محبت صرف اور صرف جامعہ پنجاب کی حد تک ہے۔ درالحکومت کی بڑی درسگاہ ہفتوں بند رہے تو اسے لسانی اور علاقائی بنیادوں پر اکٹھے چند لڑکوں کی دل لگی سے زیادہ اہمیت نہ دی جائے۔ ایک اور بڑی درسگاہ میں منشیات کے کاروبار کو محض ایک معاشی سرگرمی اور بھٹکی جوانی کی کارستانی سے زیادہ اہمیت نہ دی جائے۔ تو بجا طور پر سوال جنم لیتا ہے کہ یہ واقعتاً علم کی محبت میں یہ تلواریں بے نیام ہوئی ہیں یا بغض جمعیت کی کارستانی ہے۔ بہرحال خوبصورت تحریروں سے جھلکتا بعض پر چھپائے چھپتا نہیں۔
جمعیت کبھی بھی اس غلط فہمی کا شکار نہیں رہی کہ وہ فرشتوں کی جماعت ہے۔ پھر بھی نہ جانے کیوں دوسری طلبہ تنظیموں کے ساتھ متقابلی جائزے میں اس کو فرشتوں اور قرون اولیٰ کے مسلمانوں کے پلڑے میں رکھ کر اور دوسرے فریق کو محض یونیورسٹی کے نوجوان سمجھ کر پرکھا جاتا ہے۔ ذرا سی بات پر سخت گرفت کی جاتی ہے۔ جمعیت کے مد مقابل تنظمیں حکومتی ایوانوں میں موجود حمایت کے باوجود اپنا وجود کھو بیٹھی ہیں۔ اس دور میں بھی جب ملک کی سیاسی جماعتیں افراد اور خاندانوں کے گرد گھومتی ہیں، جمعیت بحیثیت طلبہ تنظیم اپنا وجود برقرار رکھتی ہے۔ اب کچھ برسوں سے پنجاب یونیورسٹی میں موجود جمعیت کے بدمعاشوں کے خلاف اور ان کے مقابل سادھوؤں کی حمایت میں ایک قلمی اور نشریاتی جہاد کیا جا رہا ہے۔ جس میں جمعیت کے کچھ اپنے کرتوت بھی ہیں۔
بہرحال کل والے واقعہ میں جمعیت کے پروگرام کی تیاریوں کو نشانہ بنایا گیا۔ پروگرام سے متعلقہ سامان والے کمرے کو آگ لگا دی گئی۔ لیکن معاملہ وہی بدمعاش جمعیت اور باقی سب سادھو۔ ان سادھوؤں کی روحانی طاقت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ قلیل تعداد کے باوجود ایک بڑی تنظیم کے حامیوں کو مارا پیٹا۔ چلیں چھوڑیں اس کہانی کو اور سنجیدہ بات کی جائے۔ اس بات میں تو کوئی دو رائے نہیں کہ تمام طلبہ کو یونیورسٹی انتظامیہ کے تعاون سے اپنے پروگرام کرنے کی اجازت ہونی چاہیے اور یونیورسٹی میں امن وامان کی ذمہ داری انتظامیہ کی ہوتی ہے نہ کہ طالب علموں کی۔
لیکن یہاں معاملہ پروگراموں کا نہیں بلکہ یونیورسٹی انتظامیہ (بالخصوص ایک سابقہ صدر جامعہ اور ان کے ہم نواؤں کے دور سے) چند مخصوص طلبہ کو جمعیت کے خلاف کھڑا کرنے کا ہے۔ اس کا آغاز انصاف سٹوڈنٹس فیڈریشن کی باگ دوڑ انہی لوگوں کے ہاتھ میں دے کر کرنے کوشش کی گئی جن کو جمعیت نے خان صاحب والے واقعے میں اپنی تنظیم سے نکالا تھا۔ جب یہ بیل بھی منڈھے نہ چڑھ سکی تو لسانیات کا ڈول ڈالا گیا۔ اور اس کے لئے چند بلوچ اور پختون طلبہ کو استعمال کیا گیا۔ جس کےلئے ان کو پریس کانفرنس کرنے کی تربیت جیسی سہولیات بھی انتظامیہ نے خود پریس کلب میں دی۔
بلوچ طلبہ کا صوبائیت اور لسانیات کی بنیاد پر اپنی تنظیم کا کھڑا کرنا اور مخالف تنظیم سے ٹکراؤ اختیار کرنا تب تو سمجھ میں آتا ہے اگر مدمقابل بھی ایک لسانی اور علاقائی بنیادوں پر کھڑی تنظیم ھو۔ جمعیت نے ان تمام طلبہ کو خوش آمدید کہا۔ جمعیت کی تنظیم کی بنیاد علاقائی، لسانی اور مذہبی فرقہ بندی پر ہے ہی نہیں۔  مزید برآں جمعیت کی موجودہ مرکزی شوریٰ میں بلوچ بھی ہیں اور پشتون بھی۔ جبکہ موجود ناظم اعلیٰ بھی پختون ہے۔
بات یہ ہے کہ جمعیت کے مقابلے میں یہ کونسل کونسل کے کھیل والی پرانی کہانی کو پنجاب یونیورسٹی بھی میں کھیلنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اور جمعیت کو سرکاری سرپرستی میں دیوار کے ساتھ لگانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اس کھیل کے در پردہ کھلاڑیوں کو اندازہ ھونا چاھئے کہ پھر کہانی لسانی اور علاقائی بنیادوں پر گروہ بندی پر نہیں رکے گی۔ بلکہ فرقوں اور ذات برادری کے نام پر بھی آگے بڑھے گی۔ مزید برآں ان طلباء سے کوئی یہ سوال بھی تو پوچھے کہ کیا وہاں کے تعلیمی اداروں میں پنجاب سے آنے والے طلبہ کو بھی یہی سہولیات اور آزادی میسر ہے۔ خصوصی انتظام پر پنجاب یونیورسٹی میں بلوچستان کے طلبہ کو داخلہ دینا ایک قابلِ تحسین کام تھا۔ لیکن افسوس ایک اچھے کام کو اپنے ذاتی مقاصد کی پایہ تکمیل کے لیے استعمال کیا گیا۔
رہی یہ دلیل کہ جمعیت پنجاب یونیورسٹی کے طلباء کی چمپئن کیوں بنتی ہے۔ تو عرض یہ ہے کہ جمعیت نے تو بارہا نہ صرف یہ مطالبہ کیا ہے، بلکہ اس کے حق میں تحریک بھی چلائی ہےکہ طلبہ یونین کو بحال کیا جائے اور طلبہ جس کو چاہیں اپنا لیڈر منتخب کریں۔ ملک کے تعلیمی اداروں میں طلبہ یونین پر پابندی اور اس نظریاتی کشمکش کے خاتمے کا ہی یہی مظہر ہے کہ پارلیمنٹ پر لعنت بھیجنے والے ہمارے نوجوانوں کے سرکردہ رہنما ہیں۔ سیاسی اختلاف رکھنے والوں کو سوشل میڈیا پر جامعات سے فارغ التحصیل طلباء سے گالیوں کی صورت میں جواب ملتا ہے۔
بہرحال یہ جمعیت کی بدقسمتی کہے کہ اس کو ماضی میں میسر نظریاتی دشمنوں کی سہولت اب دستیاب نہیں۔ اچھا دشمن بھی خدا کی نعمت ھوتا ہے۔ جمعیت کے لیے پیغام جیسے کسی نے خوب کہا “کہ زندگی اپنی خوبیوں پر بسر کی جاتی ہے دوسروں کی خامیوں پر نہیں۔”


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).