فیشن ڈیزائن کی ابھرتی ہوئی صنعت


مشہور ڈرامہ نگار ولیم شیکسپیئر نے کیا خوب کہا ہے کہ “لباس شخصیت کا آئینہ دار ہوتا ہے۔ ” دنیا میں  شائد ہی کوئی ایسا شخص ہو گا جسے اچھا دکھنے کا شوق نہ ہو، خاص طور پر خواتین خواہ ان کا تعلق مشرق سے ہو یا مغرب سے فیشن کے معاملے میں  مشکل سے ہی سمجھوتہ کرتی ہیں۔ لباس کا انتخاب اس شوق کی تکمیل میں  بنیادی کردار ادا کرتا ہے جبکہ اچھا لباس کسی شخصیت کے باذوق ہونے کی دلیل سمجھا جاتا ہے۔ اچھا دکھائی دینے کی فطری جبلت نے دنیا میں  فیشن انڈسٹری کو فروغ دیا ہے۔ اب صورتحال یہ ہے کہ جدید دنیا میں  فیشن کا شعبہ ایک ابھرتی ہوئی صنعت کی حیثیت اختیار کر چکا ہے جس کا حجم اربوں ڈالر ہے جو لاکھوں لوگوں کیلئے روزگار کا ذریعہ بھی ہے۔ اگرچہ پاکستان کے ساتھ ساتھ دیگر کئی ممالک میں  روایتی سلائی کڑھائی کے رجحانات بہت پرانے ہیں اور آج بھی ہمارے گاؤں، دیہات میں  اکثر خواتین اس ہنر میں  مہارت رکھتی ہیں لیکن اب روایتی فیشن کی بجائے اس شعبہ میں  نت نئے رجحانات سامنے آرہے ہیں اور پاکستان سمیت دنیا بھر میں اس نے باقاعدہ ایک اکیڈمک شعبہ کی حیثیت حاصل کر لی ہے جہاں روایتی اور غیر روایتی دونوں طریقوں سے اس شعبے کے ماہرین تیار کیے جارہے ہیں۔ کسی دور میں  فیشن پر صرف طبقہ اشرافیہ کی اجارہ داری تھی لیکن اب مڈل اور لوئر مڈل کلا س بھی برانڈزکا شعوررکھتے ہیں۔ اگر پاکستان کی معیشت میں  برآمدات کی بات کی جائے تواس میں  ٹیکسٹائل کا شعبہ سب سے نمایاں ہے ۔ چین، پاکستان، بنگلہ دیش، بھارت، جرمنی، انڈونیشیا، ملائشیا، فلپائن، ساو ¿تھ کوریا، سپین اور برازیل وہ ممالک ہیں جہاں بڑے بین الاقوامی ٹیکسٹائل برانڈزکیلئے مینوفیکچرنگ ہو رہی ہے۔ پیرس، میلان، نیویارک اور لندن دنیا بھر میں  فیشن کے چار بڑے مراکز سمجھے جاتے ہیں۔ دنیا میں  سات ایسے ممالک ہیں جو فیشن کے حوالے سے بین الاقوامی شہرت رکھتے ہیںجن میں  فرانس، اٹلی، یوکے، یونائیٹڈ اسٹیٹس، جاپان، جرمنی اور بلجیئم شامل ہیں۔ لباس کی مینوفیکچرنگ عام طور پر تین خطوط پر کی جاتی ہے جن میں  انفرادی طور پر لباس کی تیاری(haute couture)، مختلف برانڈز کی جانب سے موسموں کی مناسبت سے محدود تعداد میں  تیار کردہ ملبوسات (Ready-to-wear)اورہر خاص و عام یا بڑی تعداد میں  لوگوں کی ضروریات کو پورا کرنے کیلئے مختلف برانڈز کی طرف سے ہر سائز کے ملبوسات کو متعارف کرواناجس کیلئے ماس مارکیٹ (mass market) کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے۔

مختلف ملبوسات کی تیاری میں  آرٹ، ڈیزائن اور جمالیات (aesthetics ) کو مدنظر رکھنا فیشن ڈیزائن کہلاتا ہے۔ اس میں  ثقافتی اور سماجی رجحانات کو بطور خاص پیش نظر رکھا جاتا ہے۔ ایک ڈیزائنر فیشن کے رجحانات پر ہمیشہ گہری نظر رکھتا ہے اور اس حوالے سے مینوفیکچررز یا کسٹمرز کی راہنمائی کرتا ہے اوراس سارے عمل میں  یہی ڈیزائنر کا بنیادی کردار ہوتا ہے۔ میٹریل، رنگ، پیٹرن اور سٹائل کا صحیح انتخاب ہی ایک اچھے ڈیزائنر کی پہچان ہوتا ہے۔ دور جدید میں فیشن انڈسٹری کی شروعات انیسویں صدی میں  ہوئی اور چارلس فریڈرک ورتھ (Charles Frederick Worth) وہ پہلا ڈیزائنر ہے جس نے اپنا برانڈ متعارف کروایا۔ ورتھ نے ہی سب سے پہلے اپنے کسٹمرز کو لباس کے انتخاب کیلئے راہنمائی دینا شروع کی ۔  1858 کے بعد بہت سے ڈیزائن ہاؤسز نے گارمنٹس کے ڈیزائنز کیلئے باقاعدہ طور پر ماہرین کی خدمات حاصل کرنا شروع کیں اور کسٹمرز کو اپنے پسندیدہ ڈیزائن کے انتخاب کی چوائس دی جانے لگی ۔ کسی دور میں  ٹیلر ایک فرد واحد کے طور پر گارمنٹ تیار کرتا تھا لیکن اب لباس کی تیاری میں  بہت سے ماہرین کی مہارتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے مختلف فیشن ہاؤسز لباس تیار کرواتے ہیں ۔ ان ماہرین میں  فیشن ڈیزائنر، ٹیکنیکل ڈیزائنر، پیٹرن میکر، ٹیلر، ٹیکسٹائل ڈیزائنر، سٹائلسٹ، پینٹر یا فوٹو گرافر، فیشن فورکاسٹر، ماڈلز اور فیشن جرنلسٹ شامل ہیں جن کا اس شعبے کی ترویج میں  اپنا اپنا کردار ہے۔

 یہ بات خوش آئند ہے کہ پاکستا ن بھی اس شعبے میں  بہت تیزی سے ترقی کر رہا ہے اور مروجہ ٹیلرنگ سے قطع نظر پاکستانی عوام میں  بہت سے فیشن برانڈز قبول عام کا درجہ حاصل کر چکے ہیں۔ پاکستان میں  تیزی سے بڑھتی ہوئی مڈل کلاس کی وجہ سے ان برانڈز کے صارفین کی اچھی خاصی تعداد موجود ہے اور شائد یہی وجہ ہے کہ اس شعبے میں  آنے والوں کو کامیابیاں مل رہی ہیں اور آئے روز نت نئے برانڈز مارکیٹ میں  متعارف ہو رہے ہیں جس سے صحتمندانہ مسابقت کی فضا پیدا ہورہی ہے۔ حالیہ عشرے میں  پاکستان کو ایشیاء میں  ایک فیشن کے مرکز کی حیثیت حاصل ہوئی ہے۔ پاکستان نے فیشن ڈیزائن کی دنیا میں  بہت بڑے نام بھی پیدا کیے ہیں جن میں  دیپک پروانی اور حسن شہر یار نمایاں ہیں۔ پاکستان کے مختلف علاقوں میں  رائج روایتی کشیدہ کاری اور ڈیزائنز بھی بہت مقبول ہیں ۔ پاکستان ثقافتی اعتبار سے بہت زرخیز ملک ہے اور ہر خطے کے مخصوص پہناوے اس کی شناخت ہیں۔ خاص طور پر ہمارے روایتی بلوچی، سندھی، چترالی، ہنزہ، ملتان اورکشمیری پہناوے نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر میں  پسند کیئے جاتے ہیں ۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ امر بھی اطمینان کا باعث ہے کہ اب روایتی دستکاری سکولوں سے ہٹ کر اس شعبے کی اعلیٰ سطح پر تعلیم بھی دی جارہی ہے اور بہت سے پبلک سیکٹر اور نجی تعلیمی اداروں میں  اس شعبے میں  بیچلرز اور ماسٹرز لیول کے کورسز متعارف کروائے جارہے ہیں ۔ ان اداروں میں  پاکستان سکول آف فیشن ڈیزائن، اقراءیونیورسٹی، نیشنل ٹیکسٹائل انسٹیٹیوٹ، ٹیکسٹائل انسٹیٹیوٹ آف پاکستان، انڈس یونیورسٹی اور ویمن یونیورسٹی صوابی سمیت درجنوں دیگر ادارے شامل ہیں۔ امید کی جاسکتی ہے کہ یہ شعبہ پاکستان کی اقتصادی ترقی میں  بھرپور کردار ادا کرے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).