زینب کے کیس سے چند سبق


پاکستان میں بچوں کے ساتھ زیادتی اس سے کہیں زیادہ عام ہے جتنا ہم یقین کرنا چاہتے ہیں۔ بچوں کے ساتھ زیادتی کے مرتکب ہونے والے زیادہ تر لوگ ان کے رشتے دار، ان کے خاندان کے دوست احباب یا قاری صاحب وغیرہ ہوتے ہیں۔

بطور پولیس افسر میرے چند مشاہدات کچھ یوں ہیں

1۔ میں نے بچوں کا ریپ کرنے والے ایک درجن سے زیادہ مجرموں کا انٹرویو کیا ہے۔ ان سب میں ایک چیز مشترک دکھائی دی۔ جو لوگ بچوں کا ریپ یا جنسی استحصال کرتے ہیں اپنے بچپن میں خود ریپ ہوئے تھے۔ جو کبھی خود مظلوم تھے وہ بعد میں خود ظالم بن گئے۔ یاد رہے کہ سب مظلوم ایسے نہیں تھے لیکن یہ ریپ کرنے والے خود کبھی ریپ ہوئے تھے۔ نفسیات دانوں کو اس بارے میں تحقیق کرنے کی ضرورت ہے۔

2۔ پاکستانی والدین اپنے بچوں کے معاملے میں مجرمانہ غفلت کے مرتکب ہوتے ہیں۔ بچوں کو تنہا چھوڑنا یا ان کو گھر سے اکیلے باہر جانے دینا ایک عام چیز ہے۔ مغربی ممالک میں بچوں کو گھر پر اکیلا چھوڑنا یا والدین کی نگرانی کے بغیر تنہا باہر جانے دینا ایک جرم ہے۔

3۔ ہمارے معاشرے میں بچوں کو بہت بنیادی سیکس ایجوکیشن بھی نہیں دی جاتی کہ کوئی بالغ ان کے جسم کے مخصوص حصوں جیسے زیریں ناف، کولہے اور رانوں کو نہیں چھو سکتا۔ امریکہ میں یہ بات اچھی نہیں سمجھی جاتی کہ دوسرے خاندانوں کے بچوں سے ہاتھ بھی ملایا جائے۔ ان کا قول ہے کہ ”بچے ہاتھ نہیں ملاتے“۔

4۔ وقت آ گیا ہے کہ حکومت اس مسئلے کو مستقل بنیادوں پر حل کرنے کے لئے قانون سازی کرے۔ ہمیں مغربی ممالک کے قوانین کا مطالعہ کرنے کی ضرورت ہے کہ وہ کس طرح اپنے بچوں کے تحفظ کو یقینی بناتے ہیں۔ ایک ریاست کا قانون یہ کہتا ہے کہ گیارہ برس کی عمر سے چھوٹے بچے کو گھر میں یا گھر سے باہر اکیلا نہیں چھوڑا جا سکتا ہے۔

5۔ اس معاملے میں ہمیں مجرم کو چوک میں پھانسی دینے کے مقبول عوامی مطالبے کو مسترد کرنا چاہیے اور اس کی حوصلہ شکنی کرنی چاہیے۔ کیا ہمارے معاشرے میں پہلے بھی تشدد کی کوئی کمی ہے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).