نریندر مودی ورلڈ اکنامک فورم میں شاہ رخ خان کو لے کر گئے ہیں


بھارت میں نریندر مودی کی اقتدار میں آمد اس تصور کے پنپنے کے سبب سے ممکن ہوئی تھی کہ وہ بھارتی معیشت یا با الفاظ دیگر بھارتی کاروباری طبقے کے مفادات کو نہ صرف کے بھارت میں محفوظ بنائیں گے بلکہ بین الاقوامی برادری سے بھی کاروباری بنیادوں کو مزید مضبوط کریں گے۔ اس تصور کے تحت Make in India کا پر کشش نعرہ بھی استعمال کیا گیا۔ مودی حکومت نے اس جانب قدم بھی بڑھائے اور بدستور اپنے آپ کو دنیا کے عالمی منظر نامے کے ایک اہم کردار کے طور پر پیش کرنے کا ڈھول بھی تواتر سے پیٹا گیا۔ کیونکہ عالمی سیاست معیشت کے گرد ہی گھومتی ہے۔ اس لئے 21 سال بعد نریندر مودی نے ورلڈ اکنامک فورم میں شرکت کا نہ صرف فیصلہ کیا بلکہ اس فورم پر اپنی موجودگی ثابت کرنے کے واسطے سیاسی، معاشی اور ثقافتی محاظوں کو ایک صفحے پر لاتے ہوئے حکمت عملی بھی تیار کی۔

بھارت اس حوالے سے کہ معیشت کو مزید گیئر لگایا جا سکے۔ ایک معاشی ایجنڈے پر کاربند ہے اور سیاسی طور پر نریندر مودی اس معاشی ایجنڈے سے منسلک اقدامات کو دنیا کے سامنے رکھتے ہوئے خیال کیا جا رہا ہے کہ افتتاحی سیشن سے اپنا خطاب کریں گے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بھارت کے پاس ایسا کیا ہے کہ جس کے سبب سے وہ دنیا کے اعلیٰ ترین کاروباری افراد کو اپنی معیشت میں شامل ہونے کی جانب متوجہ کر سکتا ہے۔ Make in India نعرے کو عملی جامہ پہنانے کی غرض سے موجودہ بھارتی حکومت نے بھارتی معیشت کے حوالے سے موجود قوانین اور پالیسیوں میں چالیس بنیادی نوعیت کی تبدیلیاں متعارف کروائی ہیں۔

ان تبدیلیوں پر اگر ہم نظر ڈالیں تو واضح طور پر محسوس ہو گا کہ یہ تبدیلیاں غیر ملکی سرمایہ کاری کو راغب کرنے کی جانب اقدامات سے تعبیر کی جا سکتی ہیں۔ مثلاً بھارت نے ٹیکس کے معاملے میں اصلاحات کے اوپر بڑے پیمانے پر کام کیا ہے بلکہ انہوں نے ماضی کے ٹیکس کے معاملات کو تبدیل کرتے ہوئے ان معاملات کو ٹیکس ٹیررزم تک کا نام دیا۔ اور اپنی اصلاحات کو End of Tax Terrorism قرار دیا۔ اسی طرح بیرونی سرمایہ کاروں۔ کاروباری طبقات کے لئے بندرگاہ کے استعمال کے قوانین بہت اہمیت کے حامل ہوتے ہیں۔ بھارتی حکومت اس میں تبدیلی لے کر آئی اور بندرگاہوں پر براہ راست ڈلیوری کی اجازت نئے قانون میں دے دی گئی۔ اس طرح انشورنس ایکٹ میں ترمیم کر دی گئی۔ بینک کرپسی بل لایا گیا ہے۔ Goods and Services Tax نافذ کی گئی ہے۔ اودے الیکٹرک پاور ڈسٹری بیوشن بیل آؤٹ بھی اسی مودی دور میں سامنے لایا گیا۔ نریندر مودی انہی تمام ہتھیاروں سے سیاسی طور پر لیس ہو کر ورلڈ اکنامک فورم کے اجلاس میں اپنا خطاب کریں گے۔

اس خطاب کے ساتھ ساتھ انہوں نے اپنی اور اپنی وفد کی دیگر سرگرمیاں بھی طے کر رکھی ہیں۔ ان کا وفد 100 افراد پر مشتمل ہے جن میں 6وزراء، سرکاری افسران، کاروباری نمائندے اور شاہ رخ خان جیسی بالی وڈ کی شخصیات بھی شامل ہیں۔ مختلف ممالک کے حکومتی افراد اور کاروباری شخصیات کو متاثر کرنے کی غرض سے بھارتی ثقافت اور بھارتی کھانوں کو بھی ایک حربے کے طور پر رکھا گیا ہے۔ مثلاً نریندر مودی کے اس وفد میں یوگا کے ماہرین بھی شامل ہیں۔ جو وہاں پر ورلڈ اکنامک فورم کے مندوبین کے لئے یوگا کی کلاسز یا عملی تربیت دیں گے۔ دلچسپی پیدا کرنے اور قریب لانے کے لئے یہ ایک مؤثر حربہ ہو گا۔ بھارتی وزیر اعظم جہاں سویٹزرلینڈ کے صدر سے ملاقات کریں گے وہیں پر بھارت میں 1500 مندوبین کے لئے ویلکم ریسپشن بھی رکھا ہوا ہے۔ اس ویلکم ریسپشن کی خاص بات یہ ہے کہ اس میں مندوبین کو بھارتی کھانوں اور ثقافت سے روشناس کروا کر دلچسپی کا ماحول پیدا کرنے کی کوشش کی جائے گی۔

نریندر مودی نے ایک راؤنڈ ٹیبل ڈنر کی بھی میزبانی کرنی ہے۔ جس میں دنیا کے صف اول کی کاروباری شخصیات مدعو ہیں۔ Air Bus، Hitachi، BAE Systems اور IBM کے سی اوز سمیت یہ تعداد 60 افراد پر مشتمل ہو گی۔ پھر اس کانفرنس کی خاص بات یہ ہے کہ اس میں مندوبین میں سے 21 فیصد خواتین شامل ہیں۔ جن میں ناروے کی وزیر اعظم ارنا سولبر، آئی ایم ایف کی ڈائریکٹر کرسٹائن لیگالڈ اور آئی بی ایم کی چیف ایگزیکٹو گنی رومیتی سمیت متعدد اہم خواتین شامل ہیں۔ اس کیفیت کو مد نظر رکھتے ہوئے بھارت نے شاہ رخ خان کی مقبولیت اور پہچان کو استعمال کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

شاہ رخ خان کو اس اجلاس کے دوران کرسٹل ایوارڈ سے نوازا جائے گا۔ جبکہ بھارت میں خواتین کی حالت اور بالخصوص خواتین کے لئے کاروباری مواقعوں کو اجاگر کرنے کے لئے شاہ رخ خان وہاں پر ایک سیشن منعقد کروائیں گے۔ جس کا عنوان Women Empowerment and it‘s significance for India ہو گا۔ اور اس سیشن کے ذریعے ورلڈ اکنامک فورم میں موجود خواتین کو راغب کرنے کے لئے بالی وڈ کے ستارے کا استعمال اور ایک متاثر کن تھیم اختیار کیا جائے گا۔ ورلڈ اکنامک فورم میں 21 سال بعد کسی بھارتی وزیر اعظم کی موجودگی اور سیاسی، معاشی، ثقافتی بنیادوں کو ایک متحد صورت میں پیش کرنے کے کیا نتائج برآمد ہوتے ہیں۔ یہ بھارت کے لئے بہت اہم ہیں۔ کیونکہ اگر معاشی کارکردگی کو بہتر بنانا ہے تو ایسے فورم سے فائدہ اٹھایا جانا بھارت کی ضرورت ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ بھارت کی یہ ضرورت پوری ہوتی ہے یا صرف خواب و خیال ہی رہتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).