پارلیمنٹ پر لعنت کی بحث


آج کل لعنت کا لفظ ہمارے میڈیا میں بہت زیر بحث ہے۔ ایک گروہ کا کہنا ہے کہ پارلیمنٹ ایک مقدس ادارہ ہے۔ اس لیے اس پہ لعنت کرنا گناہ کبیرہ اور جرم عظیم ہے۔ جبکہ دوسرے گروہ کا موقف یہ ہے کہ لعنت پارلیمنٹ پہ نہیں بلکہ پچھلے دنوں جو پارلیمنٹ کی چھتری تلے گل کھائے گئے ان پہ لعنت کی گئی ہے۔ ہر دو فریقین کے اپنے اپنے دلائل ہیں۔ اور ان دلائل کے سچے ہونے پہ مُصر ہیں۔

اگر دونوں قسم کے دلائل کا تجزیہ کیا جائے۔ تو اس کے نتائج حسب ذیل ہوسکتے ہیں پاکستان کی پارلیمنٹ قومی اسمبلی، سینٹ اور صدر پہ مشتمل ہے۔ آئین میں اسے مجلس شوری یا پارلیمان کہا گیا ہے۔ آئین کے مطابق پارلیمان پاکستان کا سب سے بڑا ادارہ ہے۔ اور اللہ کے بعد پاکستان میں اس سے زیادہ کسی کے پاس اختیارات نہیں ہیں۔ لیکن یہ اختیارات قانون سازی اور اسی پارلیمان کی بنیاد پہ بنی حکومت کے پاس ہیں۔ اس کے علاوہ ملک کی انتظامیہ کے بھی کلی اختیارات پارلیمان کے تحت بنی حکومت پاس ہیں۔ آئین پارلیمان پہ یہ ذمہ داری ڈالتا ہے کہ وہ ریاست پاکستان اور اس کی عوام کے حقوق کا تحفظ کرے گا۔ پارلیمان کی ذمہ داری ہے کہ وہ آئین میں دیے گئے عوام کے حقوق بہتر طریقے سے پورے کرے۔ اور اگر کوئی حکومت اور پارلیمان وہ ذمہ داریاں پوری نہیں کرتی تو وہ آئین کی خلاف ورزی کی مرتکب ہو گی۔ ہمیں ایک بات کبھی نہیں بھولنا چاہیے کہ پارلیمان کو مقدس آئین پاکستان نے بنایا ہے۔ اور جب پارلیمان اس آئین جس نے اسے عزت دی اس کی دھجیاں اڑاتی ہے تو وہ مقدس کیسے ہوگی؟

اس بات کو اگر ایک اور حوالے سے دیکھا جائے تو وہ یوں بنے گا کہ ریاست کے تین بنیادی ستون ہوتے ہیں۔ مقننہ، انتظامیہ اور عدلیہ۔ اور یہ تینوں اپنی اپنی جگہ محترم و مقدس ہوتے ہیں۔ پاکستان میں مقننہ سے مراد پارلیمان ہے اور عدلیہ سے مراد ہمارا مکمل عدالتی نظام آتا ہے۔ یہاں روز عدالتوں کے فیصلوں کے بجائے ملک کی بڑی عدالت پہ علی اعلان لعنت ملامت کی جاتی ہے لیکن ایک طبقہ اس کو اپنا حق سمجھتا ہے لیکن وہی طبقہ دوسرے ستون یعنی مقننہ پہ لعنت پہ بلبلا اٹھتا ہے۔ کیا یہ کھلا تضاد نہیں؟ ان سب باتوں سے قطع نظر ادارے عمارتوں سے نہیں بنتے بلکہ اس میں موجود لوگ اپنے عمل سے ادارے بناتے اور بگاڑتے ہیں۔ دنیا کی جمہوریت کی تاریخ میں یونان کی قدیم شہری جمہوریتوں سے لے آج کی جدید جمہوریت تک کسی اسمبلی نے آج تک یہ قانون نہیں بنایا کہ جھوٹ بولنا جرم نہیں ہے۔ اور بددیانت اور خائن بندہ ملک کا لیڈر بن سکتا ہے۔ بد قسمتی سے انسانی تاریخ کا یہ بدترین اعزاز بھی مملکت خداد کے پارلیمان نے حاصل کیا ہے۔ اور لا الہ الا اللہ کی بنیاد پہ بنے اس ملک کی پارلیمان محمد الرسول اللہ صل اللہ علیہ و آلہ و سلم کی حرمت کی حفاظت کرنے میں بری طرح ناکام ہوا ہے۔ اگر ان سب چیزوں کو دیکھا جائے تو پارلیمان کے لیے ایک عام پاکستانی کے دل سے دعائیں تو بالکل نہیں نکلیں گی۔ جہاں عوام کی فلاح کے بل پڑے پڑے گل سڑ جاتے ہیں۔ اور اپنے مفاد کے بل ایک دن میں قومی اسمبلی سے صدر تک اور آفیشل گزٹ تک کی منزلیں طے کرجاتے ہیں۔

لیکن دوسری طرف لعنت کرنے والوں کا تجزیہ کیا جائے تو یہ بھی حقیقت ہے کہ وہ خود بھی اسی پارلیمان کا حصہ ہیں۔ اور اس سے مالی فائدہ لے رہے ہیں۔ اگر حکومت پارلیمان کو عزت دینے میں ناکام ہوئی ہے۔ تو لعنت ملامت کرنے والوں نے بھی پارلیمان کی عزت کو چار چاند نہیں لگائے۔ اگر حکومت اور اس کے ممبران برے ہیں تو اس میں پارلیمان کا کوئی قصور نہیں ہے۔ اپوزیشن کا کام صرف حکومت پہ تنقید کرنا ہی نہیں ہوتا۔ بلکہ ان کو بھی پارلیمان میں محنت کرکے حکومت کے مقابلے میں حکومت سے بہتر بل اور بلوں میں موجود نقائص کی نشاندہی کرکے اس کی بہتری کی لاجیکل تجاویز دینی چاہیے تھیں۔ یوں پارلیمان کے فلور کا بہتر استعمال کیا جاسکتا ہے۔ لیکن ایسا کچھ بھی نہیں کیا گیا۔ اکثر اپوزیشن کے اراکین کو حکومتی بلوں کی الف سے ب تک کا علم نہیں ہوتا اور خواب خرگوش میں سورہے ہوتے ہیں۔ اور اگر بل پاس ہونے کے بعد کہیں سے بھنک پڑ جائے کسی غلطی کی تو آسمان سر پہ اٹھا لیتے ہیں۔ یہ بھی کوئی احسن عمل نہیں ہے۔

لوگوں نے ان کو پارلیمان میں سونے کے لیے بالکل نہیں بھیجا۔ غرض اس ساری بحث کا یہ نتیجہ نکلتا ہے۔ کہ پاکستان کی پارلیمان ایک مقدس ادارہ ہے۔ اور ممبران کو اس کے تقدس کا خیال رکھنا چاہیے۔ جیسے مسلمان کی برائی سے دین اسلام بدنام ہوتا ہے۔ اس طرح ممبران کی حرکتوں سے پارلیمان بدنام ہوتا ہے۔ جو لوگ آج لعنت پہ تلملا رہے ہیں ان کو اپنے گریبان میں جھانکنا چاہیے کہ کیا انہوں نے اپنے عمل سے پارلیمان پہ لعنت نہیں کی؟ اور وہ لوگ جو سیدھا پارلیمان کا نام لے رہے انہیں بھی احتیاط برتنی چاہیے۔ اور ریاست پاکستان کے سب سے بڑے ادارے کے بجائے اس کی چھتری کے نیچے برے لوگوں پہ تنقید کریں۔ کیونکہ اسی پارلیمان کی وجہ سے ہی ان کی بھی عزت ہے

سمیع احمد کلیا

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سمیع احمد کلیا

سمیع احمد کلیا پولیٹیکل سائنس میں گورنمنٹ کالج یونیورسٹی، لاہور سے ماسٹرز، قائد اعظم لاء کالج، لاہور سے ایل ایل بی اور سابق لیکچرر پولیٹیکل سائنس۔ اب پنجاب پولیس میں خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔

sami-ahmad-kalya has 40 posts and counting.See all posts by sami-ahmad-kalya