کیا زینب کا مجرم قادیانی ہے؟


معصوم زینب کا کفن میلا ہوتے ہوتے پولیس نے اس کے قتل کے ملزم کو دھر لیا۔ اس وحشت ناک سانحہ سے دنیا بھر میں جو دل ہل گئے تھے ان کو ذرا تسلی ہوئی ہوگی کہ آخرکار گنہ کار پکڑ لیا گیا۔ اس مرحلہ پر دو باتیں ہیں۔ پہلی تو یہ کہ یہ بالکل نہ کہیے کہ اب زینب کے ساتھ انصاف ہوگا۔ زینب کے ساتھ انصاف ہو ہی نہیں سکتا۔ اگر آپ مجرم کو سرعام پھانسی دے دیں یا سنگسار ہی کر ڈالیں تب بھی کیا اس کرب اور اذیت کا مداوا ممکن ہے جس سے وہ ننھی سی جان گزری ہوگی؟ دوسری بات یہ کہ ایسا بھی مت کہیے کہ اب کسی اور زینب کے ساتھ ایسا نہیں ہوگا۔ ہم جس معاشرے میں رہ رہے ہیں اس میں اب سے پہلے ایسی ہی گھناؤنی وارداتیں ہوئی ہیں، لوگ پکڑے بھی گئے سزائیں بھی ہوئیں لیکن سلسلہ تھما نہیں۔

یہاں ایک اصول اور سمجھ لیجیے کہ کسی بھی معاشرے میں جرائم سخت سزاؤں کے التزام سے نہیں رکتے بلکہ یقینی طور پر سزا ملنے کے انتظام سے کم ہوتے ہیں۔ جب تک مجرم کے دل میں یہ خوف نہیں ہوگا کہ اگر میں نے جرم کیا تو مجھے یقینی طور پر سزا ملے گی تب تک بھلے ہی ریپ کے لئے پھانسی کی سزا کا قانون بنا دیجئے بات نہیں بننے والی۔ باتوں میں بات گم نہ ہو جائے اس لئے یہ بھی سن لیجیے کہ بطور شہری ہماری سماجی اور شعوری تربیت کا فقدان یہی دن دکھاتا ہے جو ہم نے دیکھا اور ممکن ہے آگے بھی دیکھتے رہیں۔ اس سلسلہ میں تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں جناب جمشید اقبال کا مضمون جنسی درندے کون پیدا کررہا ہے؟ دیکھا جا سکتا ہے۔

اب ذرا زینب کے ملزم عمران علی کی بات کر لیجیے۔ جب اس شخص کی گرفتاری کی خبر آئی تو میں نہ جانے کیوں یہ امید کر رہا تھا کہ وہ مسلمان نہیں ہوگا۔ مجھے یہ سن کر جھٹکا لگا کہ ملزم نہ صرف مسلمان ہے بلکہ نعت خواں بھی ہے۔ وہ یقینا محفلوں میں لہک لہک کر ختم نبوت کے اشعار پڑھا کرتا ہو۔ ان کی شان میں جھوم جھوم کر نعتیں سناتا ہوگا اور لوگ اس کے قصیدے سن سن کر کبھی نہ کبھی یہ ضرور کہتے ہوں گے کہ دیکھو ختم نبوت کی شمع کا کیسا پیارا پروانہ ہے۔ عمران کی یہ ساری خصوصیات قابل توجہ نہ لگتیں اگر زینب کے والد نے اپنی بچی کے قتل کے بعد بنی جانچ ٹیم کی قیادت مبینہ طور پر ایک احمدی عرف قادیانی کو سونپے جانے پر یہ نہ کہا ہوتا کہ حکومت نے جو جے آئی ٹی تشکیل دی ہے، اس کا سربراہ قادیانی ہے، ہم ایسی جے آئی ٹی کو مسترد کرتے ہیں، جے آئی ٹی کا سربراہ کوئی مسلمان بنایا جائے تو اسی پر اعتبار کریں گے۔

زینب کے والد سادہ لوح ہیں انہیں بیٹی کے ملزم کی تلاش سے زیادہ اس بات کی فکر لگ گئی کہ جے آئی ٹی کا سربراہ قادیانی ہے تو یقینی طور پر انصاف نہیں کرے گا۔ انہیں کیا پتہ تھا کہ وہ جے آئی ٹی کے سربراہ کا عقیدہ چھاننے میں گھلے جا رہے ہیں جبکہ ان کی بیٹی کا ملزم ختم نبوت کے قصیدے پڑھنے والا ایک شخص نکلے گا۔ اب پتہ چلا کہ جرم کا تعلق عقیدے سے نہیں ہوتا۔ جے آئی ٹی کا سربراہ قادیانی ہے اس سے فرق نہیں پڑتا بلکہ یہ سوال اہمیت رکھتا ہے کہ انصاف اور انسانیت کے لئے اس کا کمٹمنٹ کتنا مضبوط ہے۔ زینب کے والد کا دل دکھا ہوا ہے، ابھی ان سے سوال جواب کرنا اخلاقیات کے تقاضوں کے خلاف ہے لیکن دل بہت چاہ رہا ہے کہ ان سے پوچھتا کہ بھائی، آپ کی بیٹی کا ملزم واردات کو انجام دینے کے بعد نعت خوانی کی محفل میں گیا، وہاں جھوم کر نعت پڑھی، پھر آپ کی بیٹی کو انصاف دلانے کے لئے ہوئے احتجاج میں بڑھ بڑھ کر شامل رہا۔ آپ ہی بتائیے، جس وقت آپ کی بیٹی کی تکلیف کو سن کر یہاں بھارت کے ہندو بھائی بھی رنجیدہ تھے اس وقت آپ کو جے آئی ٹی کے سربراہ کا عقیدہ کھوجنا چاہیے تھا؟

زینب کے والد کے ساتھ میری تمام ہمدردیاں ہیں لیکن انہوں نے مجھے بہت مایوس کیا۔ ان کی بیٹی کے غم کو کسی نے مذہب اور عقیدے کے آئینہ میں نہیں دیکھا تھا۔ یہاں بھارت میں غیر مسلم اینکروں نے اپنے شوز میں زینب کے لئے انصاف کی آواز اٹھائی، بی بی سی اور یورپ کے دیگر خبر رساں اداروں نے اس ظلم کو اہمیت کے ساتھ جگہ دی، سوشل میڈیا پر مسلمانوں نے مسالک کی تفریق اور غیر مسلموں نے مذہب کی تفریق کیے بغیر زینب کو اپنی بچی کی طرح مانا اور اس کے ساتھ ہوئی زیادتی پر بلک پڑے ایسے میں زینب کے والد کو عقیدے کی بات کیسے سوجھ سکتی ہے؟ زینب کے والد نے کہا تھا کہ جے آئی ٹی کا سربراہ فلاں عقیدے کا ہوا تو ہمیں انصاف نہیں مل سکے گا۔ اب جبکہ زینب کا ملزم ہمارے سامنے ہے، اس کا مذہب اور نعت خوانی ہمارے سامنے ہے، اب بھی کیا ہم جرم اور انصاف کو مذہب اور عقیدت کی عینک سے دیکھنا چاہیں گے؟

مالک اشتر ، دہلی، ہندوستان

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

مالک اشتر ، دہلی، ہندوستان

مالک اشتر،آبائی تعلق نوگانواں سادات اترپردیش، جامعہ ملیہ اسلامیہ سے ترسیل عامہ اور صحافت میں ماسٹرس، اخبارات اور رسائل میں ایک دہائی سے زیادہ عرصے سے لکھنا، ریڈیو تہران، سحر ٹی وی، ایف ایم گیان وانی، ایف ایم جامعہ اور کئی روزناموں میں کام کرنے کا تجربہ، کئی برس سے بھارت کے سرکاری ٹی وی نیوز چینل دوردرشن نیوز میں نیوز ایڈیٹر، لکھنے کا شوق

malik-ashter has 117 posts and counting.See all posts by malik-ashter