پیسے دو نگران کابینہ میں وزارت لو: نئی سکیم


اسلام آباد سے ایک دلچسپ خبر پڑھنے کو ملی۔ ہونٹوں پر مسکراہٹ آئی۔ خبر کی آخری لائنوں نے البتہ کچھ تشویش اور کچھ ندامت میں مبتلا کیا ۔ ایک آدمی سے ایک کروڑ 23 لاکھ روپے لے لئے گئے۔ پیسے دینے والے نے چند لوگ تلاش کیے اور پھر اپنی مرضی سے پیسے دے دیے۔ اور یہ کہانی ہے ساری انسانی نفسیات کی۔ جب انسان کے پاس پیسا آتا ہے تو وہ چاہتا ہے کہ اسے شہرت ملے اور وہ لوگوں کو دکھا سکے کہ اس کے پاس پیسا آ گیا ہے۔ شہرت کی تمنا انسان سے عجب کام کرا دیتی ہے۔ انٹر نیٹ پر بے شمار ایسی وڈیوز مل جاتی ہیں جہاں انسان نے شہرت کے لئے کوئی نہ کوئی انوکھا کارنامہ کر دکھایا یا اس کے لئے کوشش ضرور کی۔

ایسی ہی ایک کوشش اسلام آباد کے ایک رہائشی وقاص ملک نے کی۔ ان کی خواہش کافی معصومانہ سی تھی۔ مگر اس کوشش نے انہیں بدنام ہی کر ڈالا۔ لیکن ہو سکتا ہے اس بدنامی نے انہیں کچھ نہ کچھ مشہور بھی کر ڈالا ہو۔ وہ چاہتے تھے کہ ان کا نام اخبار میں چھپے، سو وہ چھپ گیا۔ وہ چاہتے تھے کہ ان کا نام ٹی وی پر بھی آئے۔ صحافی ان کے آگے پیچھے پھریں۔ ہر بڑی محفل میں ان کا تذکرہ ضرور ہو۔ یہ کوئی بہت بڑی خواہش تو نہیں تھی۔ انہوں نے شہرت کے لئے ایک انوکھا تجربہ کرنے کی ٹھان لی۔ ان کے پاس پیسے بہت تھے اور ان کا مشاہدہ یہی تھا کہ پاکستان میں تو پیسے خرچ کر کے کچھ بھی کرنا ممکن ہے تو تو انہوں نے سوچا کہ کیوں نہ کچھ پیسے خرچ کر کے اپنی خواہشات ہی پور ی کر لی جائیں۔ ان کی خواہش صرف یہ تھی کہ وہ موجودہ حکومت کے بعد بننے والی نگران کابینہ میں وفاقی وزیر بن جائیں۔ اب خود ہی سوچیے کیا یہ خواہش معصومانہ نہیں؟ ان کے پاس کروڑوں روپے ہیں تو انہوں نے پیسے خرچ کرکے ایک عہدہ ہی حاصل کرنا چاہا۔ وہ بھی صرف تین ماہ کے لئے۔ چاہتے وہ یہی تھے کہ شہرت اور طاقت دونوں کو ایک ساتھ انجوائے کیا جائے اور پھر ہمیشہ کے لئے اپنے وزیٹنگ کارڈ پر سابق وفاقی وزیر لکھوانے کا حق بھی حاصل کر لیں۔

اور عہدہ حاصل کرنے کی تگ و دو انہیں چند لوگوں کے پاس لے گئی جنہوں نے جان لیا کہ بندے کے پاس پیسا تو بہت ہے لیکن بندہ بہت معصوم ہے اور وہ لوگ اس نسل سے تعلق رکھتے تھے جو برصغیر میں زمانہ قدیم سے چلی آ رہی ہے۔ جن میں امیر علی ٹھگ بھی ایک مشہور زمانہ کردار ہو گزرا ہے۔ تو ہمارے وقاص ملک ان لوگوں کے ہاتھوں میں کھیلنے لگے۔  ان لوگوں نے بھولے بھالے وقاص ملک کو شہرت و طاقت حاصل کرنے کے سہانے خواب دکھائے اور ان سے وعدہ کر لیا کہ وفاقی وزیر بنوانا تو ان کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔ بس اس کے لئے کچھ مناسب اقدامات کرنے کی ضرورت ہے جن میں سب سے اہم رقم خرچ کرنا ہے۔ وقاص ملک کے لئے پیسا خرچ کرنا تو کوئی مسئلہ ہی نہ تھا چنانچہ انہوں نے فوراً ایک کروڑ تیئس لاکھ روپے ان لوگوں کے حوالے کر دیے۔

وقاص ملک بھولے بھالے تو ہیں ہی لیکن تھوڑا جلد باز بھی ہیں۔ نجی ٹی وی چینلز دیکھ دیکھ کر انہیں یقین ہو گیا تھا کہ موجودہ حکومت بس اگلے ہفتے جا رہی ہے پھر نگران کابینہ حلف اٹھا رہی ہو گی۔ لیکن ان کی امیدوں پر اس وقت بہت سا پانی پھر گیا جب مقررہ تاریخیں تو گزر گئیں مگر حکومت وہیں کی وہیں رہی۔ بلکہ یہ امید بھی راسخ ہوتی گئی کہ اب حکومت اپنی مدت ضرور پوری کرے گی۔ اب وقاص ملک کو اپنے پیسوں کی فکر ہوئی۔ نادان ہمیشہ پیسے کھو بیٹھنے کے بعد ہی ان کی فکر کرتا ہے۔ ملک صاحب اپنے پیسے واپس مانگ بیٹھے اور جواب میں محض ہنسی ملی۔

وقاص ملک غصے کے بھی بہت تیز ہیں ظاہر ہے جب پیسا بھی ہو تو غصہ تو ناک کی نوک پر آنے میں دیر نہیں لگتی۔ موصوف نے عدالت میں کیس دائر کرنے کے ساتھ ساتھ سیکرٹریٹ تھانہ میں رپٹ درج کرا دی کہ کچھ لوگوں نےخود کو ایک حساس ادارے کا نمائندہ ظاہر کر کے انہیں بے وقوف بنایا۔ انہیں نگران وفاقی وزیر بنانے کا جھانسہ دیا اور ان سے ایک کروڑ تیئس لاکھ روپے لے لئے۔ چنانچہ پولیس نے چکلالہ سکیم تھری میں رہائشی ریٹائر کرنل زاہد اقبال، سفاری ولاز میں رہائش پذیر ایک خاتون صدف طفیل اور بحریہ ٹاون کی رہائشی مہ جبیں کے گھروں کے طواف کرنا شروع کر دیے۔

مجھے یہ بتاتے ہوئے بہت ندامت اور شرمندگی محسوس ہو رہی ہے کہ اخباری خبر کے مطابق ملزمان نے وقاص ملک کو مذکورہ رقوم کے چیک دے دیے ہیں۔ ندامت اس لئے ہوئی کہ ایک ادارے کا سابق اہلکار ریٹائرمنٹ کے بعد اپنی روزی روٹی چلانے کے لئے ایسے دھندے کرنے پر مجبور ہے۔ اور یہ خبر ان لوگوں کے لئے بھی ایک اطلاع ہے جو کہتے ہیں کہ ملک کا زیادہ تر بجٹ ایک ادارہ کھا جاتا ہے۔ اگر اس افواہ میں کچھ سچائی ہوتی تو سابق افسران اس طرح کے کام نہ کر رہے ہوتے۔ ویسے ہونا تو یہ چاہیے کہ رشوت کی آفر کرنے والے وقاص ملک کو جیل میں بند کرنا چاہیے جو عہدے کے لالچ میں روپوں کے تھیلے اٹھائے لوگوں کے ایمان خراب کرتا پھر رہا ہے۔ اور اس قبیل کے دیگر نودولتیوں کو بھی پتا چلے کہ پاکستان میں سب کچھ بکاؤ نہیں ہے۔ عہدوں کا وقار ابھی باقی ہے

روزنامہ جنگ لاہور 18 جنوری

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).