ایک بے حس لڑکی کی مختصر کہانی


تم سے بات کرو تو سوائے ہاں اور نہ کے تمہارے پاس جواب نہیں ہوتا۔ کسی کے آنے سے تمہیں فرق نہیں پڑتا کہیں جانے پر تم راضی نہیں ہو۔ تم سے کوئی بات کروں تو ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے کسی دیوار سے مخاطب ہوں۔ ڈھٹائی کی انتہا ہے ویسے۔ دفتر میں کیسے کام کرتی ہو؟ وہاں ٹھیک رہتی ہوگی۔ گھر ہی برا لگتا ہے اور گھر کے لوگ، باہر تو سب اچھا ہے ناں۔ کاش ہمارا بھی با ہر کے لوگوں میں شمار ہوجائے۔ شام کی چائے پر بیٹی کو خوب سنائی گئیں لیکن یہ سب بے اثر رہا۔

پتہ نہیں کیا ہوا ہے لگتا ہے بے حس ہوچکی ہے۔ میں تو اسے ڈھٹائی کہوں گی آجکل کی نوجوان نسل کو ویسے بھی ان کے دوست احباب یہ مشورے دیتے ہیں ناں کہ بڑوں کی بات کو سنجیدگی سے نہ لو ٹینشن ہوگی اور صحت خراب ہوگی۔ فون پر اس کیوالدہ نے اپنی بہن سے اس کے بدلتے روئیے پر اظہار خیال کیا۔

اب تم سے بندہ کیا بات کرے؟ کب سے کہہ رہی ہوں کہ ملتے ہیں پر تمہارے مزاج نہیں ملتے جب دماغ درست ہوجائے اور مصروفیت کم ہوجائے تو بتادینا ہم ملنے کا پلان کرلیں گے۔ اس کی دوست نے شکوہ کر کے بات تمام کی۔

آپ سے کچھ بھی کہو تو آپ مختصر بات کر کے بات ختم کردیتی ہیں تو پھر بچتا کیا ہے ڈسکس کرنے کو، بہن نے شکوہ کیا۔
کیا بات ہے؟ میں ہی بولے جارہا ہوں کیا مصروف ہو؟ یا شاید دھیان کہیں اور ہے، فو ن پر اس کے سب سے قریبی دوست نے پوچھا اور تھوڑی دیر بعد میٹنگ کا کہہ کر فون بند کرکے اس سے جان چھڑالی۔

ایسی کیا بات ہے جو آپ کو پچھلے چند ہفتوں سے پریشان کر رہی ہے مس گل؟ آپ کے مطابق آپ کی نیند ڈسٹرب ہے، غصہ جھنجھلاہٹ اب زیادہ ہے۔ آپ کام پر دھیان نہیں دے پارہی ہیں، دوست احباب فیملی آپ سے خائف ہے یہاں تک کہ آپ خود سے بھی خفا ہیں۔ اگر آپ شئیر کرنا چاہیں۔ ماہر نفسیا ت نے فائل پر لکھے کچھ پوائینٹس دہراتے ہوئے فائل بند کی اور اس کی طرف بغور دیکھتے ہوئے پوچھا۔

اس کی زبان کو نوچا گیا، اس کی کلائیاں تیز دھار آ لے سے کاٹی گئیں، اس کے اعضاء مخصوصہ کو بے دردی سے کاٹا گیا، اس کے جسم کو سگریٹوں سے داغا گیا۔ اس کے بال کھینچے گئے، اس کے جسم پر کوئی کپڑا نہ تھا، رپورٹ کے مطابق اس کے ساتھ دو بار زیادتی کی تصدیق ہوئی، چائلڈ پورنو گرافی کے لئے ان ویڈیوز کو بنا کر بین الاقوامی سطح پر کروڑوں کا کاروبار کیا جاتا ہے۔ یہ گھناؤنا کام کرنے والا اس بچی کا پڑوسی تھا۔

اسے کمرے میں کے جایا گیا کچھ ٹافیاں اور چاکلیٹس دے کر اسے گود میں بٹھایا گیا پھر اس کے جسم پر ہاتھ پھیرا گیا، اس کے کپڑے اتارے گئے اور پھر خود کو بھی اس بوجھ سے آزاد کردیا گیا، پلنگ پر دھکا دے کر پھینکا گیا، اس کی معصومیت چھینی گئی اس کے گال، ہونٹ بری طرح چھل چکے تھے، ہوس کے پچاری نے اپنی پیاس بجھائی اور پھر اس بچی کو سمجھا بجھا کر کمرے سے باہر نکال دیا وہ ان کا قریبی رشتے دار اور ایک مولوی تھا۔

کیا تکالیف اور درد سے جڑی ان کہانیوں کو بیان کرتے ہوئے من و عن منظر کشی کرنے سے کہانی کا وزن بڑھ جاتا ہے؟ کیا ایسے کالم اور بلاگ کو تمغوں سے سجانے کے لئے ان الفاظ کا استعمال ضروری ہے۔ بخدا مجھے کچھ نہیں ہوا بس یہ سب پڑھ پڑھ کر دل پر منوں بوجھ بڑھتا جارہا ہے جب سونے لیٹوں یہ منظر آنکھوں کے سامنے آتا ہے۔ کیا ریپ کو اپنی کہانی میں اسی طرح بیان کرنے والے لکھاری عینی شاہد قرار دیے جاسکتے ہیں کیا ان کی گواہی سے کسی کم سن بچے یا بچی کا بچپن لوٹ کر آسکتا ہے؟

مجھ پر الزام ہے کہ میری سرد مہری اور تلخ لہجہ میرے اپنوں کو تکلیف دے رہا ہے۔ کبھی سنا تھا کہ لہجے کی کڑواہٹ بڑی تکلیف دیتی ہے پر اب مجھے محسوس ہونے لگا ہے کہ الفاظ اذیت دیتے ہیں بہت دکھ دیتے ہیں۔ کون بتائے گا انھیں کہ تم جو لکھ رہے ہو وہ ایسا ہے جیسے تم یہ سب دیکھ رہے تھے تو میں پوچھتی ہوں کہ تم نے روکا کیوں نہیں؟ اور اگر کسی کا بتایا ہوا لکھ رہے ہو تو اتنا تو سوچو کہ تمہارے قلم سے نکلی بات کیا اثر رکھتی ہے یہ اصلاح نہیں کر رہی یہ زندگیاں تباہ کر رہی ہیں یہ کسی کو دیمک کی طرح چاٹ رہی ہے۔ زنا کرنے والا کوئی بھی تھا اس کے فعل کو بیان کرتے ہوئے تم بھی تو اس کے مرتکب ہورہے ہو۔

مجھے کچھ نہیں ہوا، بس مجھے پڑھنے کی عادت ہے اور آجکل یہی درد، اذیتیں، ظلم اور بربریت کو میں روز پڑھ رہی ہوں اور ایسا محسوس کرتی ہوں کہ میں وہاں موجود تھی۔ یہی میری بے بسی ہے یہی میرا درد ہے ورنہ میں ٹھیک ہوں اور سب کام کر رہی ہوں۔

سدرہ ڈار

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سدرہ ڈار

سدرہ ڈارنجی نیوز چینل میں بطور رپورٹر کام کر رہی ہیں، بلاگر اور کالم نگار ہیں ۔ ماحولیات، سماجی اور خواتین کے مسائل انکی رپورٹنگ کے اہم موضوعات ہیں۔ سیاسیات کی طالبہ ہیں جبکہ صحافت کے شعبے سے 2010 سے وابستہ ہیں۔ انھیں ٹوئیٹڑ پر فولو کریں @SidrahDar

sidra-dar has 82 posts and counting.See all posts by sidra-dar