صرف ایک مچھر۔۔۔۔ صرف ایک شاہد مسعود


امکانات کی دنیا بڑی وسیع ہے۔ بہت کچھ ہو سکتا ہے۔۔۔ سنسنی خیزی، توہمات کی ماری اس قوم کو تو ٹرک کی بتی کے پیچھے لگایا جا سکتا ہے پھر ڈاکٹر قیامت مسعود معذرت شاہد مسعود کوئی قیامت بھی ڈھا دیں تو کیا فرق پڑتا ہے ۔۔۔ ہم قیامتیں سہہ سہہ کر اس کے بھی عادی ہو گئے ہیں ۔ مجھے لگتا ہے کہ جس روز خدا حشر اٹھائے گا تو ہم پاکستانی ہی شاید یہ اٹھ کر کہیں گے کہ اچھا بس یہی تھا وہ تماشا، جس کا بڑا شور سنتے تھے ۔۔۔۔ یہ تو روز تیری دنیا میں ہم دیکھا کرتے تھے۔۔۔

قیامت اور کیا ہوتی ہے ۔۔۔؟ ایک ننھی سی بچی ادھ کھائی ادھ موئی کسی درندے نے کوڑے کے ڈھیر پہ چھوڑ دی ۔۔۔ اب باقی ماندہ درندے اس کی بوٹیاں نوچ رہے ہیں ۔۔۔۔ یہ ننھی زینب کتنے شکموں کی خوراک بنے گی؟

اس پہ سیاست دان بھی اپنی دوکانوں پہ اپنے چھرے تیز کیے بیٹھے ہیی اور ادارے اور میڈیا بھی۔ معاف کیجیے گا زینب کے اپنے خاندان کا کردار بھی کوئی قابل رشک نہیں رہا ۔۔۔۔ اتنے کم سن بچے کو اکیلا چھوڑنا ہماری سماجی لاپرواہی کا منہ بولتا شاہکار ہے پھر اس کے باپ کا احمدی افسر پہ انگلی اٹھا دینا بھی اس قیامت کی گھڑی میں بڑا عجیب لگا ۔۔۔ایک مظلوم باپ کو تو یہ سمجھ آجانی چاہیے کہ ظلم کیا ہوتا ہے؟ ایک غیر مسلم کمیونٹی کو کیا ہم اپنے ملک سے ” پاک ” کرکے  ہی دم لیی گے

سوال تو یہ تھا کہ ننھی زینب کی لاش کو ان درندوں سے کیسے بچایا جائے؟ ابھی یہ رونا جاری تھا کہ ڈاکٹر شاہد مسعود حسب معمول قیامت زنبیل میں ڈالے، اپنا حصہ بقدر جثہ مانگنے آ گئے۔ موصوف یوں بھی قیامت ہم رکاب اور مارشل لا نوک زبان پہ رکھتے ہیں لیکن سوال تو بہت سارے پیدا ہو جاتے ہیں۔

ڈاکٹر شاہد مسعود کے پاس اتنی تفصیلی معلومات کیسے آئیں؟ یوں لگتا ہے کہ وہ اس مکروہ گینگ کو بہت قریب سے جانتے تھے۔۔ اگر جانتے تھے تو کیا زینب کے قتل کے ہی منتظر تھے؟ وہ اب تک خاموش کیوں رہے؟

ملزم عمران ۔۔۔۔ اور وہ اتنی بڑی خطرناک تنظیم کیا اتنی احمق تھی کہ ساری ٹرانزیکشنز براہ راست عمران کے نام ہوتی رہیں تاکہ موصوف جائیں اور آرام سے ثبوت جیب میں ڈال کر لے آئیں اور عمران تو واقعی چغد تھا کہ لاکھوں ڈالرز اور یورو ہوتے ہوئے یہاں آرام فرماتا رہا داڑھی منڈھا کر اور منہ چڑھاتا رہا کہ آؤ اور مجھے پکڑ لو ۔۔۔

ہمارے خاندان میں ایک بڑا مل اونر فیملی کا سربراہ جن سے ہماری قریبی آشنائی ہے ان صاحب نے حال ہی میں ایک مل لگائی ہے جس میں کچھ مشینری جو ہزاروں یورو میں خریدی گئی۔۔۔ وہ معاملہ کچھ طوالت پکڑ گیا۔ کچھ پچیدگی آگئی تو صاحب خانہ بیمار پڑگئے ۔۔بستر پکڑ لیا ۔۔۔اور یہ موصوف عمران سکنہ قصور کروڑوں یورو کے ساتھ دندناتے پھرے ۔۔۔

ہماری صحافت بھی اب سٹار پلس کا ڈرامہ ہو گئی ہے جہاں سو دو سو ہزار کروڑ کی باتیں کرتی کمونیکا یک دم ماسیوں والی حرکات کرنے لگتی ہے ۔۔ ہمیں ہزار کروڑ سننے کی عادت جو ہو گئی ہے مگر ہم غریب عوام اس کی طاقت سے ناآشنا فورا کسی بھی احمقانہ سٹوری پہ یقین کر لیتے ہیں ۔۔۔

سوال تو یہ بھی ہے کہ ہزاروں لاکھوں یورو کے مالک عمران نے پیسے خرچ کر کے خود کو بچانے کی کوشش کیوں نہ کی؟ وہ ملک جہاں صحافی پولیس سب کچھ خریدا جا سکتا ہے؟

سوال تو بہت سے ہیں۔۔۔ سوال تو یہ بھی ہے کہ ڈاکٹر شاہد مسعود کو کیوں نہ شامل تحقیق کیا جائے؟ ان سے کیوں نہ پوچھا جائے کہ وہ کب سے اور کیسے اتنی اندر کی معلومات جانتے تھے اور خاموش کیوں تھے؟ ایک ماہ میں ہو نے والی تحقیقات فورا کیسے انہوں نے مکمل کر لیں؟

اور اگر وہ اپنے الزام کو ثابت کرنے میں ناکام رہتے ہیں تو کیا عدالت سے یہ توقع رکھی جائے کہ وہ اس قسم کی زرد، منہ زور ریٹنگ والی صحافت کے گلے میں کوئی پٹہ ڈال سکے؟

کیا سزا یا جرمانہ یہاں انصاف کا تقاضا نہیں؟ اور کیا پیمرا اپنے گریبان میں جھانکے گا؟ کیا کوئی ڈاکٹر شاہد مسعود سے کہے گا بس بھی کیجئے صاحب ۔۔۔ قیامت کے تجسس کو برقرار رہنے دیجیے۔

کیا ان گدھوں سے کوئی کہے گا کہ زینب کی ننھی لاش کو نوچنا بند کر دو؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).