کیا حقیقت پر ہمارا اجارہ ہے؟


بات کا آغاز چند مثالوں سے کرتے ہیں۔ ایک بھائی نے دوسرے کو بازار سے سیب لانے کو کہا۔ بھائی نے بھائی سے سوال کیا “کیسا سیب لانا ہے سرخ یا سبز، جوس والا یا کھانے والا، گولڈن نسل کا یا سادہ دیسی ساخت کا؟”۔ دوسری مثال پر آتے ہیں، بھائی آج تفریح کرنے کا دل کر ر ہا ہے کیوں نہ کوئی رومانٹک فلم دیکھی جائے جواب ملا رومانٹک؟ تفریح کرنی ہے تو سسپنس یا ڈراﺅنی فلمیں اعلیٰ ہیں۔

اب ان دونوں مثالوں سے تمہید باندھنے کا مقصد یہ بیان کرنا تھا کہ ایک ہی والدین کی اولاد، ایک ہی طرح کے ماحول میں پرورش پانے والوں کی سوچ بھی ایک جیسی نہیں ہوتی، اسی طرح ہمارا معاشرہ کئی کروڑ افراد پر مشتمل مختلف سوچوں کے حامل افراد کا مجموعہ ہے۔ یہ افراد اپنی انفرادی سوچ (Subjectivity) کو اپنے تربیت کرنے والے اداروں سے مرتب کرتے ہیں جس میں ان افراد کے رنگ، نسل، زبان، قومیت، مذہبی شناخت جیسے عوامل بھی کارفرما ہوتے ہیں۔ایک ہی معاشرے میں کوئی حادثہ رونما ہو تو اس پر ردعمل مختلف طبقات کی طرف سے مختلف نوعیت کا آتا ہے۔ حالیہ واقعات کو مثال بنا کر سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں جو مختلف سوچوں کی عکاسی کرتے ہیں۔

نقیب محسود کا قتل محسود قبیلے سے قومیتی دشمنی کا نتیجہ ہے۔۔۔۔ یہ غلط پولیس مقابلہ تھا۔۔۔۔ نقیب دہشت گرد تھا۔۔۔ نقیب دہشت گرد نہیں تھا۔۔۔ نقیب کیس کو شہرت اس لئے زیادہ ملی کہ نقیب ماڈل ہیرو جیسا نظر آتا تھا۔۔۔ نقیب کیس کوئی پہلا جعلی پولیس مقابلہ تو نہیں، اس کیس کو اٹھانا ہے تو پچھلے تمام کیسوں کو بھی سامنے لاﺅ۔۔۔۔

 صرف زینب ہی تو نہیں تھی۔۔۔۔ گیارہ اور بچیاں بھی تھیں۔ عمران اصل مجرم نہیں، اس کے پیچھے مافیا ہے۔۔۔۔ زینب کے والدین نے اس کو اکیلا کیوں چھوڑا؟ زینب کیس پر سیاست نہ کریں۔۔۔ مظلوم باپ کے سامنے تالیاں کیوں پیٹی گئیں؟

 فحاشی کا ذمہ دار مولوی ہے، مدرسوں میں بچوں کا ریپ ہوتا ہے۔۔۔۔ فحاشی کا ذمہ دار ساحر لودھی ہے جو شو میں کم سن بچیوں کا ڈانس کراتا ہے وغیرہ وغیرہ۔

لاتعداد معاشرتی واقعات، لاتعداد آرا، لاتعداد سوچیں، لاتعداد حقیقتیں۔

انفرادی سوچ (Subjectivity) کا مرکز ہماری زبان ہماری قومیت، ہماری مذہبی شناخت، ہمارے ارد گرد کے ماحول کی ساخت، ہمارے تربیت کرنے والے اداروں کا کردار اور اس میں بھی خصوصاَ وہ طاقت ور ساخت کے ادارے یا اشخاص چاہے وہ مذہبی ہوں، سیاسی ہوں یا معاشی، فیصلہ کرتے ہیں کہ کیا درست مانا جائے گا اور کیا درست نہیں مانا جائے گا۔ درست یہ مانا جائے گا کہ ہم سب ایک امت مسلمہ کے فرد ہیں۔ سب مسلمان بھائی بھائی ہیں، شریعت کا نفاذ ہی تمام مسائل کا حل ہو گا۔ مغربیت سے جان چھڑانا ہو گی۔ مغربی معاشرے مشرقی معاشروں کو اپنے زیر اثر لانے کے لیے جو حربے استعمال کرتے ہیں ان کا ڈٹ کر مقابلہ کرنا ہو گا ۔ شیلا کی جوانی یا منی کی بدنامی جیسے فحش گانوں پر پابندی لگانی ہو گی کہ اس سے شہوت پروان چڑہتی ہے۔ آرٹس، فنون لطیفہ اور ثقافتی اظہار کے تمام طریقوں کو فحاشی سمجھنا ہو گا۔ کوئی اظہار رائے کی آزادی کی بات کرے تو اس کو دیسی لبرل کا طعنہ دینا ہو گا۔ دوسری طرف دیسی لبرل بھی تیار بیٹھا ہو گا کہ معاشرے میں فساد کی جڑ مولوی ہے یہ بچوں کا جسمانی استحصال کرتے ہیں، مولوی نے دین کو بدنام کر دیا ہے۔

دوسری مثال، اگر میں حقوق نسواں کی علمبردار ہوں تو مجھے کافی حد تک مرد اپنا دشمن لگے گا اور میں ہر ممکن کوشش کروں گی کہ کیسے اس کی مردانہ وار ہراسیت کا زنانہ وار مقابلہ کروں، اور پھر سیاستدان تو سارے ہی بکے ہوئے ہیں، اس سب کے پیچھے امریکہ ہے، فوج بری ہے، عدلیہ کرپٹ ہے، پاکستان تو اس قابل ہی نہیں کہ یہاں رہا جائے، بس ہر وہ حربہ استعمال کریں کہ یورپ کا ویزہ لگ جائے ۔

خیر مجھے کوئی اعتراض نہیں کہ آپ اپنی (Subjectivity) کے ساتھ زندگی جیتے چلے جائیں اور کہیں کہ دیکھیں جی میری ذاتی رائے ہے میری زندگی ہے آپ کون ہوتے ہیں سوال اٹھانے والے۔ Subjectivity)) بری نہیں مگر نقصان دہ ہو سکتی ہے جب آپ اس کی حدود کا تعین نہ کرتے ہوئے اس کو دوسروں پر لاگو کرنے کی کوشش کریں گے ۔ اپنی Subjectivity کو ہی کامل حقیقت تسلیم کر لیں گے اور پھر اسی حقیقت کا پرچار بھی کریں گے ۔

حل کیا ہو سکتا ہے سیکھنے کے تین طریقے ہیں:

۱۔ پہچان کہ ہم نے اب تک سیکھا کیا ہے؟ جو ہماری حقیقت بناتا ہے

۲۔ جو سیکھا ہے کیا کچھ لمحات تک، خود سے اس سب کو الگ کر کے نئے زاویے سے سوچا جا سکتا ہے۔

۳۔نیا علم کیا ہے؟ اس کو بنانے اور سیکھنے کی ضرورت ہے کیوں؟ اور کیا جب تک ہم اپنے فرسودہ علم پر ڈٹے ہوئے تھے ہمارے اردگرد کی دنیا ہزاروں طرح کی نئی سوچیں تو پیدا نہیں کر چکی تھی۔

اپنی حقیقتوں کا احتساب کرتے ہیں۔ میں اگر مذہب پہ مکمل یقین رکھنے والا شخص ہوں تو کیا میں یہ بھول تو نہیں گیا کہ میں اپنے مذہبی اعتقادات کو، مذہبی وابستگی کو، مذہبی محبت کو اوروں کے لئے کافر قرار دینے کا آلہ تو نہیں بنا رہا؟ میرا مذہب اگر مجھے تحقیق کرنے کو کہتا ہے تو کیا میں کسی کی اندھی تقلید تو نہیں کر رہا۔ خود اگر اللہ تعالی کے 99نام ہیں اور دراصل یہ 99 نام نہیں، 99 صفا ت ہیں۔ تو اس سے زیادہ خوبصورت Variation مجھے کہاں مل سکے گی، مگر اب اگر میری Subjectivity  نے مجھے اللہ کے قہار اور جبار ہونے پہ ہی جکڑا ہوا ہے تو میں رحمان اور رحیم کی صفت کو سمجھوں گا ہی کیسے؟

حقوق نسواں کی علمبرداری اگر مجھے میرے ہی معاشرے میں رہتے ہوئے میرے ہی ساتھی مرد سے صرف اس Subjectivity پہ دور کر دے کہ یہ تو کرتے ہی عورت کا استحصال ہیں تو فاصلہ بڑھتا رہے گا۔

آج کے معاشرے میں Subjectivity کو اجتماعیت میں بدلنے کی ضرورت ہے۔ اب سوال یہ اٹھے گا کہ یہ ممکن ہی نہیں کہ سب ایک طرح کا سوچیں ایک جیسا عمل کریں اور پھر ایک مثالی معاشرہ وجود میں آ جائے۔

نوم چومسکی ایک مشہور سوشل سائنسدان اس بارے میں ایک کائناتی یگانگت کا تصور پیش کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اگر اخلاقیات کے کچھ درجوں پر باہمی اتفاق کر لیا جائے تو اجتماعیت کا حصول ممکن ہے۔ مثلا ہر وہ عمل جو کسی دوسرے کی تکلیف کا باعث بن سکتا ہو اس کو معا شرے میں حد درجہ کم کرنے کی کوشش کی جائے۔ متاثرہ شخص اور ظلم کرنے والا کبھی ایکCode sharing  پر نہیں ہو سکتے، اس فرق کو سمجھا جائے۔ ہمارے ہاں عالمی انسانی حقوق کے نام پر جو قوانین مرتب کیے گئے ہیں ان کو اپنے اپنے معاشروں میں رائج کرنے کی حد درجہ کوشش کی جائے۔ راواداری اور برداشت کے رویوں کو رائج کیا جائے۔

اس سب کے لئے ایک طریقہ کار، میں سمجھتی ہوں، بہت ضروری ہے۔ پہلے ہم تربیت کرنے والے وہ ادارے یا اشخاص جو معاشروں میں صیح غلط کا تعین کرتے ہیں ان کی اندھا دھند تقلید کی بجائے  Delearn یاDecode  کے طریقے کو اپنا لیں دوسرا کچھ بھی سیکھنے سے پہلے اپنی تشنگی یا تعلیمی اور تربیتی کمی کو تسلیم کیا جائے۔ محض واقعات کا انکاری بنے رہنا نقصان دہ ثابت ہوتا ہے۔ واقعات پر آرا دینے سے پہلے میں یہ تسلیم کروں کہ میں کسی بھی واقعہ کو دراصل کس زاویے سے دیکھ رہا ہوں؟ میری ذاتی حقیقت واقعے کی حقیقت نہیں ہو سکتی۔ مثلاَ مردانگی پر چوٹ کرنے سے پہلے کیا میں نے اپنے حقوق نسواں کی Subjectivity کو ایک طرف رکھا؟ کیا مولوی یا مغرب یہ چوٹ کرتے ہوئے میں نے اپنے مخصوص وابستگی سے ہٹ کر سوچا؟ کیا بلوچوں پٹھانوں پر تشدد ہوتے ہوئے دیکھ کر میں نے اپنی پنجابیت کو بالائے طاق رکھا؟ کیا ظلم کو ظلم سمجھا چاہے وہ میرے سے وابستہ لوگ ہی کر رہے تھے۔

اگر ہم یہ مان لیں کہ حقیقت دراصل کچھ بھی نہیں، محض ہمیں سکھائے گئے مخصوص طاقت ور اداروں یا اشخاص کی طرف سے بنا دیے گئے اعتقادات ہیں اور ان کی حقیقت اعتقادی تقلید کرتے ہوئے ذاتی آرا سے زیادہ کچھ بھی نہیں تو معاشرتی رویے بہتر ہو جائیں گے۔ اجتماعیت کی فضا قائم کرنے میں ہی معاشرے کی فلاح ہے۔

اجتماعیت سب کا ایک جیسا سوچنا نہیں، اجتماعیت اس معاشرتی Variation (تنوع – رنگا رنگی) کو اس کی مکمل خوبصورتی کے ساتھ قبول کرنے کا نام ہے ۔ آئیڈیل معاشرہ وہی ہوتا ہے جہاں تمام ترVariation  کے باوجود افراد آپس میں باہمی برداشت اور احترام کے رشتوں میں منسلک رہیں.


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).