قاری اور قصائی کا غصہ!


برصغیر میں طبقاتی نظام و نصاب تعلیم صدیوں جاری ہے۔ قیام پاکستان کے بعد بھی حکمراں قوم کو یکساں نظام و نصاب تعلیم نہ دے سکے۔ اسی وجہ سے والدین، بہ مطابق استطاعت بچوں کو نجی اور گورنمنٹ اسکول تعلیم کے حصول کے لیے بھیجتے ہیں۔ گاؤں اور دیہات میں گورنمنٹ و نجی اسکول اور مدارس تعلیم کے حصول کا ذریعہ ہیں۔ 80 اور 90 کی دھائی میں وطن عزیز میں افغان جنگ کی وجہ سے حکومتی و عسکری حکمت عملی کی تبدیلی کا معاشرے پر گہرا اثر ہوا۔ لاکھوں کی تعداد میں افغان مہاجرین کی آمد سے بڑے پیمانے پر ڈیمو گرافک تبدیلی آئی اور افغان مہاجرین بلا روک ٹوک ملک کے طول و عرض میں آباد ہوگئے۔ کراچی میں بھی افغان مہاجرین کی بستیاں قائم ہوئیں اور بے شمار کچی آبادیاں، شہر کی آبادی کا مستقل حصہ بنیں۔ کراچی جیسے شہر میں مساجد مخصوص مقامات پر قائم تھیں اور یہی صورتحال دینی مدارس کے حوالے سے تھی۔ مخصوص دینی حلقوں کی طرف سے ا فغان جنگ کو افغان جہاد کا نام دیا گیا اور اس جہاد کے فروغ کے لیے نو آباد افغان بستیوں اور کچی آبادیوں کے ساتھ متوستط رہائشی آبادیوں میں بھی گلی گلی مساجد اور مدارس قائم ہوئے اور یہ سلسلہ ابھی بھی جاری ہے۔ ان میں سے چند مدارس میں کھل عام عسکری تربیت بھی دی گئی، کلاشکوف و ہیروئن کلچر بھی اسی زمانے میں بام عروج پر پہنچا۔

متوستط طبقے کے والدین کا رجحان بھی تبدیل ہوا اور بچوں کو مدارس میں حفظ قرآن اور دینی تعلیم کے لیے بھیجے جانے میں اضافہ ہوا۔ لیکن جلد ہی شہری والدین کو مدارس کے پر تشدد طریقہ تدریس کا ادراک ہوا اور والدین محتاط ہوگئے۔ جید علمائے کرام بھی جلد ہی صورتحال کو بھانپ گئے اور اقراء اسکول سسٹم کی بنیاد پڑی، جہاں حفظ قرآن اور بنیادی دینی تعلیم کے ساتھ میٹرک تک تعلیم دی جاتی ہے۔ متوسط طبقے کے والدین نے اس تبدیلی کو ہوا کے خوشگوار جھونکے کے طور پر قبول کیا اور جوق در جوق بچوں کو اقراء اسکول سسٹم میں داخلہ دلانے کے لیے طویل قطاروں میں لگ کر داخلہ فارم حاصل کرنے لگے۔ اقراء اسکول سسٹم کی کامیا بی کے باوجود بھی گلی گلی مدارس کھلتے رہے اور اب بھی کچی آبادیوں میں بچے، ان ہی مدارس میں حفظ قرآن اور دینی تعلیم کے لیے حصول کے لیے بھیجے جاتے ہیں۔ گزشتہ دنوں بھی عیدو گوٹھ میں واقع، ایسے ہی ایک دینی مدرسے میں قاری کے تشدد سے دس سالہ بچے کی ہلاکت ہوئی ہے۔ اور اس خبر کا افسوس ناک پہلو یہ بھی ہے کہ والدین نے قاری کے خلاف پولیس میں شکایت درج کروانے سے انکار کردیا ہے۔

مولانا محمد یوسف لدھیانوی شہید جنگ اخبار کے اقراء نامی صفحے پر ’آپ کے مسائل اور ان کا حل، کے عنوان سے سائلین کے دینی و دنیاوی مسائل کا حل بتایا کرتے تھے۔ مولانامحمد یوسف لدھیانوی شہید اقراء اسکول سسٹم کے سرپرست اعلی بھی تھے۔ مولانا شہید کی حیات مبارکہ کے آخری پانچ سال ان کی نجی صحبت میں گزارنے کا موقع ملا ہے، گو کہ کور باطن و ظاہر ہونے کی وجہ سے کچھ سیکھنے سے قاصر رہا۔ مولانا شہید کی خدمت میں بزرگان دین، علمائے کرام، سیاست دان اور تمام شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد کے علاوہ، عام افراد بھی ا پنے مسائل کے حل اور صلاح کے لیے حاضر خدمت ہوتے تھے۔ مولانا شہید کی بے شمار تقاریر سنیں، نجی محافل میں ہم کلام ہونے کا شرف حاصل رہا لیکن کبھی بھی کسی طبقے، قوم یا دینی و مسلکی مخالف کے خلاف کوئی بات نہیں سنی۔ ہمیشہ فرمایا کرتے تھے کہ میں وہ بات کروں گا جو کہ تمہارے نفع کی ہوگی۔ مولانا شہید نے حفظ قرآن کے حوالے سے بھی ایک واقعہ سنایا تھا کہ ایک جید عالم دین، ڈاکٹر عبدالحئی رحمتہ اللہ علیہ (جو کہ مولانا اشرف علی تھانوی رحمتہ اللہ علیہ کے خلفاء میں سے تھے) حاضر خدمت ہوئے اور عرض کیا کہ ڈاکٹر صاحب میرے بیٹے کے لیے دعا کیجیے کہ حاٖفظ قرآن بن جائے، بہت کوشش ہورہی ہے لیکن حفظ مکمل نہیں ہو پارہا۔ ڈاکٹر عبد الحئی رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا، مولانا صاحب یہ بتائیے، کیا حفظ قرآن دین میں فرض ہے؟

اسی طرح بہت سے والدین مولانا شہید کی خدمت میں، مسجد سے متصل مدرسے کے قاری اور معلم حضرات کی شکایت لے کر پہنچتے تھے۔ ایسا ہی ایک واقعہ عصر و مغرب کے درمیان پیش آیا جب ایک باپ، اپنے بچے کو لے کر حاضر ہوا اور تشد د کے نشانات دکھائے تو مولانا شہید دکھ میں مبتلا دکھائی دیے اور فرمایا، قاری اور قصائی کا غصہ کا اس وقت تک ٹھنڈا نہیں ہوتا جب تک دم نہ نکلے۔ اس تحریر کے ذریعے والدین سے یہی گزارش کی جاسکتی ہے کہ ڈاکٹر عبدالحئی رحمتہ اللہ علیہ جیسے عارف باللہ اور مولانا محمد یوسف لدھیانوی جیسے جید عالم دین کی باتیں ذہن میں رکھیں۔ بچوں پر جبر نہ کریں، جبر و تشدد سے نہ شخصیت کی تعمیر ممکن ہے اور نہ ذہنی استعداد میں اضافہ ممکن۔ بچوں کو دینی و دنیاوی تعلیم، بچوں کے طبعی رجحان اور ذہنی استعداد کے مطابق دلوائیں تاکہ بچے پرتشدد دینی و دنیاوی تعلیم سے محفوظ رہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).