انصاف اٹھ جائے تو بستیاں ویران ہوجاتی ہیں


آج پاکستان کے معاشرے کی زبوں حالی ہمارے سامنے ہے اور اس کی بربادی و تباہی اور زوال کے قصے ہر خاص و عام کی زبان پر ہیں۔ والدین پریشان ہیں، عورتیں اور بچیاں خوفزدہ ہیں۔ ہر طرف انسانی شکل میں درندے ہی درندے دکھائی دیتے ہے، جنگل کے قانون کا راج ہے جہاں فتح طاقتور کی ہی ہوتی ہے۔ علمائے دین تمام اخلاقی قدروں سے بے پرواہ ہوچکے ہیں پیروں اور گدی نشینوں نے مذہب کی آڑ میں اپنے مفادات کے کاروبار شروع کر رکھے ہیں، شریعت کے نفاذ کی دھمکیوں کی آڑ میں حکومت کو بلیک میل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ سیاستدان اور دیگر اشرافیہ اور حکمران طبقہ اخلاقی دیوالیہ پن کا شکار ہوچکا ہے نیوز چینلز پر ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالا جاتا ہے اور فتنہ و فساد کی ترغیب دی جاتی ہے۔ تشدد، تعصب، عصبیت ہمارا معاشرتی طرہ امتیاز بن چکا ہے۔ مسلم معاشرہ میں گدھوںسمیت حرام جانوروں کے گوشت کی فروخت کا کاروبار عروج پر ہے۔

انصاف ایک ایسا خواب ہے جس کا حصول پاکستان میں اب ممکن نہیں رہا اور اس کا تصور بھی اب محال ہو چکا ہے۔ داناﺅں نے اپنی کتب میں اس بات کا بار بار ذکر کیا ہوا ہے کہ انصاف کسی بھی قوم کی زندگی کو توانا رکھتا ہے اگر انصاف ناپید ہوجائے تو پھر وہ قوم بھی قوم کہلانے کی مستحق نہیں رہتی اور بہت جلد اپنے منطقی انجام کو پہنچ جاتی ہے۔ ہمارے معاشرے سے انصاف کا اٹھ جانا خطرے کی گھنٹی بجنے کے مترادف ہے اور اس طرف فوری توجہ دینا ملک بچانے کے برابرہے جنگی سازو سامان کی بہتات اور نظریات سے ملک کی حفاظت نہیں ہوسکتی۔ تاریخ اور علم کچھ اور ہی بتاتا اور سکھاتا ہے۔ دانشور اور فلسفیوں نے ریاست کی بقاءکے لئے انصاف کا ناگزیر قرار دیا ہوا ہے۔ انصاف اٹھ جائے تو بستیاں ویران ہو جاتی ہیں۔

کنفیوشس ایک چینی فلسفی ہے اس کے فلسفہ نے چین کے لوگوں اور معاشرے پر انتہائی گہرے اثرات مرتب کئے ہیں۔

کسی نے ایک بار کنفیوشس سے پوچھا کہ اگر ایک قوم کے پاس تین چیزیں ہوں۔ انصاف، معیشت اور دفاع…. اور بوجہ کسی مجبوری کسی ایک چیز کو ترک کرنا مقصود ہو تو کس چیز کو ترک کیا جائے؟ کنفیوشس نے جواب دیا کہ دفاع کو ترک کرو، سوال کرنے والے نے پھر پوچھا کہ اگر باقی ماندہ دو چیزوں۔ انصاف اور معیشت میں سے ایک ترک کرنا لازمی ہو تو کیا کیا جائے؟ کنفیوشس نے جواب دیا معیشت کو چھوڑ دو۔ اس پر سوال کرنے والے نے حیرت سے کہا۔۔ معیشت اور دفاع کو ترک کیا تو قوم بھوکوں مرجائے گی اور دشمن حملہ کردیں گے؟۔ تب کنفیوشس نے جواب دیا کہ نہیں۔۔ ایسا نہیں ہوگا۔ بلکہ ایسا ہوگا کہ انصاف کی وجہ سے اس قوم کو اپنی حکومت پر اعتماد ہوگا

اور لوگ معیشت اور دفاع کا حل اس طرح کریں گے کہ پیٹ پر پتھر باندھ کر دشمن کا راستہ روک لیں گے۔ اسلام کے ظہور سے صدیوں پہلے کے ایک فلسفی کی اس بات سے انصاف کی اہمیت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے اور تاریخ انسانی کے ہر دور کے مطالعے سے اس امر کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ انصاف کے بغیر انسانی معاشروںاور ریاستوں کا استحکام ناممکن رہا ہے۔ تاریخ اسلام میں غزوہ خندق کے موقع پر اس وقت کے مسلمانوں نے بھی ریاست کو بچانے کے لئے پیٹ پر پتھر باندھ کر ہی دشمن کا راستہ روکا تھا اس کے پس پردہ بھی انصاف اور عدل کی طاقت ہی پنہاں تھی۔ حضرت علیؓ کا ایک انتہائی معروف قول کا بھی ہمیں انصاف کی اہمیت کی طرف توجہ دلاتا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ۔ کوئی معاشرہ کفر پر تو قائم رہ سکتا ہے لیکن ظلم پر نہیں۔ اس قول کے تناظر میں جب عالم اقوام کی معاشرتی زندگیوں پر نگاہ ڈالیں تو یہ بات روز روشن کی طرح حقیقت بن کر سامنے آتی ہے کہ ظلم پر مبنی اسلامی معاشرے بدترین اخلاقی انحطاط کا شکار دکھائے دیتے ہیں جبکہ کفر کے معاشرے بطور مثال دنیا کے سامنے موجود ہیں کیوں؟ اس کی وجہ صرف اور صرف وہاں انصاف اور عدل کا بول بالا ہونا ہے۔ مذہب و عقیدہ کی تفریق کے بغیر انصاف کی فراہمی آج مغربی معاشروں کی پہچان ہے

پاکستان کے اندر سڑکوں، پلوں کے جال بچھائے جا رہے ہیں، اربوں مالیت کے دفاعی معاہدے بھی کئے جا رہے ہیں، ہر طرح کی ٹیکنالوجی پر عبور حاصل کرنے کے لئے اپنے وسائل سے بھی زیادہ دولت خرچ کی جا رہی ہے، 95 فیصد مسلمانوں والی ریاست میں دفاع اسلام کے نام پر سینکڑوں تنظیمیں معرض وجود میں آ چکی ہیں، ہزاروں مدرسوں میں لاکھوں مومنین و مجاہدین اسلام کی تیاری ہو رہی ہے اور ان سب کا مقصد اسلام و پاکستان کا دفاع ہیں لیکن حقیت یہ ہے کہ یہ سب پاکستان کو کمزور کر رہے ہیں اور اسلام کا غلط تصور سادہ لوح عوام اور دنیا کے سامنے لا رہے ہیں کیونکہ جس طرح کا اسلام پاکستان میں پھیلایا جا رہا ہے اس میں انصاف و عدل نام کا کوئی تصور موجود نہیں جبکہ اسلام کا مطلب ہی امن و سلامتی ہے۔ مسلمان ہو یا غیرمسلم، کسی کو بھی انصاف کے حصول کے لئے کئی نسلوں تک انتظار کی سولی پر لٹکنا پڑتا ہے۔ جنگ عظیم دوم کے دوران انگلستان کے وزیراعظم ونسٹن چرچل کو اس کے ایک سپہ سالار نے بتایا کہ ہم شکست کھانے والے ہیں اور جرمن فوجیں لندن کا محاصرہ کرنے والی ہیں تو اس نے صرف ایک سوال پوچھا تھا کہ کیا ہماری عدالتیں ابھی تک انصاف کر رہی ہیں؟ جواب ملاکہ جی ہاں۔ تو چرچل نے کہا پھر ہمیں کوئی شکست نہیں دے سکتا۔ اور پھر دنیا نے کیا نظارہ دیکھا کہ جرمن فوجوں کوبالآ خر پسپا ہونا پڑا تھا۔ انصاف کی اہمیت یہیں تک نہیں بلکہ اس کا فقدان ویرانی کا سبب بھی بن جاتا ہے۔ شیخ سعدی ؒ کی ایک کہاوت کے مطابق ایک طوطا طوطی کاگزر ایک ویرانے سے ہوا، درخت پر بیٹھے طوطی نے ویرانی دیکھ کرطوطے سے کہا۔ کس قدر ویران گاﺅں ہے؟طوطے نے جواب دیا لگتا ہے کہ یہاں کسی الو کا گزر ہوا ہے۔ اتفاق سے درخت پر ہی الو بھی بیٹھا تھا۔ اس نے ان کی بات سنی تو پوچھا کہ تم لوگ اس گاﺅں میں مسافرلگتے ہو؟آج رات تم میرے مہمان بن جاﺅ اور میرے ساتھ کھانا کھاﺅ۔ الو کی محبت بھری دعوت انہوں نے قبول کرلی۔ کھانے کے بعد جب وہ روانہ ہونے لگے تو الو نے طوطی کا ہاتھ پکڑ لیا اور پوچھا۔ تم کدھر جا رہی ہو؟طوطی بہت حیران ہوئی اور جواب دیامیں اپنے خاوند کےساتھ واپس جارہی ہوں۔ یہ سن کر الو ہنسا اور بولا تم تو میری بیوی ہو۔ اس پر طوطا طوطی دونوں الوپر جھپٹ پڑے اور بحث شروع ہوگئی بالاخر فیصلہ ہواکہ ہم تینوں عدالت میں چلتے ہیں اور مقدمہ قاضی کے سامنے پیش کرتے ہیں قاضی کا فیصلہ ہمیں قبول کرنا ہوگا۔ طوطا طوطی مان گئے اور قاضی کی عدالت میں پہنچ گئے اور مقدمہ پیش کیا۔ قاضی نے مقدمہ سنا اور پھر الو کے حق میں فیصلہ دےدیا اور عدالت برخواست کردی۔ طوطا اس ناانصافی پر روتا ہوااکیلا چل دیا۔ پیچھے سے الو نے آواز دی۔ بھائی اکیلے کہاں جاتے ہو؟، اپنی بیوی بھی ساتھ لیتے جاﺅ۔ طوطے نے حیرانی سے کہا میرے زخموں پر نمک کیوں چھڑکتے ہو، یہ اب میری بیوی کہاں ہے، عدالت نے تمہاری بیوی قرار دیا ہے۔ الو نے طوطے کی بات تحمل سے سنی اور جواب دیا۔ نہیں دوست، طوطی میری نہیں تمہاری بیوی ہے۔ میں صرف تمہیں یہ بتانا اور سمجھانا چاہتا تھا کہ بستیاں الو ویران نہیں کرتے، بستیاں تب ویران ہوتی ہیں جب وہاں سے انصاف اٹھ جاتا ہے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).