وہ فلم جو کبھی ختم نہیں ہوتی


زندگی ایک فلم ہے۔ ہیرو یا ہیروئن کا رول آپ خود کر رہے ہوتے ہیں۔ باہر والا آپ کو دیکھ کے تالیاں بجائے گا یا پھر فلم کے دوران روتا رہے گا۔ اس فلم میں لڑائی جھگڑا بھی ہو گا، پیار محبت کے سین بھی آئیں گے، خوشی غمی بھی ہو گی اور کلائمیکس بھی اپنے وقت پر آئے گا۔ عام طور پہ تماش بینوں کے علم میں ہوتا ہے کہ ایک فلم کتنی دیر کی ہے۔ اس معاملے میں ہماری فلم کچھ ان ایکسپیکٹڈ سی ہے۔ کوئی پتہ نہیں چلتے چلتے لائٹ چلی جائے، پروجیکٹر کا لینز خراب ہو جائے، ریل ٹوٹ جائے یا فلم کے ڈیجیٹل پرنٹس میں وائرس آ جائیں۔ اس فلم کا سب سے بڑا ولن وقت ہوتا ہے۔ وہ چہرے بدل بدل کے سامنے آئے گا۔ ہیرو ہیروئن اسے پہچانتے ہوئے بھی اس کا بندوبست نہیں کر سکتے۔ ان کے ہاتھ پاؤں بندھے رہیں گے اور وقت ان کے جسم پر پاؤں دھرتا آگے نکل جائے گا۔ وقت ہی اس فلم کا سٹوری رائٹر ہے۔ وہی یہ فیصلہ کرتا ہے کہ کون سا کردار کہاں تک چلے گا اور کسے ایک مخصوص مدت کے بعد فلم سے فارغ خطی دے دینی ہے۔
اس فلم کے گانوں میں میوزک نہیں ہوتا، نہ ہی پورا محلہ اچانک آ کے آپ کے ساتھ ناچنے لگ جاتا ہے۔ لیکن یہی گانے آپ کو نچاتے رہتے ہیں۔ اکیلا انسان ناچتا ہے، پیر شل ہو جائیں، کمر ٹوٹ جائے، آنکھیں چندھیا جائیں، بال اڑ جائیں، چہرہ لکیروں کا جال ہو جائے لیکن ناچ ختم نہیں ہوتا۔ مزے کی بات یہ ہے کہ اس فلم میں کوئی ایکسٹرا کردار نہیں ہوتا۔ ہر کردار اپنے ساتھ اپنی فلم لے کر آتا ہے، دیکھنے والا ایک ہیرو کی فلم دیکھنے بیٹھے تو کتنے ہی کردار سر اٹھا اٹھا کے نکلتے چلے آتے ہیں اور فلم ختم ہونے کا نام نہیں لیتی۔ ہاں تب ختم ہو سکتی ہے جب دیکھنے والا تھک جائے یا اس کی اپنی فلم ختم ہو جائے۔ دیکھنے والے کو اکثر یہ بات یاد نہیں رہتی کہ وہ خود بھی کہیں پہ دیکھا جا رہا ہے، اس کی فلم کس وقت کہاں چل رہی ہے‘ دوسروں کی فلم میں ڈوبا ہوا وہ کبھی نہیں جان پاتا۔ اپنی کہانی ختم ہوتی ہے تو ایک پھرکی کے جیسے سارے گزرے ہوئے سین یاد آتے ہیں لیکن وہ آخری فلیش بیک ہوتا ہے۔
اس فلم کی سینمیٹوگرافی بڑی کمال کی ہوتی ہے۔ کسی کی فلم ساری عمر آؤٹ ڈور لوکیشنز پہ گزرتی چلی جاتی ہے، کوئی اپنی فلم کسی کم بجٹ کی آرٹ مووی کی طرح دو کمروں میں پوری کر دیتا ہے، گھر سے دفتر، دفتر سے گھر۔ ان ڈور ہو یا آؤٹ ڈور، جس جس اینگل سے فن کاروں کی زندگی کیمرے کی زد میں آتی ہے، وہ کمال ہے۔ کبھی وہ چھت کے ٹوٹے ہوئے شہتیر کو دیکھ رہا ہوتا ہے، کبھی اس کی آنکھیں فال سیلینگ میں لگے ستاروں پہ گھوم رہی ہوتی ہیں، کبھی وہ نظر اٹھاتا ہے تو سارا شہر صاف ستھرا اور دھلا ہوا دکھائی دیتا ہے، کبھی وہی آنکھ اسی شہر کو شدید میلا اور بے کار دکھاتی ہے۔ کبھی ایک زاویے سے وہ اپنے آپ کو سراہتا ہے، کبھی کوئی بھی زاویہ اچھا نہیں لگ رہا ہوتا۔ کبھی کبھی لگتا ہے پوری فلم رات کے اندھیروں میں بنی ہے، کبھی لگتا ہے دن کے جھماکے ختم ہونے میں نہیں آ رہے۔ کبھی طوفان شروع ہوں گے تو بادلوں سے منظر بھر جائے گا، موسلادھار بارش ہو گی، دو گز دور کا منظر دکھائی نہیں دے گا اور کبھی ایسا خشکا پڑے گا کہ چبھتی ہوئی دھوپ ہو گی جس کی تپش کردار تو ایک طرف فلم دیکھنے والا بھی محسوس کر رہا ہو گا لیکن وہ بے بس ہے۔ لاچار تو کردار بھی ہے۔ دونوں میں سے بس والا کوئی بھی نہیں ہے۔ دیکھنے والا تماشائی، خود کاسٹ میں شامل سارے کردار، سب کے سب چابی بھرے گڑیاں گڈے ہیں۔
یہاں کوریو گرافی کا ڈیپارٹمنٹ پورے تام جھام کے ساتھ موجود ہے۔ یہ کوئی بہت ہی عجیب سا شعبہ ہے۔ شعبہ ہے بھی یا محض شعبدہ ہے اس کا اندازہ دونوں کو نہیں ہو پاتا۔ کردار کو لگتا ہے کوئی پتلی کی طرح ڈوریاں باندھے اسے ہلا جلا رہا ہے۔ تماشائی اپنی جگہ حیران پریشان ہوتا ہے۔ اسے خود سمجھ نہیں آ رہی ہوتی کہ وہ اپنی مرضی سے فلم دیکھ رہا ہے یا اسے یہاں باندھ کے بٹھایا گیا ہے۔ حرکت یا بے حرکت، فلم کے اندر یا اس کے باہر، یہ ڈیپارٹمنٹ اس مکمل طریقے سے حاوی ہوتا ہے کہ سوچنے والے کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ سوچ کا دعویٰ یہ ہوتا ہے کہ وہ آزاد ہے۔ اسے یہ علم نہیں ہوتا کہ اس کے بھی کنارے طے ہیں۔ کوریو گرافی کا پیکیج نڈھال کر دینے والا ہوتا ہے۔ اس قدر کہ اس پہ غور کرنے کا وقت کسی کے پاس نہیں ہوتا۔ غور کیا جائے بھی تو ہاتھ پلے کچھ نہیں آتا۔ ڈوری ہلائی جا رہی ہے یا روک دی جانے والی ہے، اس سے بے خبر سب مست ہو کے اپنے اپنے کردار میں ڈوبے رہتے ہیں۔ ایک لمحے کو چونکتے ہیں جب کوئی فیڈ آؤٹ ہوتا ہے، اس کے بعد پھر جت جاتے ہیں۔ یہ وہ شعبہ ہے جس کی حدیں اس وقت معلوم ہوتی ہیں جب فلم ختم ہونے والی ہوتی ہے۔ لیکن اس وقت یہ آگہی کسی کام نہیں آتی۔
ڈائیلاگ ڈلیوری کا شوق ہر کردار کو ہوتا ہے۔ جسے زوم ان کریں گے وہ شوقین نکلے گا۔ جب تک شاٹ چلتا رہے گا وہ بولتا ہوا پایا جائے گا۔ بہت کم سین ایسے ملیں گے جن میں فیس ایکسپریشن سے کام لیا گیا ہو۔ کاسٹ کو یہ بات ریئلائز کروانا کسی کے بس میں نہیں ہوتا کہ بولے بغیر جذبات کا اظہار مشکل تو ہوتا ہے لیکن وہ دیرپا بھی رہتا ہے۔ دمِ رخصت وہ چپ رہے عابد، آنکھ میں پھیلتا گیا کاجل۔ دیرپا… یہ لفظ ویسے تو اس فلم میں کہیں بھی فٹ نہیں کیا جا سکتا، ایک بے یقینی سی بے یقینی ہوتی ہے لیکن پھر بھی سونی آنکھیں، ویران چہرے، بولتے جسم، برفیلے تاثرات وہ کانٹی نیوٹی ملاتے ہیں کہ فلم ختم ہونے تک بیک آف دا مائنڈ کہیں موجود رہتے ہیں۔ فلم ختم ہونے کا خوف سب کرداروں پہ ایسا حاوی ہوتا ہے کہ دنیا بھر کی ورزشیں کرتے ہیں، پرہیزی کھانے کھاتے ہیں، جلدی سوتے ہیں، جلدی اٹھتے ہیں، کوئی غیر صحت مند کام نہیں کرتے لیکن پھر بھی کسی موالی‘ بدپرہیز چرسی تماش بین کی آنکھوں کے سامنے ان کی فلم ختم ہو جاتی ہے۔ تیسرا سائلنٹ آبزرور یہ سوچ رہا ہوتا ہے کہ فائدے میں کون رہا، وہ جس نے طے شدہ زنجیروں کے علاوہ بھی اپنے آپ کو ایک روبوٹک زندگی میں ڈھال لیا یا پھر وہ جس نے ایک ایک لمحے کا رس کشید کیا اور آج بھی ٹانگیں پھیلائے کش پہ کش لگاتا فلم دیکھتا چلا جا رہا ہے۔
سوال صرف یہ ہے کہ اس فلم میں کام کرنے پہ کرداروں کو مجبور کیوں کیا جاتا ہے؟ کاسٹ کرنے سے پہلے رائے کیوں نہیں جانی جاتی؟ سکرپٹ پڑھنا تو ہر فن کار کا بنیادی حق ہے، بغیر کچھ بتائے، بغیر کچھ دکھائے اٹھایا اور کیمرے کے سامنے کھڑا کر دیا۔ بعض اوقات تو کردار اپنے رول میں اس قدر گم ہو جاتا ہے کہ اسے یہ سوچنے کی فرصت تک نہیں ملتی کہ وہ آیا تھا یا لایا گیا تھا۔ باہر بیٹھ کے دیکھنے والے تماشائیوں کا بھی یہی سین ہے۔ کوئی نہیں جانتا کون کب سے بیٹھا کون سی فلم دیکھ رہا ہے۔ سب ایک ہی سینما میں ہیں لیکن سب کے سامنے الگ الگ پردے ہیں۔ ساتھ والا کون سی فلم دیکھ رہا ہے برابر والے کو نہیں معلوم۔ کبھی کبھی تو ایسا لگتا ہے جیسے سب نے آنکھوں پہ تھری ڈی کھوپے چڑھائے ہوئے ہیں اور اپنی اپنی فلم دیکھے جا رہے ہیں۔ سب کو یہ لگتا ہے کہ وہ ہی اس فلم کا مرکزی کردار ہیں اور مرکز تو دور کی بات فلم میں کچھ بھی طے نہیں ہے۔ بس ایک حرکت ہے، مسلسل حرکت، تیری حرکت، میری حرکت، سب کی حرکت، جو تھم گیا وہ لیٹ گیا اور اس کا تھری ڈی کھوپا اتر گیا۔ ایک سیٹ چھوڑ کے دوسرے والے تماشائی کو نہیں معلوم ہوتا کب کون لیٹ گیا۔ کیا لیٹنے والا جانتا ہے کہ اس کی فلم ختم ہو چکی ہے یا وہ کھوپے کے بغیر کسی اور تھیٹر کی لائن میں لگ چکا ہوتا ہے؟

حسنین جمال

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

حسنین جمال

حسنین جمال کسی شعبے کی مہارت کا دعویٰ نہیں رکھتے۔ بس ویسے ہی لکھتے رہتے ہیں۔ ان سے رابطے میں کوئی رکاوٹ حائل نہیں۔ آپ جب چاہے رابطہ کیجیے۔

husnain has 496 posts and counting.See all posts by husnain