بادی النظر تحقیقات اور انصاف


چلیں ہم فرض کرتے ہیں کہ کے پی کے پولیس کوہاٹ کی عاصمہ کے قاتل کو گرفتار کرنے میں کامیاب ہوتی ہے اور مقتولہ کی dying declaration، ملزم کی نشاندہی پر دریافت ہونے والے آلہ قتل اور اہل علاقہ اور مقتول کے ورثا کے بیانات کی روشنی میں اسے آبتدائی تفتیش میں واحد ملزم گردانتی ہے۔

اسی دوران ایک شام ایک صحافی نما شخص اچانک ٹی وی پر نمودار ہوتا ہے اور پورے تیقن کے ساتھ چلانا شروع کرتا ہے کہ کوہاٹ کی عاصمہ کا اصل قاتل وہ شخص نہیں جسے بتایا جا رہا ہے۔ بلکہ اسے پی ٹی آئی کے ایک مرکزی راہنما جو کہ عمران خان کے انتہائی قریبی ساتھی سمجھے جاتے ہیں کے ایما پر قتل کیا گیا کیوں کہ مقتولہ کے ہاتھ عائشہ گلالئی کے پی ٹی آئی کی مرکزی قیادت پر لگاے جانے والے حراسانی کےالزامات کے کچھ ناقابل تردید ثبوت لگ گئے تھے۔ اس کہانی کے سچ ہونے کے ثبوت کے طور پر پی ٹی آئی راہنما اور مقتولہ کے درمیان مختلف اوقات میں 97000 گھنٹوں پر مشتمل کالوں کا ریکارڈ ٹی وی سکرین پر لہرا لہرا کر دکھایا جاتا ہے، جسے اگلے ہی دن پی ٹی اے کی جانب سے نہ صرف بوگس قرار دیا جاتا ہے بلکہ یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ مذکورہ نمبروں کے سم کارڈز کو جاری ہوے ابھی مجموعی طور پر 2000 گھنٹوں سے زائد کا عرصہ نہیں ہوا۔ پی ٹی اے کے کالز ریکارڈ کو جھٹلانے کے بعد صحافی نما کے پاس آئیں بائیں شائیں کے علاوہ کچھ بھی نہیں بچتا۔

ایسے میں پی ٹی آئی راہنما کے خلاف بغیر کسی بھی بادی النظر میں قابل غور ثبوت کے ان الزامات کی تحقیق کے لیے کسی اور نہیں بلکہ سپریم کورٹ کے حکم پر ایک الگ جے آئی ٹی بنا دی جائے جو الیکشن سے محض چند ماہ قبل بندوق نما کیمروں کی سیدھی، آڑی، کانی اور ترچھی آنکھوں اور منہ سے آگ برساتے صحافی نماؤں کے گھیراؤ میں پی ٹی آئی بطور سیاسی جماعت کو کٹہرے میں کھڑا کر کے روز جواب مانگے کہ کیسے وہ ایک منظم قاتل اور خواتین کو جنسی طور پر حراساں کرنے والا گروہ نہیں ہے تو کیا اس کا سیاسی و انتخابی فائدہ انتہائی غیر منصفانہ طور پر پی ٹی آئی کی مد مقابل جماعتوں کو نہیں ہو گا۔ کیا یہ level playing field کے اصول کے منافی نہیں۔ کیا اس طرح کے دیگر حربے pre-poll rigging کے زمرے میں نہیں آتے۔

اگر بغیر کوئی اصول وضع کیے، بغیرکوئی parameters بتائے ”بادی النظر“ کا یونہی سلیکٹو استعمال ہوتا رہے گا۔ اگر اپنی discretion کو structure کرنے کی بجائے من مانی کا سلسلہ یونہی چلتا رہے گا۔ اگر یہ بتائے بغیر کہ کب، کن حالات میں اور کن وجوہات کی بنا پر آئین اور قانون کے تحت ایک ادارے کو تحقیق، تفتیش اور کاروائی کرنے کے حاصل اختیارات اس ادارے سے چھین کر کسی اور کو دیے جا سکتے ہیں اپنی بنائی ہوئی تحقیقاتی ٹیم کو تفویض کیے جاتے رہیں گے۔ تو آپ ہی بتائیے یہ نظام کیسے چلے گا۔

آپ کا ادارہ بلا شبہ انتہائی اہم ہے اور آپ کا عہدہ بھی۔ آپ کو جو قانون کے مطابق درست لگتا ہے کیجے لیکن خدارا reasoning تو دیں۔ آپ کے فیصلے محض وقتی فیصلے نہیں بلکہ آئندہ آنے والے مقدمات کے لیے قانون کا درجہ رکھتے ہیں۔ آپ شہریوں کے درمیان آئینی مساوات کو یقینی بنانے اور یک جیسے مقدمات کے ساتھ ایک سا سلوک کرنے کے لئے کوئی اصول کوئی parameters تو وضع کریں۔
آپ کا ادارہ مظلوموں اور کمزوروں کی آخری امید ہے اور اس امید کو بادی النظر میں زندہ رکھنا آپ کا فرض۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).