اور وہ کابل بھی نہ بچا سکے۔۔۔



ممکن نہیں کہ کابل پر حملہ ہو اور نزلہ پاکستان پر نہ گرے۔ کابل کا الیکڑانک میڈیا ہی نہیں ‘ اخبارات کے اداریئے اور کالم بھی پاکستان سے افغان شہریوں کی ہلاکت کا حساب مانگ رہے ہیں۔ افغان حکومت کی نالائقیوں ، کمزوریوں اور داخلی سیاسی انتشار پر پردہ ڈال کر سارا ملبہ پاکستان پر ڈالنے کی روش پوری تندی سے جاری ہے۔ افغان خفیہ ادارے کے سینئر اہلکار کابل حملوں کو بلکل ہی مختلف رنگ دے رہے ہیں وہ کہتے ہیں کہ یہ حملے پاکستان پر امریکہ کی طرف سے ڈالے جانے والے دباؤکا ردعمل ہیں۔ اس بیانیہ کا سیدھا سا مطلب ہے کہ امریکہ کو پاکستان سے لڑا دیا جائے۔

کابل حملوں کے نتیجے میں یہ ضرور ہوا کہ دنیا کے کئی اہم حلقوں میں امریکی پالیسی اور افغان حکومت کی ناقص کارکردگی زیربحث آنا شروع ہوگئی۔ یہ سوال پوچھا جا رہا ہے کہ یہ کیسی امریکی اور اتحادی فورسز ہیں جو دارالحکومت کابل کی سکیورٹی کو بھی یقینی نہیں بنا سکیں۔ گزشتہ دو ہفتوں میں ہونے والے حملوں میں لگ بھگ 128 سے زائد شہری جاں بحق ہوگئے۔ عمومی طورپر موسم سرما میں حکومت مخالف کارروئیوں میں کمی آ جاتی ہے لیکن اس مرتبہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے جارحانہ پالیسی بیانات سے طالبان اور ان کے حامی خوفزدہ ہونے کے بجائے زیادہ دلیری کے ساتھ حملہ آور ہو گئے۔ وہ بھی افغانستان کے قلب یعنی دارالحکومت میں جو گزشتہ سولہ برس سے ایک فوجی چھاونی کی شکل اختیار کرچکا ہے۔ ان حملوں نے افغان حکومت کی عمل داری کا جنازہ نکال دیا اور اتحادی فورسز بالخصوص امریکی افواج کے آپریشنل نظام کی خامیوں کو بھی آشکار کیا۔ علاوہ ازیں ان حملوں نے امریکی صدر کی سخت گیر افغان پالیسی میں پائی جانے والی خامیوں کو بھی طشت ازبام کردیا کہ محض طاقت کے بل بوتے پر جنگ جیتی جا سکتی ہے اور نہ ہی سیاسی اور مذاکراتی عمل کے سوا افغان مسئلہ کا کوئی حل ہے۔  ڈونلڈٹرمپ امریکہ کے تیسرے صدر ہیں جو افغان مسئلہ کے حل اور امریکی فوجیوں کو واپس بلانے کے لیے سرکھپا رہے ہیں۔ قبل ازیں صدر جارج ڈبلیو بش اور صدر بارک اوباما اس طرح کی ناکام کوششیں کرچکے ہیں۔  تاریخ کا سبق یہی ہے کہ جو بھی بیرونی قوت اس افغانستان میں فوجیں اتارتی ہے وہ باعزت گھر لوٹ نہیں پاتی کہ یہ ایک ایسی دلدل ہے جس میں داخل ہونے کے ہزار راستے لیکن باہر نکلنے کی کوئی راہ نہیں۔

طالبان نے ماضی میں امریکہ کے ساتھ براہ راست مذاکرات کا عندیہ دیا تھا لیکن امریکہ اور افغان حکومت نے اس پیشکش کو حقارت سے ٹھکرا دیا۔ صدر بارک اوباما کے دور میں افغانستان سے زیادہ تر امریکی افواج کا انخلا ہو گیا تھا۔ خیال تھا کہ اب افغانستان مستحکم ہوگیا ہے اور کابل حکومت ملک پر کنٹرول سنبھال لے گی۔ اسی زمانے میں عراق اور شام میں داعش نامی تنظیم ابھری۔ اس نے افغانستان میں بھی قدم جمانا شروع کردیئے۔ پاکستان نے قبائلی علاقہ جات میں مقیم ازبکوں کا قیام ناممکن بنایا تو وہ افغانستان فرار ہو گئے۔  زیادہ تر داعش میں شامل ہو گئے۔ داعش نہ صرف افغان حکومت اور امریکیوں کے خلاف سرگرم ہے بلکہ شیعہ مسلمانوں کے بارے میں بھی سخت گیر خیالات رکھتی ہے۔ اگرچہ طالبان اس تنظیم کے خلاف ہیں لیکن وہ خوش ہیں کہ داعش امریکیوں یا افغان فورسز پر حملے کرتی ہے۔ کابل میں ہونے والے حالیہ حملے کی ذمہ داری داعش نے قبول کی۔ داعش افغانستان کو بھی عراق اور شام کی طرح اسلامی خلافت کا ایک صوبہ تصور کرتی ہے اور یہاں اپنی سلطنت قائم کرنے کے لیے کوشاں ہے۔

افغانستان کے داخلی حالات کی درست منظر کشی کے لیے پاکستانی میڈیا کی رپورٹوں پر بہت کم بھروسہ کیا جا سکتا ہے کیونکہ ان کے پاس اطلاعات تک براہ راست رسائی کا کوئی معتبر ذریعہ نہیں۔ اخبارات اور چینلز کے افغانستان میں بیورو تو درکنار نمائندے تک نہیں۔ لے دے کر عالمی ذرائع ابلاغ کی خبروں اور تجزیوں پر ہی انحصار کرنا پڑتا ہے۔ اسی ہفتے بی بی سی نے ایک بہت ہی چشم کشا مطالعاتی رپورٹ میں دعویٰ کیا کہ اگرچہ امریکی صدر ٹرمپ اور افغان حکومت نے طالبان کے ساتھ کسی بھی قسم کے مذاکرات سے انکار کردیا ہے لیکن تلخ حقیقت یہ ہے کہ افغانستان کے 70فی صد علاقہ میں طالبان کھلے عام سرگرم ہیں۔ کئی ماہ کی محنت شاقہ کے بعد مرتب کی جانی والی اس رپورٹ میں پورے افغانستان کا جائزہ لے کر بتایا گیا کہ افغان حکومت کا محض تیس فی صد علاقہ پر کنٹرول ہے۔

سولہ برس سے امریکی اور افغان حکام سے کامیابیوں اور کامرانیوں کی کہانیاں سن سن کر کان پک گئے ہیں۔ نومبر میں افغانستان میں امریکی کمانڈر نے کہا کہ اس برس طالبان اور حقانی نیٹ ورک کو زمین بوس کردیا جائے گا۔ اگست میں امریکی صدر نے کہا کہ جس کامیابی کا خواب دیکھتے دیکھتے جارج بش اور بارک اوباما وائٹ ہاؤس سے رخصت ہوگئے وہ اگلے چند ماہ میں ہماری حکومت حاصل کرنے والی ہے۔ نیویارک ٹائمز نے 29 جنوری کی اشاعت میں Victory Remains Elusive in Afghanistan کے عنوان سے امریکی کمانڈروں اور سویلین لیڈر شپ کے بیانات کی ایک پوری فہرست دی ہے جس میں وہ اپنی کامیابیوں کے جھوٹے دعوےٰ کرتے ہیں۔ یہی اخبار بتاتا ہے کہ افغانستان میں امن کے حوالے سے امریکی پالیسیاں خام اور ناقص تجزیہ اور معلومات پر استوار کی گئی ہیں۔ چنانچہ ٹریلین ڈالر خرچ کرنے اور 2216 سے زائد فوجیوں کی قربانیوں کے باوجود افغانستان کا استحکام آج بھی اتنا ہی دور ہے جتنا سولہ برس قبل تھا۔

امریکی اور افغان حکام اپنی ناکامیوں کا کبھی اعتراف نہیں کرتے۔ ظاہر ہے! بڑی طاقت ہونے کے ناطے امریکا دنیا کو یہ نہیں بتا سکتا کہ وہ افغانستان کو مستحکم کرنے میں ناکام ہوچکا ہے لہٰذا اپنی ناکامیوں پر پردہ ڈالنے کے لیے پاکستان کو قربانی کا بکرا بنایا جاتا ہے۔ امریکہ ،بھارت اور افغانستان تینوں پاکستان کو ناکردہ گناہوں کی سزادینے کے لیے ایک صفحے پر جمع ہیں۔ صدر ٹرمپ کو داخلی سیاست میں سخت مشکلات کا سامنا ہے۔ حزب اختلاف، سول سوسائٹی اور میڈیا ان کی ہر روز بھد اڑاتا ہے۔ وہ اگلا الیکشن جیتنے کا تصور بھی نہیں کرسکتے۔ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی اگلے سال الیکشن میں جا رہے ہیں لہٰذا انہوں نے کنٹرول لائن پر مورچہ نہ صرف گرم رکھا ہوا ہے بلکہ وہ آتش وآہن کی بارش بھی کر رہے ہیں۔ پاکستان کی دولاکھ کے قریب فوج کو مشرقی سرحد پر الجھایا ہوا ہے۔ افغانستان میں بھی اگلے سال صدارتی الیکشن ہونے ہیں۔  صدراشرف غنی اپنا تشخص ایک زیادہ سخت گیر اور قوم پرست رہنما کے طور پر اجاگر کرنا چاہتے ہیں جو پاکستان کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کر سکتا ہے۔ صدر ٹرمپ، صدر اشرف غنی اور وزیراعظم نریندرمودی کو پاکستان مخالف محاذ گرم کرنے میں داخلی سیاسی فائدہ نظر آتاہے۔ سیاستدانوں کو سیاسی فائدہ ہو رہا ہو تو وہ کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں۔ ان حالات میں پاکستان کو زیادہ ہوشمند ی کے ساتھ خطرات کا مقابلہ کرنا ہوگا۔ تصادم سے بچنے کی بھی کوشش کرنا ہوگی اور اپنے وقار کا بھی خیال رکھنا ہوگا۔

ارشاد محمود

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ارشاد محمود

ارشاد محمود کشمیر سے تعلق رکھنے والے ایک سینئیر کالم نویس ہیں جو کہ اردو اور انگریزی زبان میں ملک کے موقر روزناموں کے لئے لکھتے ہیں۔ ان سے مندرجہ ذیل ایمیل پر رابطہ کیا جا سکتا ہے ershad.mahmud@gmail.com

irshad-mehmood has 178 posts and counting.See all posts by irshad-mehmood