موٹر وے نوازشریف کے شوق کی کہانی


اِس بارے میں ابہام ہو سکتا ہے کہ دُنیا کے کس خطے میں پہلی باقاعدہ حکومت وجود میں آئی، مگر سب متفق ہیں کہ وقت کے ساتھ طرزِ حکمرانی میں تبدیلی آتی رہی۔ بادشاہت کے زمانے میں حکمرانی کا طریق کچھ اور تھا۔ عوام سے کتنا ٹیکس لیا جائے، اِس کا انحصار صرف اُن کی قوت برداشت سے تھا۔ بس اِتنا خیال رکھا جاتا کہ سلطنت میں بغاوت نہ ہو۔ اور پھر سرکاری خزانے میں آنے والی رقم کہاں استعمال کی جائے، یہ صرف بادشاہوں کی مرضی پر منحصر ہوتا۔ وہ زندگی سے لطف اُٹھانے کے لئے عالیشان محلات بنواتے اور مرنے کے بعد یاد رکھے جانے کے لئے مقبروں کی عمارت۔ سلطنت کو قائم رکھنے کے لئے توپ و تفنگ سے لیس، سپاہ کا انتظام ہوتا۔ قلعے تعمیر کئے جاتے اور اگر بادشاہی میں خوش ذوقی کا امتزاج ہو تو شاہی خاندان کی چہل قدمی کے لئے بڑے بڑے باغات کا انتظام ہوتا۔

تاریخ ہمیں یہ سبق بھی دیتی ہے کہ ہر حکمران مذہبی رہنمائوں سے خائف، اُن کی خوشنودی کا طالب رہتا۔ اور پھر عوام الناس میں مذہب سے لگائو کا تاثر قائم رکھنے کی ضرورت بھی موجود ہوتی۔ حکمران نے بادشاہت کا تاج سر پہ سجایا ہو، خلافت کا لبادہ اوڑھ کر تخت نشین ہو یا مہاراجہ کی پوشاک پہن کر رعایا پر حکومت کرے، اپنے دورِ حکمرانی میں کلیسائوں، مندروں، گردواروں اور عبادت گاہوں کی عظیم الشان عمارتیں بڑے اہتمام سے تعمیر کرواتا۔ یورپی ممالک برطانیہ، فرانس اور خاص طور پر اٹلی میں کلیسائوں کی عظیم الشان عمارتوں پر اتنی کثیر رقم خرچ کی گئی کہ موجودہ دور کا کوئی جمہوری حکمران اِس کے لئے تیار نہ ہو گا۔

یورپ میں بادشاہت آہستہ آہستہ جمہوریت میں ڈھل گئی۔ تخت و تاج سے کلیسا کا گٹھ جوڑ کمزور ہوا تو عوامی فلاح و بہبود کے منصوبے بنے۔ تعلیم پر توجہ ہوئی اور سینکڑوں سال پہلے وجود میں آنے والے درسگاہوں نے صنعتی انقلاب کی بنیاد رکھی۔ اِس کے برعکس برصغیر پاک و ہند میں بادشاہوں نے عوامی فلاح و بہبود پر توجہ نہ دی۔ صرف ایک حکمران شیر شاہ سوری اِس حوالے سے مشہور ہوا۔ ہندوستان میں جرنیلی سڑک اُس کے چند سالہ دورِ حکومت کو زندہ جاوید کر گئی۔

بادشاہوں کا دور ختم ہوا، انگریز حکمران بھی اپنے گھر سُدھارے۔ آج کل کے جمہوری دور میں طرزِ حکمرانی بدل چکی ہے۔ ٹیکس وصول کرنا آسان نہیں۔ خوشحال طبقوں کو بھی ٹیکس ادا کرنے کا کہا جائے تو سرکار سے ناراض ہو جاتے ہیں۔ پاکستان کی وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی کارکردگی، ٹیکس کے نفاذ اور حصول میں کبھی قابلِ رشک نہیں رہی۔ وہ مشکل فیصلے سے کتراتی ہیں۔ دُنیا کے مقابلے میں مجموعی قومی پیداوار کا کم حصہ پاکستان کے سرکاری خزانے میں آتا ہے۔ جو رقم اکٹھی ہوتی ہے، اُس کا بیشتر حصہ دفاع اور پرانے قرضوں کی واپسی میں خرچ ہو جاتا ہے۔ باقی ماندہ رقم سے انتظامیہ کا ڈھانچہ رواں رہتا ہے اور بچی کھچی پونجی عوامی فلاح و بہبود پر خرچ ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مسائل کم نہیں ہوتے۔ صحت عامہ زبوں حالی کا شکار ہے۔ ناخواندگی کی شرح کم نہیں ہو رہی۔ عوام باعزت روزگار کی تلاش میں خوار پھرتے ہیں۔ آبادی کا ایک بڑا حصہ خطِ غربت سے نیچے، زندگی کی جستجو میں مصروف ہے۔ اِن حالات میں محدود وسائل کو خرچ کرنے کے لئے حکومت کی ترجیحات بہت اہم ہو جاتی ہیں۔ ایک طرف حکومت سے بڑھتی ہوئی عوامی توقعات اور دُوسری طرف آمدن کا فقدان۔ کسی بھی سیاسی پارٹی کے لئے پاکستان میں مقبولیت قائم رکھنا آسان نہیں۔

وسائل اور مسائل کے وسیع تر تناظر میں مسلم لیگ (ن) کی طرزِ حکمرانی کا جائزہ لیا جائے تو سڑک کی اہمیت نمایاں نظر آتی ہے۔ 1980ء سے 1985ء تک پنجاب میں گورنر جیلانی کی حکومت تھی۔ اُنہوں نے اپنے دورِ حکومت میں کھیت سے منڈی (Farm to Market) تک سڑکوں پر بہت توجہ دی۔ اِن منصوبوں میں مقامی حکومتوں کو شامل کیا جاتا۔ دیہات سے شہر جانے والے راستوں پر عوام اپنی مدد آپ کے تحت مٹی ڈالتے۔ اُنہیں کھلا کیا جاتا اور حکومت اِن کچی سڑکوں کو پکا کر دیتی۔ گورنر جیلانی سمجھتے تھے کہ پنجاب میں یہ سڑکیں زراعت کی ترقی کا باعث بنیں گی۔ وہ ہر موقع پر اپنی اِس کاوش کا ذکر بہت فخر سے کرتے۔ خیال ہے کہ حکومت کے ساتھ، گورنر جیلانی نے نواز شریف کو سڑک سے محبت بھی منتقل کر دی۔ مگر نواز شریف ایسے عالیشان منصوبے چاہتے تھے جو عوام کو دُور سے نظر آئیں۔ اُنہیں شاید شیر شاہ سوری کا سیاسی ورثہ من بھاتا تھا۔ وہ جرنیلی سڑک کی طرح ایک بڑی شاہراہ تعمیر کرنا چاہتے تھے۔

بہت کم لوگوں کو علم ہے کہ پنجاب کی وزارتِ اعلیٰ کے اوّلین دور 1988ء میں اُنہوں نے لاہور سے فیصل آباد موٹر وے بنانے کا ارادہ کیا۔ پنجاب حکومت کے وسائل اجازت نہ دیتے تھے۔ چوہدری اختر مرحوم وزیر مواصلات تھے۔ اُن کو ذمہ داری سونپی گئی کہ پنجاب کے اہم ٹھیکیداروں کو جمع کریں۔ اُنہیں تجویز دیں کہ وہ مل کر ایک مشترکہ کمپنی بنائیں۔ اپنے وسائل بھی استعمال کریں اور بنکوں سے قرض بھی لیں۔ منصوبے کی تکمیل پر حکومت سڑک استعمال کرنے والوں سے ٹیکس وصول کرنے کی اجازت دے گی۔ یہ کاوش ابھی مشاورت کے مرحلے سے آگے نہ بڑھی تھی کہ نواز شریف پاکستان کے وزیرِ اعظم بن گئے۔ عہدہ سنبھالنے کے فوراً بعد اُنہوں نے لاہور اسلام آباد موٹر وے شروع کرنے کا بیڑہ اُٹھایا۔

یہ منصوبہ ابھی ابتدائی مراحل میں تھا کہ اسلام آباد سے پشاور تک توسیع کے لئے ایک ترک کمپنی بائندر سے بات چیت شروع ہوئی۔ کچھ عرصے کے بعد ترکی کی ایک اور کمپنی اینکا ہولڈنگ سے موٹر وے کو لاہور سے ملتان تک تعمیر کرنے کے منصوبے پر بات چیت کا آغاز ہوا۔ راقم اُس وقت استنبول میں تعینات تھا۔ ترکی میں ترگت اوزال صدر تھے۔ اُن کی حکومت کے دوران مواصلات کے شعبے میں بڑی سرمایہ کاری ہوئی۔ اینکا ہولڈنگ کے مالک، شارق تارا کئی مہینے اسلام آباد میں مقیم رہے۔ جب استنبول واپس آتے تو مزے کے قصے سناتے۔ اُن کے مطابق نواز شریف موٹر وے کو ملتان لے جانا چاہتے تھے مگر سرتاج عزیز رقم کی کمی کا رونا روتے۔ ایک دفعہ بتایا کہ میٹنگ میں سرتاج عزیز بھی موجود تھے۔ نواز شریف نے پوچھا ’’مسٹر تارا! ترگت اوزال نے استنبول سے انقرہ تک موٹر وے کے لئے رقم کا بندوبست کیسے کیا تھا؟ شارق تارا کے مطابق، اُنہوں نے سرتاج عزیز کی طرف دیکھتے ہوئے کہا ’’وزیرِ اعظم! آپ میں اور ترگت اوزال میں ایک فرق ہے۔ وہ اپنی مرضی کرتے ہیں اور وزیرِ خزانہ کی بات نہیں سنتے۔‘‘ نواز شریف نے قہقہہ لگایا اور کہا ’’میں چند مہینوں میں سرتاج عزیز کو منا لوں گا‘‘ اِس واقعے کے چند ہفتے بعد نواز شریف کی حکومت ختم ہوئی اور لاہور اسلام آباد منصوبہ بھی سرد خانے کی نذر ہو گیا۔

نواز شریف کے ناقد معترض ہیں کہ اُن کا موٹر وے سے عشق اپنی جگہ مگر یہ ترجیح تعلیم اور صحت کے شعبے کی ترقی پر اثر انداز ہو رہی ہے۔ یہ اعتراض بے وزن نہیں۔ مگر نواز شریف نیک نیتی سے سمجھتے ہیں کہ موٹر وے سے پسماندہ علاقوں کو ترقی ملتی ہے۔ مختلف خطوں کے لوگ قریب آتے ہیں۔ تجارت کے مواقع پیدا ہوتے ہیں۔ عالیشان سڑکیں لوگوں کیلئے ملکی ترقی کی علامت ہیں اور آسان سفر کی سہولت بھی فراہم کرتی ہیں۔

وقت کے ساتھ وہ پختہ یقین سے موٹر وے کو اپنی کامیاب سیاست کا اہم جزو سمجھتے ہیں۔ اس لئے آئندہ الیکشن میں اگر مسلم لیگ (ن) نے حکومت بنائی تو اُن کی زیادہ تر توجہ ذرائع آمدورفت کے عظیم منصوبوں پر ہی رہے گی۔

بشکریہ جنگ


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ظفر محمود

بشکریہ: روز نامہ دنیا

zafar-mehmood has 80 posts and counting.See all posts by zafar-mehmood