انصاف کی ایک ناقابل یقین کہانی


راویوں کا بیان ہے کہ اجلی دنیا میں کہیں جب دن ڈھل جاتا تو ایک ایسے شہر میں طلوع ہوتا جس کا نام انصافستان تھا اور جہاں معنی و مفاہیم  بالکل الگ تھے۔ اس شہر کے باسی بھی عام انسانوں کی طرح سانس لیتے اور ذریعہ معا ش کے لئے دوسری دنیاوں کا ر خ کر تے تھے۔ اس شہر میں شیر اور بکری کو کبھی ایک گھاٹ پر پانی پینے کی ضرورت پیش نہیں آتی تھی کیونکہ وہاں کو ئی کسی کا حق نہیں مارتا تھا۔ اس شہر کے بارے میں بیرونی دنیا میں ہر طر ح کی حکایتیں مشہور تھیں۔

کوئی کہتا تھا

وہاں دیوتاوں کا سایہ ہے

کسی کے مطابق

اس شہر کے لو گ بددماغ ہیں اور اجنبیوں سے کلام کرنا پسند نہیں کرتے

حد تو یہ ہے کہ صنف نازک بھی اس شہر کو موضوع سخن بناتی نظر آتی تھی

عجیب ہیں وہاں کی خواتین بھی، نہ آرائش و زیبائش گیسو نہ ہی بہتر مستقبل کی تلاش۔ بس امور خانہ داری ہی ان کی زندگی ہے۔ اے بہن میں نے تو یہاں تک سنا ہے کہ اگر اس شہر میں کوئی کسی کے گھر علی الصبح بھی جا دھمکے تو اسے ناشتہ کیے بغیر واپس نہیں جانے دیا جاتا۔ بھلا بتاو اس طرح ہم کر سکتے ہیں کیا؟ دفتر کون جائے گا؟ میں تو اپنا ناشتہ بھی دفتر جا کر کرتی ہوں۔میرے ادارے کے مالک مجھ پر بہت اعتماد کرتے ہیں۔ بچوں کے لئے آیا رکھ چھوڑی ہے،میاں کو بھی وہی سنبھالتی ہے

ایک خدائی فوجدار نما خاتون کو انکی مدد کا شوق تھا، سو گویا ہوئیں

اے بہن ،میں تو کہتی ہوں ہمیں ان کی مدد کرنی چاہیئے

مگر پو رے معا شرے کا اس با ت پر اجماع تھا کہ مبادا وہاں سے آنے والی ہوائیں ہماری بودوباش کو خراب کر دیں لہذا کوئی بھی وہاں جا کر ان لو گوں کو تہذیب یافتہ  بنانے کے لئے تیار نہیں تھا، یوں اس شہر پر دو حرف بھیج کر اپنا فرض پورا کیا جاتا تھا۔

ایک بار کا ذکر ہے کہ بیرونی دنیا کے تین مصروف ترین لوگ انصافستان کے پاس سے گزر رہے تھے جن میں ایک فلسفی، ایک منصف اور ایک موسیقار مل تھا۔ ان لوگوں کو وہاں سے گزرنے کی جلدی تھی کہ کہیں یہ بدتہذیب لوگ ان کا وقت نہ مانگ لیں لیکن اچانک ان کی نظر چند بچوں پر پڑی جن کی حرکات و سکنات سے لگ رہا تھا کہ وہ آ پس میں دست و گریباں ہو نے کے لئے پر تول رہے ہیں۔ متفقہ فیصلہ ہوا کہ ان بچوں کو تہذیب کے اصول سکھا کر احسان عظیم کیا جائے چنانچہ پوچھا گیا کہ کیوں جھگڑ رہے ہو؟

ایک بچہ گو یا ہوا کہ ہما رے درمیان جھگڑا اس بانسری کا ہے۔

فلسفی نے کہا کہ بتاو یہ بانسری کہاں سے آئی؟

اسی بچے نے جواب دیا، بانسری میں نے بنائی ہے

تو منصف نے کہا کہ

عالمی قانون رالز کے نظریے کی رو سے پیداوار آجر کو عنایت کرتا ہے۔ بات ختم، بانسری جس نے بنائی ہے اسی کو ملنی چاہیئے

اس پر دوسرا بچہ بولا کہ

جناب پوری بات تو سن لیجئے کہ بانسری الف نے بنائی ہے مگر اس کی لکڑی کس کی زمین پر لگی تھی؟

فلسفی نے بولا

اگر لکڑی تمھاری زمین پر تھی تو تم مالک ہو اس بانسری کے کیوںکہ میں نے جبر و قدر کے مسئلے کے تحت اس قضیے پر غور کیا ہے۔ اب ہوا نہ انصاف۔ جا کر بتانا اپنے بڑو ں کو کہ اس طر ح ہوتا ہے انصاف

اچا نک ایک معصوم کی مدھر آواز آئی کہ  جناب ان میں سے کسی کو بانسری بجانی نہیں آتی،صرف میں جانتا ہوں کہ بانسری کیسے بجائی جاتی ہے ؟

مو سیقار نے اپنا حصہ ڈالا کہ جو ہا تھ بڑ ھا کر اٹھا لے، سا غر و مینا اسی کا ہے، جس کو با نسری بجانا آ تی ہے وہ ہی بانسری کا حقدار ہے۔ اب تو ہوا نہ انصاف!

یہ کہ کر تینوں تہذیب یا فتہ نمائندے وہاں سے جا نے لگے کہ پیچھے سے سب سے نحیف بچے نے ایک بات کہی اور اس بات نے پوری تہذیب کو ہلا کر رکھ دیا اور تینوں نما ئندہ افراد اپنے ہوش کھو بیٹھے۔ بات پڑھ کر فیصلہ خود کر لیجئے

جناب مانا کہ بانسری بنائی الف نے ہے، لکڑی ب کی زمین کی تھی اور بجانا ج اچھا جا نتا ہے مگر میں ان مین سب سے کمزور اور غریب ہوں لہذا ان تینوں نے بانسری مجھے دینے کا فیصلہ کیا ہے اور یہی ہمارا انصاف ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).