عمران خان، سابق پلے بوائے کرکٹر اور ممکنہ وزیراعظم کا انٹرویو-2


پہلا حصہ پڑھنے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اس نے صرف وہ لاہور پیچھے نہیں چھوڑا تھا جہاں اس کی ماں کا خاندان لاہور کرکٹ کلب کا گاڈ فادر کہلاتا تھا، بلکہ ایک ایسا بچپن بھی پیچھے چھوڑا تھا جہاں وہ بالنگ کی پریکٹس کرتا تھا اور اس کے چار ملازم بیٹنگ کرتے تھے، اور سوشلی وہ ایچی سن کا طالب علم تھا جو پاکستان کا ایٹن ہے۔

جس وورسیسٹر میں 1971 میں عمران آیا وہاں نسلی حملے عام تھے۔ وہ اصرار کرتا ہے کہ اس کی کبھی پٹائی نہیں ہوئی۔ ”لیکن مجھے پچ پر پاکی ٹائپ کی انسلٹ کا سامنا کرنا پڑا“۔ دوست بنانے کی کوشش کے باوجود اکثر اس نے اکیلے کھانا کھایا۔ ”میں شرمیلا تھا، آپ کو یقین نہیں آئے گا مگر میں بے انتہا شرمیلا تھا“۔

رائل گرائمر سکول کے دوسرے لڑکے ایک تنہا لڑکے کو یاد کرتے ہیں جو سکارفوں میں لپٹا ہوتا تھا اور اس کی کوئی گرل فرینڈ نہیں تھی۔ ”میں یہ سوچتے ہوئے بڑا ہوا کہ میں بدصورت ہوں۔ میری بڑی بہن ہمیشہ مجھے یہی بتاتی تھی اور مجھے اس بات کا یقین ہو گیا۔ “ وہ کہتا ہے کہ کامیاب ہونے سے پہلے کبھی بھی اس کی شکل کی تعریف نہیں کی گئی۔ ”کامیابی ایسی چیز ہے جو بدصورت ترین آدمیوں کو خوبصورت بنا ڈالتی ہے“۔

آکسفورڈ نے عمران خان کو دوبارہ جنم دیا۔ وہ ایک سوشل شخص بن گیا جس کے بدیسی خدوخال اشرافیہ کو بھی لبھا سکتے تھے۔ جہاں وہ وزڈن کے دیوانے وورسیسٹر کرکٹروں سے محفوظ تھا، وہ آکسفورڈ بلیوز ٹیم کی محبت میں گرفتار ہو گیا۔ ”مجھے ویسی دوستی دوبارہ کبھی نہیں ملی“، وہ بتاتا ہے۔

عمران کے یونیورسٹی کے دوست اسے لڑکیوں میں بہت مقبول شخص کے طور پر یاد کرتے ہیں۔ ”ایک کے بعد دوسری لڑکی اسے کال کرتی“ ایک پرانے واقف نے بتایا۔ لیکن یہ اس کے لئے آسان نہیں تھا۔ ”میں آکسفورڈ میں اپنی شخصیت تلاش کرتا رہا۔ اور مجھے اپنے سکول کے ایسے بہت سے پاکستانی لڑکے ملے جو خود سے نفرت کرتے تھے جب بھی میں ان سے لندن میں ملتا تھا“۔

فخر، شرم اور احساس کمتری: جذبات کا ایک ایسا ملاپ جس نے نہ صرف اس میں جیت کی خواہش بیدار کی بلکہ انگلینڈ اور آسٹریلیا کے کرکٹر کو تباہ کر ڈالنے کا جذبہ جگایا جو 1970 کی دہائی میں ناقابل شکست تھے۔ ”کالونیل دور ابھی بہت قریب تھا“، اس نے بتایا۔ لیکن کچھ اور بھی تھا جو اسے دیوانہ کر رہا تھا، وہ تھی شہرت۔ وہ یاد کرتا ہے کہ آکسفورڈ میں وہ سوچا کرتا تھا کہ پاپ سٹار کی طرح مشہور ہونا کیسا ہوتا ہو گا، ”مک جیگر یا ڈیوڈ بووی کی طرح“۔

اسے جلد ہی پتہ چلنے والا تھا۔ اس کی فاسٹ باولر کی صلاحیت اور ریورس سوئنگ کی مہارت نے اسے 362 وکٹیں دلوا دیں اور 1982 میں پاکستان کا کپتان بنا دیا۔ جب عمران اور پاکستان 1992 کے ورلڈ کپ کے فاتح کی حیثیت سے لاہور واپس پہنچے تو ہجوم اس قدر زیادہ تھا، ستائش اس قدر برس رہی تھی کہ اسے ائیرپورٹ سے شہر تک پہنچنے میں کئی گھنٹے لگے۔

آج زمان پارک کی بنگلوں کے درمیان گھومتے ہوئے ایک خلا بہت نمایاں دکھائی دیتا ہے۔ عمران خان نے اپنے والد کا گھر گرا دیا ہے۔ اس کے والد کا انتقال 2008 میں ہوا تھا۔ اس کا ارادہ دوبارہ بنانے کا ہے، لیکن فی الحال پلاٹ خالی پڑا ہے۔

بارہ برس کی عمر میں جب عمران خان اپنے ماموں جاوید زمان خان کے پاس گیا اور اسے بتایا کہ وہ گھر چھوڑنا چاہتا ہے، تو اس شخص نے جسے عمران گاڈ فادر کہتا ہے، یاد کیا ”وہ اپنی ماں کے بہت قریب تھا، اور اس کے باپ کی اس کی ماں سے بول چال بند تھی۔ دونوں کے درمیان ایک دوری تھی“۔ عمران خان اپنی ماں کے اس حد تک قریب تھا کہ اس کا اصل خاندانی نام خان (جو اس کی ماں کا خاندانی نام ہے) نہیں بلکہ نیازی ہے۔ ”جب میں نے کرکٹ کھیلنی شروع کی تھی ہر ایک مجھے میرے کزن ماجد خان کی وجہ سے عمران خان کے نام سے جانتا تھا“۔ لیکن اس نے اس غلط فہمی کو دور کرنے کی کبھی کوئی کوشش نہیں کی۔

اس نے اپنی ماں کو کینسر کی وجہ سے 1985 میں کھو دیا اور اس کی یاد میں لاہور میں ایک ہسپتال بنایا۔ اس نے اپنے باپ کو اپنی ماں کی یادوں کے محافظ سے اس وقت ہٹا دیا جب اس نے اسے ہسپتال کے بورڈ کے چیئرمین کے عہدے سے بیک جنبش الگ کر دیا۔ اس کے خاندان کے افراد نے مجھے بتایا کہ اس کے والد کی بیوفائیاں اس دوری کی وجہ تھیں اور بہت سے دورانیے ایسے تھے جب عمران اور اس کے والد کے درمیان بول چال بند تھی۔ ”میرا اپنے والد کے ساتھ بہت فارمل سا رشتہ تھا“، عمران کہتا ہے۔

عمران کے اپنے بیٹوں کا کیا معاملہ ہے؟ ”میری خیال ہے کہ مجھے جمائما کو کریڈٹ دینا پڑے گا۔ وہ ان کے لئے ایک بہت اچھی ماں ثابت ہوئی ہے۔ کیونکہ آپ جانتے ہیں کہ جب ہماری طلاق ہوئی اور وہ ان کے ساتھ انگلینڈ واپس چلی گئی تو میں ایک جزوقتی باپ بن کر رہ گیا“۔

عمران نے اب مغربی لباس مکمل طور پر ترک کر دیا ہے لیکن وہ کہتا ہے کہ اس کے اکیس سالہ بیٹے سلیمان عیسی خان اور اٹھارہ سالہ قاسم خان دونوں تہذیبوں کا اثر لے کر بڑے ہوئے۔ دونوں نے اپنے گولڈ سمتھ کزنوں کے ساتھ رچمنڈ کا ایکسکلوسیو ہیروڈین پبلک سکول اٹینڈ کیا۔ ”میں ان سے بیشتر باپوں کے مقابلے میں زیادہ ملا کرتا تھا کیونکہ تمام چھٹیاں وہ میرے ساتھ یہاں گزارتے تھے۔ لیلکن پھر بھی یہ ان کے ساتھ رہنے جیسا نہیں تھا۔ اس لئے میں خود کو ایک طرح سے خوش قسمت سمجھتا ہوں۔ جب وہ یہاں آتے تو میں باقی سب کچھ چھوڑ دیتا اور ان کے ساتھ اچھا وقت گزارتا۔ لیکن پھر وہ بڑے ہو گئے“۔ جب میں نے سوال کیا کہ کیا وہ شراب پیتے ہیں تو عمران نے جواب نہیں دیا بلکہ کترا کر مغرب زدہ پاکستانی اشرافیہ پر برسنے لگا۔

سٹیڈیم کے اندر عمران خان نے پاکستان کی حکمران جماعت پر گرجنا شروع کر دیا اور چین کے بنے ہوئے ڈرون اس کے سر پر بھنبھنانے لگے۔ ”یہ سیاستدان نہیں ہیں۔ یہ مافیا ہیں۔ انہوں نے ہر ادارے میں اپنا اثر بنا لیا ہے۔ اسی وجہ سے میں ان کے خلاف کھڑا ہوں“۔ ہجوم جوش سے بھر گیا اور اردو میں اس کے حق میں نعرے لگانے لگا۔

مجھے ان کی پارٹی کے نائب صدر کی بات یاد آئی۔ کہ ”وہ ناقابل یقین طور پر انگریز ہیں۔ میں پاکستان میں کسی دوسرے کو نہیں جانتا جو ’گوش‘ کہتا ہو۔ وہ شیکسپئیر اور میگنا کارٹا کے جملے دہراتے ہیں۔ وہ جلسوں میں ایسے پانچ لاکھ لوگوں کے سامنے برطانوی سیاست کے بارے میں باتیں کرتے ہیں جن میں سے اٹھانوے فیصد اس بات کی رتی برابر پروا نہیں کرتے کہ انگلستان میں کیا ہوتا ہے۔ مجھے کہنا پڑ جاتا ہے کہ خدا کے لئے یہ بتانا بند کر دیں کہ انگلستان میں کیا ہوتا ہے“۔

عمران کی تقریر ختم ہوئی اور ہم چند منٹ کے اندر اندر گاڑیوں میں واپس بیٹھ گئے۔ وہ پرجوش اور بھوکا ہے۔ ہم ٹرکوں کے ایک اڈے پر رکے۔ ”یہ سب سے اچھا پاکستانی کھانا ہے“ اس نے بتایا۔ جیسے ہی وہ گاڑی سے باہر آیا تو لوگ چیخنے چلانے لگے اور اس کے محافظوں نے ایک بھگدڑ کو روکا۔ ”آپ اسے چکھیں“ عمران نے کھانے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا جو کہ گھبرائے ہوئے بیرے لائے تھے۔ سینکڑوں لوگ عمران خان کے ساتھ سیلفی بنانے کی کوشش کر رہے تھے اور عمران خان یہ بتا رہے تھے کہ برطانوی امپیریل ازم کی بدترین لعنت یہ تھی کہ اس نے لوگوں سے الگ ایک انگریزی بولنے والی اشرافیہ پیدا کر دی۔ میرے پیچھے ایک آدمی چلا رہا تھا ”سلطان خان سلطان خان“۔ میں نے پوچھا کہ یہ آدمی کیا کہنے کی کوشش کر رہا ہے؟ ”اوہ، مجھے نہیں پتہ“ عمران نے کچھ شرمندہ ہوتے ہوئے دوسری طرف دیکھتے ہوئے کہا۔

بار بار وہ ”مافیاز“ پر غصہ نکالتا رہا۔ وہ سیاستدان جو اسے شکست دیتے رہتے ہیں۔ لیکن جیسے جیسے وہ مسلم لیگ ن کی بات کرتا جو سابق وزیراعظم نواز شریف کا خاندان چلاتا ہے، اور پاکستان پیپلز پارٹی کی بات کرتا جو سابق صدر آصف زرداری، بے نظیر بھٹو مرحوم کے شوہر کنٹرول کرتے ہیں، تو مجھے یہ احساس ہوا کہ یہ کتنا ذاتی معاملہ ہے۔

کیونکہ یہ تمام سیاستدان ایک بہت چھوٹی سی اشرافیہ کے ہی چہرے ہیں۔ عمران خان بے نظیر بھٹو کو آکسفورڈ میں جانتے تھے اور نواز شریف کے ساتھ لاہور میں کرکٹ کھیلتے تھے۔ ”ہاں یہ ذاتی ہے، کیونکہ میں سوچتا ہوں کہ دونوں خوشحال ہیں، تو وہ اس کی پروا کیوں نہیں کرتے جو معاشرے میں ہو رہا ہے“۔

عمران خان کی ہر چیز کے پیچھے کوئی ایسی چیز ہے جو مجھے اشرافیہ، بلکہ جاگیرداروں سے متعلق دکھائی دیتی ہے۔ اس کا نظم و ضبط، نظام مراتب، اشرافیہ کی مانند احسان کرنا سب ویسا ہے۔ لیکن میں جتنا وقت اس کے ساتھ گزارتا ہوں مجھے وہ اس عمران سے اتنا ہی بیزار لگتا ہے جو ٹیبلائیڈ کا سیلیبرٹی ہے۔

جب میں 1980 کی دہائی کی گرل فرینڈز اور پارٹیوں کے بارے میں کچھ پوچھتا ہوں تو ایک عجیب سی دل شکستگی اس پر طاری ہو جاتی ہے۔ وہ ایک آہ بھر کر کہتا ہے کہ ”مجھے کچھ یاد نہیں ہے۔ آپ جانتے ہیں مجھے بھولنے کی بیماری ہے۔ میں اپنا تمام ماضی بھول چکا ہوں۔ “

ایک لمحے کے لئے وہ سامنے دیکھتا ہے اور پھر پھٹ پڑتا ہے ”اگر میں اپنی زندگی کو دیکھوں تو میں اسے ایک مختلف انداز میں بسر کرتا۔ اگر مجھے وہ دوبارہ گزارنی پڑے تو ایسی بات نہیں ہے کہ مجھے پچھتاوے ہیں۔ آپ جانتے ہیں کہ آپ زندگی سے سیکھتے ہیں۔ جب میں پیچھے دیکھتا ہوں تو۔ ۔ ۔ بات یہ ہے کہ میں شادی نہیں کرنا چاہتا تھا کیونکہ بین الاقوامی کرکٹ اور شادی کبھی اکٹھے نہیں چل سکے“۔

کیوں؟ زیادہ تر آدمی اس طرح کی زندگی کے لئے کچھ بھی کرنے کو تیار ہو جائیں گے۔ ”ہاں، لیکن آپ جانتے ہیں کہ ہر چمکنے والی چیز سونا نہیں ہوتی۔ یہ دور سے بہت پرکشش دکھائی دیتی ہے مگر حقیقتاً ایسا نہیں ہے۔ کچھ مدت کے لئے اس میں کشش ہے مگر لمبی مدت میں اس میں دکھ اور درد ہے، جو مجھے پسند نہیں ہے۔ جب میں پیچھے مڑ کر دیکھتا ہوں تو مجھے لگتا ہے کہ یہ اس قابل نہیں ہے۔ اس طرح عورتیں استعمال ہوتی ہیں کیونکہ وہ اس امید میں ہوتی ہیں کہ مرد ان کی محبت میں گرفتار ہو جائے گا اور مرد انہیں بس استعمال کرتے ہیں۔ یہ غلط ہے۔ میں سوچتا ہوں کہ یہ غلط ہے“۔

جتنا ہم بات کرتے گئے اتنا مجھے احساس ہوتا گیا کہ وہ اس مغربی شخص سے نفرت کرتا ہے جو وہ کبھی تھا۔ پارٹیز؟ ”میں اپنے کرکٹ کے دنوں میں ہی پارٹیوں سے بور ہو گیا تھا“۔ کرکٹ کے بارے میں کیا خیال ہے؟ ”جب میں نے ختم کی تو میں کبھی بھی دوبارہ نہیں کھیلنا چاہتا تھا“۔

وہ بتاتا ہے کہ اس نے خدا کو کیسے پایا۔ ”ایک صوفی تھا جس نے واقعی میری زندگی بدل ڈالی۔ میری زندگی ایسے گزر رہی تھی، میں کرکٹ کے بارے میں بات کر رہا ہوں، کہ میں ایک منزل تک پہنچتا اور سوچتا کہ یہ بہت بڑی بات ہے، مگر پھر سوچتا کہ نہیں کسی چیز کی کمی ہے۔ اور میں اس چیز کا سراغ نہیں لگا پایا کہ وہ کیا چیز ہے جو میں ڈھونڈ رہا ہوں۔ “

یہ وہ عمران خان ہے جس نے پچھلے مہینے غیر متوقع طور پر اپنی پچاس سالہ روحانی معالج بشری مانیکا کو رشتہ بھیجا۔ وہ عمران جس کے لئے ہمیشہ کوئی شے کھوئی رہتی ہے۔ ٹویٹر پر اس نے اپنے حامیوں کو کہا کہ ”دعا کریں کہ مجھے ذاتی خوشی مل جائے جس سے چند برسوں کے سوا میں ہمیشہ محروم ہی رہا“۔ اس اچانک، کچھ کے مطابق عاقبت نا اندیشانہ حرکت نے اس کے خیر خواہوں کو ہکا بکا کر دیا۔ اس حقیقت کے باوجود کہ بشری مانیکا نے ابھی تک سرعام اس تجویز پر ہاں نہیں کہی، اگر عمران جھوٹ نہیں بول رہا اور اس نے خفیہ شادی نہیں کر لی جیسا کہ بہت سے لوگ شبہ کر رہے ہیں۔

آپ کو کتنی مرتبہ محبت ہوئی ہے؟ ”اوہ، میرا خیال ہے کہ دو۔ ۔ ۔ میرا خیال ہے کہ میں یہ بال نہیں کھیلوں گا“۔

یہ وہ عمران ہے جسے اس کے پرانے دوست جانتے ہیں: جذباتی، متلاشی، یقین کرنے والا۔ حساس اور ادبی سماجی شخصیت نصرت  جمیل اس کی لاہور کی قدیم ترین دوست ہیں۔ جس عمران کو وہ جانتی ہیں وہ درختوں، جانوروں اور اپنی بہت مذہبی ماں سے بہت محبت کرتا ہے اور ان کو کینسر کی وجہ سے مرتے دیکھ کر ٹوٹ پھوٹ گیا تھا۔ ۔ ”ان کے اوپر ایک بہت بڑا سوالیہ نشان اور صراحت کی کمی ہے۔ ذاتی طور پر میرا خیال ہے کہ ابھی بہت زیادہ کنفیوژن ہے“۔

لیکن یہ کیسے ممکن ہے کہ مغرب مخالف مقبولیت پسند عمران اور پلے بوائے عمران ایک ہی شخص ہوں؟ ”وہ عقلی طور پر لبرل نہیں ہیں۔ ان کی بہت سی گرل فرینڈز ہوں گی مگر یہ بات انہیں لبرل نہیں بناتی ہے۔ وہ ایک ایسے شخص نہیں ہیں جو سیکولر معاشرے کی سوچ رکھتے ہیں، جو جمہوریت اور سیکولرازم کی سوچ رکھتے ہیں۔ بلکہ وہ مسلم انداز زندگی کی سوچ رکھتے ہیں۔ ایک مسلم طرز زندگی۔ اور ایسے ہی وہ اپنی زندگی گزارنا چاہتے ہیں۔ اور اسی طرح وہ ملک کو بھی چلانا چاہیں گے“۔

انٹرویو: بین جوڈاہ، دی ٹائمز، برطانیہ۔ ترجمہ ہم سب نیوز۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments