تماشا اُس گلی کا جہاں آزاد پھرتا تھا


کل کتاب میلہ پر ہی آغا صاحب سے طے پا گیا تھا کہ صبح گیارہ کے عمل میں ہم پاک ٹی ہاوس اکٹھے ہوں گے، وہاں سے اندرون لاہور اکبری منڈی یعنی بندہ آزاد مولوی محمد حسین آزاد کے مکان پر چلیں گے۔

آج صبح ذیشان کو ساتھ لے کر ہم وعدہ گاہ کی طرف نکلے۔ چونکہ شریفوں کی برکت سے لاہور تمام کھدا پڑا تھا اور مولویوں کی طاقت سے کشمیر آزاد ہو رہا تھا، سب رستے بند تھے مگر ہم کہاں تھمنے والے تھے۔ مال کے اوپر سے غوطہ کھا کر پاک ٹی ہاوس جا ہی نکلے جہاں آغا سلمان باقر ہیٹ نما ٹوپی اور اونی کوٹ پہنے کسی گیان میں کھڑے تھے۔ ہم اُن سے ایسے ملے جیسے آملے سینہ چاکانِ چمن سے سینہ چاک۔ اِس کے بعد روانہ ہوئے اکبری منڈی کی طرف مگر جیسا کہ عرض کر چکا ہوں موچی دروازے کے سامنے کشمیر کی آزادی کے سبب سڑکیں ہر طرف سے بند تھیں چنانچہ خدا جانتا ہے اور ہمیں یاد نہیں کہ کِن کِن تماشا گلیوں کو چکر دے کر اور وزیر مسجد کا پچھواڑہ لے کر آخر پہنچے وہیں پہ جہاں کے خمیر تھے یعنی آزاد بازار میں۔

ہم نے بتایا ہو گا اورآپ نے سُنا ہو گا کہ پہلے بھی یہاں سہ بار چہار بار آ چکے ہیں مگر آج آغا سلمان باقر صاحب خود ہمارے ساتھ تھے اور آپ کیا جانیں آغا صاحب کون ہیں؟ میاں یہ بیٹے ہیں پروفیسر آغا محمد باقر کے اور آغا باقر ہوئے آغا محمد ابراہیم کے بیٹے اور آغا ابراہیم بیٹے ہیں مولوی محمد حسین آزاد کے۔ یوں آغآ سلمان باقر صاحب سیدھے مولوی محمد حسین آزاد کے پڑپوتے ہوئے۔ پہلی سیروں میں اِس لیے پہلے وہ باتیں نہ کھُلی تھیں جن کی گرہیں آج کُھلیں۔ ہم سمجھے تھے کہ یہ مکان خود مولانا نے بنوایا تھا مگر آغا سلمان باقر صاحب نے آج بتایا کہ اِس مکان میں مولوی آزاد نے صرف عالم ِ جنون کے سال گزارے ہیں، اُن کی عالم ادراک کی عمر کرائے کے مکانوں میں اُٹھی تھی۔ مولوی صاحب کے بیٹے آغا ابراہیم نے یہ مکان بنوایا تھا اور ایک کنال رقبے پر محیط تھا۔ اِسی کے اندر ایک طرف وہ امام بارگاہ بھی تھی، جس کا ذکر سید ناصر نذیر فراق نے اپنے ایک مضمون میں کیا ہے کہ مولانا اُسی امام بارگاہ کے صحن میں بیٹھتے تھے جس سے ملحق وہ کمرہ ہے، جو مولانا کے لکھنے پڑھنے اور جینے مرنے کا سامان تھا۔ وہ کمرہ آج ہم نے دیکھا، اُسے بوسہ دیا۔ اِسی کمرے میں بیٹھ کے مولانا نے ابراہیم ذوق کے دیوان کا بے مثال پیش لفظ لکھا تھا جسے اگرچہ مولانا نے عالمِ جنوں میں لکھا مگر آج وہ پیش لفظ الہام معلوم ہوتا ہے۔ نہ جانے ابراہیم ذوق کا دیوان چھاپنے والے پبلشر مولانا کا وہ پیش لفظ قلم زد کیوں کر دیتے ہیں؟

مکان میں موجود امام بارگاہ اب نہیں رہی کہ مکان کے بِکنے سے بہت کچھ بدل گیا۔ مرکزی دروازہ، کہ جس کے کچھ آثار باقی ہیں، وہیں آغا ابراہیم کے ساتھ سید ناصر نذیر فراق ایک چوکی پر بیٹھ کے مولانا کے جنون کے بارے میں باتیں کرتے رہے تھے۔ ناصر نذیر فراق مولانا کے شاگرد دہلی سے خاص مولانا کو اُن کے عالمِ جنوں میں ملنے آتے تھے۔ مولانا کے کمرے کے دائیں ہاتھ سامنے کی طرف وہ کمرہ ہے جس میں تین سال تک ڈاکٹر محمد صادق رہے ہیں اور مفت رہے ہیں اور مولانا پر پی ایچ ڈی کی۔ مگر اپنے مقالے میں مولانا کے بارے میں بہت کچھ اول فول ایسا لکھ گئے کہ بعد میں اسلم فرخی صاحب نے اُسے دور کیا۔ وہ کمرہ اور اُس کا دروازہ اپنی اصلی حالت میں موجود ہے۔ مرکزی دروازہ درمیان سے کاٹ کر اب ایک پہلوان زادے نے وہاں اپنی دوکان کھول رکھی ہے۔ مگر اصل جگہ یہ دروازے کی ہے اور وہ دوکان زبردستی کی ہے۔ آغا صاحب نے بتایا کہ دروازے کو پہلوان سے آزاد کروانے میں چالیس سال تک عدالت میں کیس چلا مگر درواز آزاد ہو کے نہ دیا آخر تنگ آ کر کیس بند کیا۔ واہ میرے وطن کی عدالتو! تم پر آفرین ہے۔

ابھی ہم ڈیوڑھی میں کھڑے مولانا کا کمرہ دیکھ ہی رہے تھے کہ چبوترے سے ایک خاتون بی بی کی آواز آئی ، میاں کچھ کام ہے؟ ہم نے عرض کیا ، بی بی ہم مولانا محمد حسین آزاد کا گھر دیکھنے آئے ہیں، وہم نہ کیجیے، دیکھ کر چلے جائیں گے۔ اللہ بھلا کرے اُس بی بی کا ، کہنے لگی ، میاں چائے پیو گے۔ ہم نے کہا کیوں نہ پئیں گے؟ لیجیے صاحبو! تھوڑی دیر میں ایک نیک دل آدمی تین کپ چائے لے کر زینوں سے اُتر آئے۔ واللہ، ہم نے وہ چائے مولانا آزاد کی طرف سے سمجھ کے پی۔ دیکھیے کیسے مولانا نے تواضع کی ؟ ورنہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ایک غیر خاندان بی بی، جن کا مولانا سے دور دور کا تعلق نہ تھا اور نہ مولانا سے واقف تھی، ہمیں چائے بھیجتی۔ ایک تو یہ بی بی تھی کہ بغیر جان پہچان چائے بھیجتی ہے، دوسسرے ہمارے تحسین فراقی صاحب ہیں کہ مولانا آزاد کی صد سالہ برسی پر آغا سلمان باقر کی طرف سے پنجاب یونیورسٹی کے کلب میں مہمانوں کو دیے گئے کھانے کا بِل بھی وہ یونیورسٹی سے وصول کر گئے یعنی جس کھانے کے پیسے آغا سلمان باقر صاحب نبیرہ آزاد دے چکے تھے اُس کا بِل مکرر یونیورسٹی سے لے کر اپنی جیب میں ڈال گئے اور تو اور آغا صاحب کی طرف سے مسودوں اور سکینز کے لیے ادا ہوئی رقموں کے بلِ بھی اپنے کشکول میں اُلٹ لیے۔ یار یہ جماعتِ اسلامی کے مولوی جہاں بھی ہوں گے ایسی ہی حرکات سرزد ہوں گی۔ لو بھئی ہم بھی بہک کر کہاں نکل گئے۔ پاکباز انسانوں کا ذکر کرتے ادبی دلالوں کا قصہ لے بیٹھے۔

بر سرِ مطلب، ہم نے مولانا آزاد کے گھر میں بیٹھ کر آج گویا صدی پار کی چرخی کو گھمایا اور مولانا آزاد کا دیدار پایا۔ اینٹوں کو بوسے دیے، دہلیزوں کی جبہ سائی کی، اور دروازوں اور ڈیوڑھی کے لمس لیے۔ مولانا آپ نہ ہوتے تو کون قلم کے نور سے آبِ حیات کے چاندوں کو منور کرتا، کون میر و غالب و ذوق و انشا کے چہروں پر آبِ حیات کے چھینٹے مار کر اُنھیں حیاتِ دوام دیتا، کون خیال کی نیرنگیاں دکھاتا، کون دربارِ اکبری لگاتا اور کون سیرِ ایران کراتا۔ کون ہمیں نثر کا صدقہ عطا کرتا۔ دوستو ، کچھ نہ پوچھو وہاں چند لمحے بیٹھ کر دل کو کیسا سکون ملا۔ خدا شاہد ہے اُن کی روح وہیں تھی اور ہم سے باتیں کرتی تھی۔ غرض بعد چند ساعتوں کے ہم وہاں سے نکلے اور مولانا کے گھر کے پچھواڑے میں موجود مبارک حویلی کی دہلیز پر جبینیں رکھیں۔ یہی وہ حویلی ہے جہاں محرم کے دس دن مولانا سلام پڑھا کرتے تھے اور مجلس سنا کرتے تھے اور گریہ کیا کرتے تھے۔ یہ باتیں ہمیں آغآ سلمان باقر نے بتائیں اور اُن کو اُن کے والد صاحب نے کہیں۔ مبارک حویلی میں ٹھیکی نہ تھی، ہمارا سلام تھا۔

پھرکچھ دیر میں کشمیری بازار سے ہو کر سنہری مسجد پہنچے۔ مسجد کا حال کیا لکھیں کہ ایک نمونہ ہے تعمیر کا۔ ایک سنہری مسجد بیرم خاں کے تراہا پر دہلی میں بھی موجود ہے۔ ہم وہاں جا کر اُس کے صحن میں چند گھنٹے راحت فرما چکے ہیں اور اُس تراہے کو جی بھر کر دیکھ چکے ہیں، جہاں نادر شاہ نے کھڑے ہو کر دہلی کا قتلِ عام کیا تھا پھر محمد شاہ رنگیلا کی منت سماجت پر آرام کیا تھا۔ وہ یعنی دہلی کی سنہری مسجد اور لاہور اور آگرہ کی سنہری مسجدیں دراصل بیرم خاں کی جیبِ شاہی سے بنی ہیں مگر ہمارے قصہ گووں نے اِن کے بنانے والے عجیب عجیب لوگ پیدا کر دیے ہیں۔ اللہ تاریخ لکھنے والوں سے بچائے۔ غرض یہ کہ یہ مسجد دیکھنے کے لائق ہے۔ اے وہ دوستو، جو وزیر خاں مسجد، شاہی حمام اور دھیان سنگھ کی حویلی دیکھ کر لاہور کی سیر پوری سمجھ بیٹھتے ہو، سنو، سنہری مسجد دیکھے بغیر مت باہر نکلیو کہ اِس مسجد کا اندرون ایک کارخانہ قدرت ہے، آنکھیں رنگوں میں اور دل محرابوں اور ڈاٹوں میں کھو جاتے ہیں۔ ہائے یہاں بھی ملاوں نے اِس مسجد کا حلیہ لوہے کے ٹین ڈبوں اور الماریوں اور پنکھوں سے بگاڑ رکھا ہے۔ آغا جی اور ذیشان مسلسل تصویریں بناتے رہے اور ہم بنواتے رہے۔ ہم ایک بھی نہ بنا سکے کہ 2400 نوکیا فون اندھا ہوتا ہے، صرف سنتا ہے۔ یہاں سے ہو کر بازارِ حکیماں میں اُترے۔ ایک جگہ کھانا کھایا، دوسری جگہ چائے پی۔ اِسی دوران آغا جی نے ہمیں اپنی کتابیں عنایت کیں جنھیں ہم ہر صورت اور جلدی پڑھیں گے۔ کھانا اچھا تھا اور چائے بہت ہی اچھی تھی۔ جب آپ میرے ساتھ چلیں گے تو وہ چائے ضرور پلاوں گا اور مولانا کا گھر بھی دکھاوں گا ،سنہری مسجد میں نماز بھی پڑھواوں گا ، خود پڑھوں یا نہ پڑھوں۔ اے آغا سلمان باقر صاحب آپ زندہ رہیں، آج آپ نے خوش کر دیا اگرچہ آپ کے دوست تبسم کشمیری صاحب ہمیں ہمیشہ ناراض کرتے ہیں اور ہم سے لڑتے ہیں۔ لوہاری سے باہر نکلے، داتا صاحب کو دور سے سلام کیا ، کربلا گامے شاہ کو نزدیک سے اور واپس پہنچے اپنے مکان پر اور آتے ہی سو گئے، بعد دو گھنٹوں کے اٹھے، نہائے، پھر چائے بنائی، چائے پیتے جاتے تھے ، یہ تحریر لکھتے جاتے تھے۔ اب لکھ دی ہے اور برقی شیشے پر چڑھا دی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).