پختون قومی دھرنا:  آواز مو نہ راسیگی، دا سنگہ آزادی دہ؟


نقیب اللہ محسود کا خون قبائلیوں کے لیے اپنے سارے حساب یکبارگی بے باق کردینے کا وسیلہ بن گیا ے۔ تازہ صورت حال یہ ہے کہ راو انوار کسی گمنام سیارے پر دم سادھے  ہوئے ہیں اورشملہ بلند  پختون    دارالحکومت  میں بیٹھے ہرآتے جاتے کو مسکراکرسلام کررہے ہیں۔وزیرستان کے محسود قبیلے  میں بیٹھنے والے جرگے نے دھرنے کی صورت اختیار کرلی ہے اور ایک قبیلے کا احتجاج “آل پختون قومی جرگہ ” کا روپ دھار چکا ہے۔ ہزاروں پختونوں کو اسلام آباد میں ٹھنڈے آسمان کے نیچے بیٹھے آج پانچواں دن ہے۔ حکام کی بے حسی کو تو پندرھواں برس ہے مگر میزبانی کے آداب کو یکسر بھلائے پانچواں ہی دن ہے۔

اسی اسلام آباد  میں علامہ طاہرالقادری اور عمران خان کے دھرنوں کا مشاہدہ  ہم کرچکے ہیں۔علامہ خادم رضوی کا دھرنا دیکھنے پہ طبعیت آمادہ نہ ہوسکی، مگراس کے روحانی اثرات ہم   ٹریفک کی اذیت کی صورت میں بھگت چکے ہیں۔ساکنانِ شہر نے شکایت کی تو علامہ نے کہا ،تمہارا سکون اور تمہارے بچوں کا اسکول ہمارے مطالبات سے زیادہ اہم نہیں ہے۔پختون جرگے (دھرنے) کے لیے نکلا تو سوچ رہا تھا کہ بہت لمبارستہ پیدل طے کرنا  پڑے گا۔ سپر مارکیٹ کا نواحی علاقہ تو سارا بند ہوگا۔یہ دیکھ کر حیرت ہوئی کہ یہ دھرنا سرے سے سڑک پر ہوہی نہیں رہا۔ یہ تو اسلام آباد پریس کلب کے سامنے والے میدان میں ہورہا ہے۔ سٹیج کے عقب سے ہوتا ہوا دھرنے میں پہنچا تو شوکت وزیر کاترانہ فضاوں میں گونج رہا تھا۔پنڈال میں داخل ہوا تو ایک مجذوب نوجوان  بے خودی میں جھوم رہا تھا اور  ترانے کے  یہ بول  سماعتوں پر پڑرہے تھے

زنزیر رانہ اتاویگی
دا سنگہ آزادی دہ ؟
آواز مو نہ راسیگی
دا سنگہ آزادی دہ؟
زوانان مو قتل کیگی
دا سنگہ آزادی دہ ؟
کورونہ مو روانیگی
دا سنگہ آزادی دہ؟
پختون پکی غرقیگی
داسنگہ آزادی دہ ؟

زنجیر وں میں کس دیا ہمیں، یہ کیسی آزادی ہے۔ فریاد  ماری جا رہی ہے، یہ کیسی آزادی ہے۔ ہمیں لاشیں مل رہی  ہیں، یہ کیسی آزادی ہے۔ آنگن  اجڑ رہے ہیں ، یہ کیسی آزادی ہے۔  پختون کی سانسیں  ڈوب رہی ہے، یہ کیسی آزادی ہے۔

روح چیردینے والے ترانے پر مجذوب کا رقص دھول اڑارہا تھا۔میں مجذوب کی بے خودی میں محو یہ سوچ رہا تھا کہ کتنے ایام  کی گردشِ نے کتنے  درد سے گزار کر  اس کو یہ درجہ سونپا ہے۔ اس  کا دماغ اس کا ساتھ چھوڑ چکا ہے، یہ نہیں جانتا کہ میں کہاں ہوں،  مگر اس کواحساس ہے کہ یہ قافلہ درد کا ترجمان قافلہ ہے۔ چاک گریبان مجذوب کو دیکھ کر کبھی خیال کے پردے پر عنایت علی شاہ کا آستانہ سج جاتا ،جس میں بابا بلھے شاہ نچ کے یار منارہے ہیں ،کبھی خواجہ عثمان  ہارونی کا یہ شعر ابھرآتا

تو  آں قاتل کہ از بہر تماشہ خونِ من ریزی
من  آں بسمل کہ زیرِخنجرِ خونخوار می رقصم

دھرنے میں ایک جانب خیمہ لگا ہوا ہے جہاں محسود اور وزیر عمائدین و مشران ایک  وسیع دائرے میں جرگے کی صورت بیٹھے ہیں۔ فرق یہ ہے  کہ اس جرگے میں لب خاموش ہیں آنکھیں بول رہی ہیں۔ یہ چار دن سے اپنی روایت نبھانے یونہی بیٹھتے ہیں اور نہ آنے والے ذمہ داروں کی راہ تکتے ہیں۔ زمانے کی جھریاں چہرے پر لیے ایک مشر سے میں نے پوچھا، کیا کر رہے ہیں؟ کہنے لگے، حجت پوری کررہے ہیں۔ لوگوں کو چاہیے تھا کہ آکر ہماری خبر لیتے، مگر بہت انتظار کے بعد اب ہم آ گئے ہیں۔ کل کسی کو شکوہ نہ رہے کہ ہم دروازے پہ دستک دینے نہیں آئے تھے۔ میں نے کہا، آپ کے ان الفاظ کو میں دھمکی سمجھوں؟ ہنس کر بولے، میرے تو یہ الفاظ بھی آپ کو دھمکی لگیں گے، مگر جنہوں نے پارلیمنٹ کے دروازے توڑے پی ٹی وی کا گھیراو کیا ابھی پچھلے دنوں سارا شہر بند کرکے آپ کو گالیاں دیتے رہے ان سب کی راہوں میں تو سرکار بچھ گئی تھی۔

ابھی یہ بزرگ مشر بات کررہے تھے  کہ ساتھ ہی بیٹھے محسود قبیلے کے  سفید ریش مشر محمد اقبال  بول پڑے”اب تو ہمیں ایسا ہی محسوس  ہورہا ہے کہ  اگر ہم اچھے شہری ہونے کا مظاہرہ کرتے ہوئے یہاں میدان میں آکر نہ بیٹھتے تو آرمی چیف کے نمائندے حکومتی وزرا اور میڈیا ہمارے خیموں میں پہنچ چکے ہوتے۔ ہمیں یہاں مشورہ دیا جارہا  ہے کہ ہم بھی سڑکیں بلاک کردیں لیکن ہمیں پتہ ہے کہ یہاں ہمارے کسی بچے نے ایک چھوٹی سے غلطی بھی کردی تو حکام کو ہمارے خلاف کارروائی کا موقع مل جائے گا۔ پھر شاید آرمی چیف یہ بھی نہیں کہیں گے کہ لوگ ہم سے پیار کرتے ہیں ہم ان کے خلاف کارروائی کیوں کریں؟”

سپیکر پر گونجنے والی آفتاب خان شیرپاو کی  آواز سے  کان کے  پردے لرزرہے تھے۔ میں نے مشراقبال سے کہا، یہاں شور ہے کیا ہم  باہر جاکر بات کرسکتے ہیں؟ چھیاسٹھ سالہ اقبال محسود نے چادر کندھے پہ رکھی اٹھ کھڑے ہوئے۔ ہم پنڈال سے باہر آرہے تھے تو ہجوم میں ایک شور اٹھا۔ مجمع  شیرپاو صاحب کو کسی جملے پر باواز بلند ٹوک رہا تھا اور شیرپاو صاحب جملے کا معذرت خواہانہ دفاع کررہے تھے ۔ میں نے دھیان دیا تو پختونوں نے شیرپاو صاحب کے جملے”ہم آئندہ بھی قربانی دیں گے” پہ گرفت کی ہوئی  تھی۔ سارے پختون بیک آواز مسلسل نعرے لگارہے تھے ، ہم مزید قربانی نہیں دیں گے، نہیں دیں گے، نہیں دیں گے۔

مشر اقبال محسود نے مسکرا کر مجھ سے کہا “دیکھ رہے ہو پختونوں کی بیداری؟” میں مسکرایا تو بولے “اس اشرافیہ کو  اندازہ نہیں ہے کہ انہوں نے ہمیں نظر انداز کرکے کیا کھودیا ہے۔ افسوس تو یہ ہے کہ اس آخری موقع کا فائدہ بھی نہیں اٹھانا چاہتے”۔ میں نے مشر اقبال محسود سے پوچھا کہ آپ کے مطالبات کیا ہیں؟ کہنے لگے ہمارے مطالبات تو اتنے معصوم ہیں کہ ان کے لیے ہمیں یہاں آنے کی ضرورت ہی نہیں تھی۔  افسوس تو یہ ہے کہ یہاں آئے تو  ذمہ داروں اور میڈیا کی بے التفاتی سے اجنبیت کا احساس اور بھی گہرا ہوگیا۔ ہمارے تمام مطالبات کا خلاصہ ہی یہ ہے کہ ہم اپنی ہی سرزمین پر اجنبی ہیں، آخر کیوں؟  مجھے اپنے ہی گاوں جانے کے لیے شناختی کارڈ کے علاوہ ایک وطن کارڈ دکھانا پڑتا ہے، آخرکیوں؟اور جب یہ وطن کارڈ منسوخ کردیں میں اپنے ہی وطن نہیں جاسکتا، یہ کوئی انصاف ہے؟

مشر محمد اقبال محسود کا دکھ سن رہا تھا کہ پس منظر میں پشتو ترانہ پھرسے لہو گرمانے لگا تھا۔ اقبال محسود سے اجازت لی، انہوں نے قہوہ کی پیشکش کی، میں نے منع کیا اور چل دیا۔میں میڈیا کے لیے مختص مقام پر پہنچا۔ پنڈال کے باہر سڑک پر پانچ گاڑیاں کھڑی تھیں۔ قریب جاکر دیکھا تو احساس ہوا کہ یہ بھی شاید اس لیے موجود ہیں کہ کل کو قسم کھائی جاسکے کہ ہم دھرنے میں موجود تھے۔ نقیب محسود کے قتل پر آنے والے رد عمل سے لیکر اب تک کے اس دھرنے تک، ابلاغ کا ذریعہ صرف اور صرف سوشل میڈیارہا ہے۔ اسفندیار ولی خان اپنے قافلے کے ساتھ پہنچے تو میں نے ان کی آواز دوستوں تک پہنچانے کے لیے  فیس بک  لائیو کا بٹن دبادیا۔

اسرار نامی ایک نوجوان نے کندھے پہ ہاتھ رکھا، دیکھا تو مسکرا کر یوں گلے لگا جیسے برسوں کا شناسا ہو۔ اپنے موبائل کی اسکرین سامنے کرتے ہوئے معصومیت سے کہا “یہ دیکھیں میں آپ کی لائیو ویڈیو پر نظر آنے والے مقام کا پیچھا کرتا ہوا آپ تک پہنچاہوں”۔ خان ظفراللہ خان حضرتِ ید بیضا نے کہا، یہ نوجوان آدھے گھنٹے سے  تجھے ڈھونڈ رہا ہے۔اس نوجوان کا نام اسرار تھا۔ محسود قبیلے سے تعلق بتایا۔ میں نے ابھی اس سے کچھ بھی تو سوال نہیں کیا تھا، خود سے کہنے لگا”ہماری  مشکل یہ ہے کہ میڈیا کو ہمارے علاقوں تک رسائی نہیں دی جاتی، میڈیا نمائندے آتے  بھی ہیں تو ریاستی اداروں کے ہیلی کاپٹر میں آتے ہیں، جو انہیں ہم بتاتے ہیں وہ  آپ تک نہیں پہنچاتے، جو ہیلی کاپٹر والے بتاتے ہیں وہی کچھ پہنچارہے ہوتے ہیں، ہمارے پاس آخری ذریعہ سوشل میڈیا کا رہ جاتا ہے، اور اب سوشل میڈیا ایکٹیوسٹوں پر بھی نظر ہے، جو  فریاد کرتا نظرآئے اس کو وطن کارڈ منسوخ کرنے کی دھمکی دیتے ہیں، پچھلے دنوں میرا کارڈ منسوخ ہونے والا تھا، معافیاں مانگیں تو آخری موقع دیا گیا ، آپ کو پتہ ہے کہ اگر میرا وطن کارڈ منسوخ ہوجائے تو میں  اپنے گھر نہیں جاسکتا۔ایسے بہت سارے لوگ ہیں جن کے وطن کارڈ  وجہ بے وجہ منسوخ ہوگئے ہیں اور کراچی یا لاہور میں دربدر ہیں۔ لاہور جاتے ہیں تو پنجاب حکومت ان کی پروفائلنگ شروع کردیتی ہے  کراچی جاتے ہیں تو پولیس مقابلوں میں مارے جاتے ہیں “۔  اسرار کی آنکھیں اداس  تھیں مگر لب مسکرارہے تھے۔ ہنس ہنس کر وہ یہ داستان سنائے جارہا تھا اور  اقبال کا مصرع  سامنے آرہا تھا ،یہ بندہ وقت سے پہلے قیامت کر نہ دے برپا…

میری نظر پنڈال کے آخر میں کچھ بچوں پر پڑی۔ یہ حلیے سے دینی مدارس کے طلبا معلوم ہورہے تھے۔ میں ان کے پاس یہ جاننے کے لیے گیا کہ ازراہ تماشہ یہاں بیٹھے ہیں یا پھر سوچ سمجھ کر آئے ہیں۔ میں نے ایک بچے سے پوچھا پشتو جانتے ہو؟ اس نے ساتھ والے پراگندہ حال بچے کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر کہا، یہ جانتا ہے۔ میں بچے کو شور سے کچھ دورمشران کے خیمے میں لے گیا۔

اس بچے نے اپنی عمر تیرہ سال اور نام نسیم اللہ بتایا۔ پوچھنے پر بتایا کہ یہیں اسلام آباد میں ایک مدرسے میں پڑھتا ہوں۔ میں نے اس کا نام ڈائری میں لکھتے ہوئے کہا، تم چاہو تو میں تمہارا یہاں فرضی نام بھی نوٹ کرسکتا ہوں۔معصوم سی مسکراہٹ مسکراکر بولا، نام میرا ہی لکھ دیں مدرسے کا نام  البتہ  رہنے دیں۔ میں نے مدرسے کے نام پر خطِ تنسیخ پھیرتے ہوئے اس کا نام بھی نسیم اللہ کی جگہ رحیم اللہ کردیا۔ فورا کہا”نہیں نہیں، نسیم اللہ ٹھیک ہے نسیم اللہ لکھو”۔ میں نے اس سے صرف ایک سوال کیا، تمہیں کیا بات یہاں کھینچ لائی ہے؟ نسیم اللہ اپنے رومال میں ابھرے ہوئے ایک دھاگے سے کھیلتے ہوئے بتانے لگا “ہم تکلیف میں ہیں، بہت تکلیف میں ہیں، ہمارا طالبان سے کوئی تعلق نہیں ، مگر تھوڑا سا کوئی واقعہ ہوتا ہے ہمارے گھروں پہ چھاپے پڑجاتے ہیں، ہمارے ماں باپ بہن بھائی جو بھی ہاتھ آتے ہیں گھسیٹ کے لے جاتے ہیں، زور سے کوئی دروازہ بجاتا ہے ہم ڈرجاتے ہیں، ابھی جب میں مدرسے کی چھٹیوں پہ گیا تو یہی واقعہ ہوا، اچانک چھاپے شروع ہوگئے، ہماری امی صرف ایک پتیلا اور تھوڑے سے چاول اٹھاکر ہمیں گوؤرا نام کا ایک  پہاڑ ہے اس پر لے گئیں، امی پتھروں پہ تیز ہوا میں مشکل سے چاول ابالتی تھی، ہم کھاتے تھے، ہم تکلیف میں ہیں، اس لیے میں یہاں آیا ہوں، میں روزانہ شام کو مدرسے کی چھٹی کے بعد یہاں آوں گا”۔  نسیم بے تکان بولے جارہا تھا۔ دل درد سے کچھ ایسے بھر آیا کہ جی چاہا اس کے منہ پہ ہاتھ رکھ دوں کہ بس ۔  غالب کچھ بے طرح یاد آگئے

تیرے دل میں گر نہ تھا آشوب غم کا حوصلہ
تونے پھر کیوں کی تھی میری غمگساری ہائے ہائے

میں نسیم اللہ کی گفتگو سن کرسوچ رہا تھا کہ حالات نے اس بچے کو وقت سے پہلے کس قدر بالغ کردیا ہے۔ نسیم اللہ کمسن ہے، مگر اس کے لہجے میں پختگی ہے۔ اس کے رویے میں انتقام نہیں ہے،مگر تھمے ہوئے جذبات  بہت بڑے طوفان کا پیش خیمہ ضرور ہیں۔

نسیم اللہ اپنی بات کررہا تھا کہ مائک پر کسی ادھیڑ عمر ماں کی لرزتی ہوئی آواز گونجی۔ میں بے ساختہ نسیم کو چھوڑ کر خیمے سے باہر آیا۔ ایک خاتون شٹل کاک  برقعہ پہنے سٹیج پر فریاد کررہی تھی۔ “میں سوات سے ہوں۔ مدت سے کراچی میں رہتی ہوں۔غریب ہوں۔ میرے تین بیٹے پولیس مقابلے میں ماردیے گئے ہیں  اور دو بیٹے ابھی بھی  جیل میں ہیں۔ مجھے نیند نہیں آتی، میرا گھر ویران کردیا گیا ہے۔ تم سب میرے بیٹے ہو،تم سے ایک ہی فریاد ہے، میرے تین بیٹے ماردیے گئے ان کاتو  کچھ نہیں ہوسکتا مگر جو دو جیل میں بے گناہ پڑے ہیں وہ تو مجھے دلوادو، دلوا نہیں سکتے تو مجھ غریب کو ان سے ملوادو “۔   اس ماں کی فریاد نے مجمع پر ایساسکوت طاری کردیا کہ پختونوں کی  خوددار سسکیاں بھی واضح سنائی دے رہی تھیں۔

بولتے بولتے جب اس ماں کی آواز رندھ گئی تو یکایک مجمع کھڑا ہوگیا، نعرے بلند ہوئے “موری! چی تر سو ستا بچو تہ انصاف ملاو نہ شی مونگ ستا بچی دلتہ ناست یو”۔ ماں ! جب تک تمہیں  انصاف نہیں مل جاتا    ہم یہیں بیٹھے ہیں، ہم تمہارے بیٹے ہیں۔مجذوب جو کچھ دیر پہلے رقص کررہا تھا، چلاکر بولا “اے  لڑزیدلی ! ولی جاڑا کوی،مونگ دلتہ نور سہ کوو، خوتالہ راغلی یوکنہ”۔ اے دکھیاری! اک ذرا صبر،ہم یہاں کیا لینے آئے ہیں، تیرے دکھوں کا حساب ہی تو مانگنے  آئے  ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).