پانچ فروری یوم یکجہتی کشمیر ہے۔ یہ دن ہر سال آتا ہے


اور ماضی کی ان تمام ظلم و جبر کی داستانوں کی یاد تازہ کر جاتا ہے جو جنت نظیر کشمیر اور اس کی مظلوم عوام نے سہے ہیں۔ آج انسانیت کا درد رکھنے والے ہر بندے کی آنکھ نم ہوتی ہے۔ یہ صدیوں پہ پھیلا کیسا ظلم ہے جو ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا۔ مشرقی تیمور الگ ملک بن گیا، جنوبی سوڈان ملک بن گیا لیکن یہ کشمیر ہی ہے جہاں آج بھی انسانیت سسک رہی ہے۔ اور مقتدر بین الاقوامی اداروں کی نا اہلی اور ناکامی کی دُہائی دے رہی ہے۔ برصغیر 1857 کے بعد مکمل طور پہ انگریز تسلط میں چلا گیا تھا۔ لیکن ٹھیک 90 سال بعد بھارت اور پاکستان کو آزادی کی نعمت مل گئی۔ لیکن کشمیر 1846 میں انگریز غلامی سے 75 لاکھ میں ڈوگرہ راج کی غلامی میں ایسا گیا کہ آج تک مالک ہی بدلا ہے مملوک کی حالت میں بال برابر تبدیلی نہیں آئی۔ اوپر سے ظلم در ظلم یہ کہ ڈوگرہ راج انگریز سے بدتر مالک ثابت ہوا اور ہندو بنیے نے تو چنگیز خان اور ہٹلر کی روحوں کو تڑپا دیا ہوگا

آج کشمیر کا زرہ زرہ غلامی کی سیاہ وادیوں میں سسکتے ہوئے جدید دنیا کے دوہرے معیار کی دُہائی دیتے ہوئے کہہ رہا ہے کہ کشمیر تقسیم ہند کا نا مکمل ایجنڈا ہے۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ تمام جبر و استبداد کے باوجود یہ مکمل ہوکے رہے گا۔ آج بھارت کے اندر سے معتدل اور لبرل حلقے یہ آواز اٹھا رہے ہیں۔ ایک وقت آئے گا جب پاکستان اور بھارت کے شہری اپنے رہنماؤں کو مجبور کردیں گے کہ وہ ساٹھ سالہ دشمنیوں کو ختم کردیں۔ دنیا کی کوئی چیز بھی غیر مشروط طور پر اچھی نہیں ہوتی سوائے خیر سگالی کے جذبے کے۔

پاکستان میں بھی ہر سال5فروری کو پاکستان کی مختلف سیاسی پارٹیاں اور خودحکومت بھی کشمیری عوام کی تحریک آزادی سے اظہار یک جہتی کے لیے جلسے جلوس، ریلیاں اور دوسرے پروگرام تشکیل دیتی ہیں۔ اخبارات میں مضامین شائع ہوتے ہیں۔ ٹی وی پر دستاویزی فلمیں دکھائی جاتی ہیںاس روز جلسے جلوس سیمینارزکا انعقاد ہوتا ہے میلوں لمبی انسانی زنجیر بنائی جاتی ہے بھارتی بر بریت، سفاکانہ مظالم اور کشمیریوں کے بہیمانہ قتل و غارت گری کے خلاف قرا ر دادیں منظور کی جاتی ہیں جوبس صفحات تک ہی رہتی ہیں

اگر ہم تاریخ کا بغور مطالع کریں تو پتا چلتا ہے کہ ہندوستان اور پاکستان کے درمیان روز اول سے پائی جانے والی تلخی کی اہم وجہ کشمیر ہے۔ ان دونوں ملکوں کے درمیان کشمیر کے سلسلے میں تین باقاعدہ جنگیں لڑی جاچکی ہیں۔ بے قاعدہ جنگیں ہرروز سرحد پر فائرنگ کی شکل میں ہوتی ہے۔ اسی مسئلہ کشمیر کی وجہ سے دونوں ممالک کے درمیان ہتھیاروں کی دو ڑلگی ہوئی ہے۔ بنیادی طورپر اسی مسئلہ کے باعث دونوں ملک ایک دوسرے کے خلاف ہائی ٹیک ہتھیاروں کا انبار جمع کرتا چلا جارہا ہیں۔ انہیں خطرناک ہتھیاروں کے سبب اس خطے کے دیڑھ ارب باشندوں کی زندگی بھی خطرے میں ہے۔

پاکستان کی نظر میں کشمیر اس کے لئے شہ رگ کی حیثیت رکھتا ہے تو ہندوستان اسے اپنا اٹوٹ انگ قرار دیتا ہے۔ مسئلہ کشمیر عالمی سطح پر اتنا مشہور ہوچکا ہے کہ جب کسی ناممکن مسئلہ کے حل کی بات کی جاتی ہے تو اس وقت اسے مسئلہ کشمیر کہ کر ٹال دیا جاتا ہے مطلب یہ کہ اس کا حل کبھی بھی نہیں ہوسکتا ہے۔ پاکستان کے سیاسی گلیاروں میں سب سے اہم کشمیر کا ایشو مانا جاتا ہے۔ اقتدار تک رسائی حاصل کرنے میں وہ پارٹی زیادہ کامیاب ہوتی ہے جو ان کے گمان کے مطابق کشمیر کو ہندوستان سے آزاد کرانے کے لئے سب سے زیادہ پرعزم ہوتی ہے اور عوام سے یہ وعدہ کرتی ہے کہ کشمیر کے مسئلہ پر کسی بھی صورت میں ہندوستان کے ساتھ سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا۔ کشمیر کو ہندوستان سے آزادکرانے کی ہرممکن کوشش کی جائے گی۔ دوسرے لفظوں میں پاکستان کی سیاست کا اصل ایجنڈا مسئلہ کشمیر ہوتا ہے۔ وہ لیڈرا تناہی زیادہ مقبول ہوتا جو مسئلہ کشمیر اورہندوستان کے خلاف جتنازیادہ بولتا ہے۔

ایسا بھی نہیں ہے کہ مسئلہ کشمیر کو حل کرنے کی کوسش نہیں کی گی مسئلہ کشمیر کے حل کی بارہا کوششیں کئی گئی ہیں لیکن کبھی بھی کامیابی نہیں ملی ہے۔ پاکستان اس مسئلے کا حل اقوام متحدہ میں چاہتا ہے جب کہ ہندوستان چاہتا ہے کہ یہ ہندوستان اور پاکستان کا آپسی مسئلہ ہے اس میں کسی دوسرے کو مداخلت کا موقع دیے بغیر دونوں ملکوں کو آپس میں مل کر مذاکرات کے ذریعہ حل کرنا چاہیے۔ ہندوستان اس لئے بھی اس مسئلے کو اقوام متحدہ میں نہیں چھیڑنا چاہتا ہے کہ 2 جولائی 1972 میں پاکستان نے اس مسئلہ کو اقوام متحدہ میں لے جائے بغیر آپس میں مل کر حل کرنے پر اتفاق کیا تھاجو شملہ معاہدہ کے نام سے جانا جاتا ہے۔

۔ پاکستان کا یہ دعوی ہے کہ قرارداد پاکستان 1948 اور اقوام متحدہ کشمیر کمیشن برائے ہندوپاک مجریہ 31 اگست 1948 اور جنوری 1949 کے تحت مذکورہ کونسل کی نگرانی میں ہونے والی رائے شماری کے ذریعہ تمام جموں وکشمیر کے پاکستان کے ساتھ الحاق کی حمایت کرتا ہے۔ لیکن ہندوستان نے کونسل کی قرارداد کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اس پر فوجی طاقت کے ذریعہ غاصبانہ قبضہ کررکھا ہے۔ جبکہ ہندوستان کا کہنا ہے کشمیر ہندوستان کا اٹوٹ حصہ ہے۔ کشمیر پر جب پڑوسی ملک سے قبائلیوں نے حملہ کیا تھا تو اس وقت کے یہاں کے راجہ مہاراجہ ہری سنگھ نے ہندوستان سے مدد طلب کی تھی اور اس کے بعد مکمل طور پر ہندوستان کے ساتھ انہوں نے ریاست جموں وکشمیر کا الحاق کرلیا تھا
۔
ایک بات ہم کو ذھن میں رکھنی ہی ہو گی کے جنگیں کبی امن اورترقی نہیں لاتیں دونوں ملکوں کی ترقی اور امن وسلامی کے فروغ کے لئے مسئلہ کشمیر کا حل ضروری ہے۔ کشمیری عوام بھی اس مسئلہ کا حل چاہتی ہے۔ بارہا مذاکرات کی اسٹیج بھی سجائی گئی ہیں۔ لیکن کبھی بھی کامیابی نہیں ملی ہے اور نہ شاید آئندہ کبھی اس مسئلے کاحل ہوپائے گا اور کسی طرح کی کوئی کامیابی مل سکے گی کیوں کہ کشمیر اگر پاکستان کا شہ رگ ہے تو ہندوستان کا اٹوٹ حصہ ہے۔ پاکستان اپنے شہ رگ کو کاٹنا گوارا نہیں کرے گا اور ہندوستان کبھی بھی اپنے اٹوٹ حصہ کو بطور تحفہ پاکستان کو دے کر اس سے دستبردار ہونے کی حماقت نہیں کرے گا

کشمیر کا مسئلہ پاکستان اور بھارت کے درمیان کوئی معمولی سرحدی تنازع نہیں۔ ایک کروڑ بیس لاکھ انسانوں کی زندگی اور موت کا مسئلہ ہے۔ مسئلہ کشمیر کو بین الاقوامی سطح پر اجاگر کرنے کےلئے اور کشمیریوں کو ان کا حق خودارادیت دلانے کے لئے جس طرح کوسشیں کی جانی چاہیں تھیں وسای کی نہیں گیں
۔
مسئلہ کشمیر کور ایشو ہے جس سے دونوں ممالک کے درمیان بہتر تعلقات پر منفی ا ثرات مربت ہورہے ہیں دونوں ملکوں کو دیگر معاملات کی جانب بڑھنے سے قبل جموںو کشمیر جیسے بنیادی مسائل کا فیصلہ کرنا چاہیے جبکہ دونوں ممالک کے درمیان بات چیت کا عمل جب تک بحال نہیں ہوتا تب تک خلا ختم ہو نا ناممکن ہے

سمیع احمد کلیا

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سمیع احمد کلیا

سمیع احمد کلیا پولیٹیکل سائنس میں گورنمنٹ کالج یونیورسٹی، لاہور سے ماسٹرز، قائد اعظم لاء کالج، لاہور سے ایل ایل بی اور سابق لیکچرر پولیٹیکل سائنس۔ اب پنجاب پولیس میں خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔

sami-ahmad-kalya has 40 posts and counting.See all posts by sami-ahmad-kalya