واقعی ایسی سیاست سے تو خودکشی بہتر ہے


عمران خان نے برطانوی جریدے ٹائمز کو انٹرویو دیتے ہوئے پاکستانی اور برطانوی سیاست کا تقابل کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایسی سیاست سے تو خودکشی کرنا بہتر ہے۔ عمران خان سے لاکھ اختلافات سہی، مگر ان کی حق گوئی کی تعریف ان کے بدترین مخالف بھی کرتے ہیں۔ سچ بولتے ہوئے وہ سوچتے نہیں ہیں۔

عمران خان نے کہا ہے کہ ”برطانوی سیاست بالکل بورنگ سیاست ہے۔ اگر مجھے برطانوی سیاست میں شامل ہونا پڑ جاتا تو میں میں دو ماہ میں ہی خودکشی کر لیتا“۔ واقعی، یہ برطانوی سیاست بھی کوئی شے ہے۔ اصل چیز تو پاکستانی سیاست ہے۔ اسی لئے خان صاحب نے اس کی تعریف کرتے ہوئے کہا ہے کہ ”پاکستانی سیاست، یہ کتنی پرجوش کر دینے والی سیاست ہے“۔

کہاں برطانیہ کی مردہ سیاست اور کہاں پاکستان کی ولولہ انگیز اور پرجوش سیاست۔ ادھر برطانیہ میں تو کوئی سیاستدان جھوٹ بولتا پکڑا جائے تو اسے ووٹر بھگا دیتے ہیں۔ کسی پر کرپشن کا الزام بھی لگ جائے تو اس کا سیاسی کیرئیر لپیٹ دیا جاتا ہے۔ کوئی سیاستدان کسی جنسی سکینڈل کی زد میں آ جائے تو یہ اس کے سیاسی کیرئیر کا خاتمہ ہوتا ہے۔ کوئی اپنے سیاسی مخالف پر بغیر ثبوت کے الزام لگا دے تو وہ عدالت کے ہاتھوں سزا پا لیتا ہے۔

نہ ادھر ذات برادری کی بنیاد پر ووٹ ملتا ہے۔ نہ سرکاری وسائل پر نا اہل افراد عیاشی کرتے پھرتے ہیں۔ نہ ہی اپنے اعزا و اقارب اور حلقے کے ووٹروں کو کوٹے پر ملازمت دلائی جا سکتی ہے۔ نہ ہی پروٹوکول کے لمبے لمبے قافلے ہوتے ہیں جو ہٹو بچو چلاتے اور سائرن بجاتے خلق خدا کو دور دھکیلتے پھرتے ہیں۔ نہ لیڈر کے لئے سارے شہر کو بند کر کے اس کا راستہ صاف کیا جاتا ہے۔ حتی کہ لیڈر کو اس بات پر بھی مجبور کیا جاتا ہے کہ اپنے ذرائع آمدنی اور اثاثہ جات کی درست تفصیل بھی دے۔ اور آپ کو یقین نہیں آئے گا کہ لیڈر سے ٹیکس دینے کا مطالبہ بھی کیا جاتا ہے اور ٹیکس نہ دینے والے کو جیل میں پھینک دیتے ہیں۔ کرپشن کرنے کو وہ جرم سمجھتے ہیں اور اس کے ذریعے الیکشن کے اخراجات پورے کرنے سے روکتے ہیں۔

برطانیہ کی سیاست میں یہ رواج بھی ہے کہ دوسرے کی برائی کرنے کی بجائے اپنی کارکردگی کا حساب دینا پڑتا ہے۔ نہ ادھر بریانی کی پلیٹ پر ووٹ ملتا ہے اور نہ قیمے والے نان پر، بلکہ عموماً منشور کی بنیاد پر ووٹ دیا جاتا ہے۔ جماعت بدلنے والے لیڈروں کو بھی اچھا نہیں سمجھا جاتا حالانکہ اگر کسی نمائندے کو اچانک حق کی روشنی دکھائی دینے لگے اور وہ اس دور کی صاف ستھری جماعت میں شامل ہو جائے تو اس پر روک ٹوک نہیں ہونی چاہیے۔

سب سے بڑا ظلم یہ کہ برطانیہ کو اہم لیڈروں کی قدر ہی نہیں ہے جو کہ قوم اور پارٹی کے لئے ناگزیر ہوتے ہیں۔ وہاں کی سیاست میں پارٹیاں شخصیات پر نہیں چلتیں بلکہ شخصیات پارٹی پر چلتی ہیں۔ اسی وجہ سے لیبر الف بے جیم یا ریپبلکن نون میم قاف نامی پارٹیوں کا وجود نہیں ہوتا۔ ادھر کوئی بھی شخص کسی پارٹی کے لئے ناگزیر نہیں ہوتا۔ اس لئے وہ بیس تیس سال یا تادم موت پارٹی کی سربراہی پر براجمان نہیں رہ سکتا بلکہ ایک دو ٹرم کے لئے پارٹی کی سربراہی پر فائز رہنے کے بعد فارغ کر دیا جاتا ہے۔ ظالموں نے پارٹیوں کے متعلق ایسے ایسے قوانین بنا ڈالے ہیں کہ قوم کے لئے ساری عمر سیاست میں جھونک دینے والے لیڈروں کی قربانیوں کی کوئی قدر ہی نہیں ہے۔

لیڈر بھی وہ عجیب بیہودے طریقے سے منتخب کرتے ہیں۔ ایسا نہیں ہوتا کہ موجودہ لیڈر کے بچے یا کسی میچ جتانے والے قومی ہیرو کو لیڈر بنا کر سیدھا وزیراعظم کی کرسی پر بٹھا دیں۔ ان کا نمائندہ پہلے پارٹی کا کارکن بنتا ہے، کونسلر بنتا ہے، رفتہ رفتہ بیس تیس برس بعد وہ اس قابل ہوتا ہے کہ پارٹی کے دیگر کارکن اسے پارٹی کی قیادت سونپیں۔ بھلا یہ بھی کوئی طریقہ ہے؟ ناانصافی کی انتہا ہے کہ وہ سیاسی جماعتوں میں شفاف اندرونی انتخابات کا مطالبہ بھی کرتے ہیں۔ پارٹی کے ٹکٹ بیچنا بھی غیر قانونی سمجھتے ہیں۔

پارلیمنٹ کے لئے منتخب کردہ نمائندے کو یہ حق بھی نہیں ہوتا کہ اپنے علاقے میں نالیاں پکی کروا دے یا سڑکیں بنوا دے۔ یہ کام وہ مقامی کونسلر سے کروا لیتے ہیں۔ نہ ہی نمائندے کو یہ حق ہوتا ہے کہ اپنے ووٹر کو تھانے سے چھڑا لائے خواہ اس نے قتل ہی کیوں نہ کیا ہو۔ برطانوی سیاست میں تو یہ توقع کی جاتی ہے کہ ممبر پارلیمان صرف قانون سازی کرے گا اور حکومت میں ہو تو کارکردگی دکھائے گا ورنہ حکومت کی کارکردگی پر نظر رکھے گا۔

عمران خان درست کہتے ہیں۔ ایسی بورنگ سیاست سے تو واقعی خودکشی بہتر ہے۔ کسی صف اول کے پاکستانی لیڈر کو ایسی سیاست کرنی پڑ جائے تو وہ واقعی دو ماہ سے بھی پہلے خودکشی کرنے پر مجبور ہو جائے گا۔

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar