عطا الحق قاسمی، پبلو نرودا اور مرشدی وجاہت مسعود


پاکستان ٹیلے ویژن کارپوریشن؛ پی ٹی وی کے سنہرے دور کے بارے میں کیا لکھا جائے! یہ بچوں کی واحد تفریح گاہ، ماؤں کی اولین دل چسپی، بوڑھوں کا بڑھاپے کا سہارا ہی نہیں تھا؛ بل کہ پی ٹی وی غریبوں کی جوانی کے عیش کا دوسرا سامان بھی تھا؛ اُن کے عیش کا ’پہلا سروسامان‘ کیا تھا یا ہے، اس بارے میں راوی خاموش ہے۔ ایسا دور کہ نشریاتی رابطہ ٹوٹنے پر ٹی وی اسکرین پر ’انتظار فرمائیے‘ کی تختی کو دیکھ کر کئی کئی منٹ گزارے جاتے تھے۔ اس وقت اس کارپوریشن کے کسی سیلزمین کو ایسا خیال نہیں آیا، ورنہ یہ ’انتظار فرمائیے‘ کا کارڈ بھی اسپانسر ہوتا۔

پی ٹی وی کی تاریخ سمجھنے کے لیے اسے تین ادوار میں بانٹ کر دیکھتے ہیں۔ پہلا دور جب پی ٹی وی سینٹرز کے تیار کیے پروگرام اسی نشریاتی ادارے سے نشر کیے جاتے تھے۔ دوسرا دور جب نجی شعبے کے لیے دروازے کھولے گئے، پروگرام پروڈکشن میں نجی شعبے کی حصہ داری ہوئی، اور تیسرا یہ حالیہ دور جب دیگر نجی ٹی وی چینل سے مسابقت کی فضا ہے۔

پہلا دور پی ٹی وی کا سنہرا دور کہلاتا ہے۔ یہ کیسا سنہرا دور تھا، ایسا ہی جیسے محلے میں ایک ہی کریانہ اسٹور ہو، اور وہی نمبر ون کہلائے۔ ایسے میں مقابلے کاہے کا! پی ٹی وی کا ہزار بار شکریہ کہ محلے کے واحد کریانہ اسٹور ہوتے ہوئے اس نے معیاری پروگرام پیش کیے۔ پاکستان ریل ویز ہو، واپڈا، اسٹیل ملز، سوئی گیس کارپوریشن، یا کوئی اور ادارہ؛ ان کا مقابلہ اپنے آپ ہی سے ہے، کیوں کہ ان کے مقابلے میں ان جیسی خدمات پیش کرنے والا کوئی اور ادارہ نہیں۔ پی آئی اے، پی ٹی سی ایل تب تک ’نمبر ون‘ تھے، جب تک نجی شعبے کو لائسینس نہیں جاری کیے گئے۔ بس یہی داستان پی ٹی وی کے سنہرے دور کی ہے۔

پی ٹی وی کا دوسرا دور بھی اس کی مناپلی کا دور رہا؛ نجی سیکٹر میں تیار کئے گئے پروگرام کے پروڈیوسر، بہ ہر حال پی ٹی وی کے محتاج تھے، کہ ملک میں دیگر نشریاتی ادارے ہی کب تھے؛ جہاں‌ وہ اپنا تیار کردہ پروگرام پیش کرتے۔ ایک این ٹی ایم تھا، جو اپنی پالیسی میں ویسے آزاد نہیں تھا، جیسا کہ آج کل کے نجی ٹیلے ویژن چینل ہیں۔ اس دوسرے دور سے ذرا پہلے، پی ٹی وی مالی لحاظ سے کہاں‌ کھڑا تھا، اسے سمجھنا ہو، تو یوں‌ سمجھیے کہ پاکستان ٹیلے ویژن کارپوریشن کی عمارت رہن رکھ کے اسٹیٹ بنک سے قرض لیا گیا تھا۔ نجی سیکٹر کو ’ٹائم سلاٹ‘ بیچ کے گروی عمارت تو چھڑوالی گئی، لیکن پی ٹی وی کی پہچان، یعنی ٹی وی ’ڈراما‘ کے تابوت میں ایک کیل گڑگیا۔ پی ٹی وی کے ٹیکنیشنوں، پی ٹی وی کے پروڈیوسروں نے نجی سیکٹر میں چوری چھپے کام کرنا شروع کردیا، اس لیے بھی کہ نجی شعبے کے پاس سرمایہ تو تھا، ہنرمند نہیں تھے۔ آخر میں پرائیویٹ چینل کی بہار نے پی ٹی وی کے ’ہنرمندوں‘ کا رہا سہا پول بھی کھول کے رکھ دیا۔

دُنیا بھر میں یہ دستور ہے، کہ ناظرین اس چینل کو سوئچ کرتے ہیں، جہاں ان کی دل چسپی کے پروگرام دکھائے جاتے ہوں۔ اشتہاری ادارے وہیں اشتہار دیتے ہیں، جہاں ناظرین کی نگاہیں جمی ہوں۔ یہ سیدھا سا فارمولا ہے، کوئی راکٹ سائنس نہیں۔ نجی شعبے کے چینل آنے سے یہی نہیں ہوا کہ سیٹھ کی تجوری بھری ہو؛ ٹیکنیشنوں سے لے کرکے، فن کاروں تک کے معاوضوں میں اضافہ ہوا۔ کل کے اداکار شوقیہ فن کار کہلاتے تھے، کہ پی ٹی وی کے معاوضے سے کچن چلانا ممکن نہ تھا۔ آج کے اداکار بارہ گھنٹے کام کرتے ہیں، اس کے بعد کچھ اور کرنے کے لائق ہی کہاں رہ جاتے ہیں۔ پی ٹی وی نیوز کا الگ سے وجود نہ تھا۔ ’سنہرے دور‘ میں پی ٹی وی کا نیوز کاسٹر بھی پہچانا جاتا تھا، کرنٹ افیئر کے پروگرام تھے بھی، تو خال خال۔ آج نیوز چینل کے پروگرام اینکر تن خواہ کی مد میں اداکاروں سے کہیں زیادہ کمالیتے ہیں، اور مقبولیت کا یہ عالم ہے کہ شہرت کے تمنائی اداکاری کے بجائے ’اینکری‘ کو ترجیح دیں۔

ان حالات میں جب ایک طرف ’سیٹھ‘ ہے، جسے ہر حال میں کمائی سے غرض ہو، اسے پیشہ ورانہ اخلاقیات بے معنی لگتی ہوں؛ ایسے میں پی ٹی وی جیسے سرکاری ادارے کی ذمہ داری اور بھی بڑھ جاتی ہے، مگر ہوا کیا کہ پی ٹی وی نے پرائیویٹ چینل کی نقالی میں اپنی چال بھی بھلادی۔ حکومت فوجی آمر کی ہو، اصلی جمہوریت، یا لولی لنگڑی جمہوریت کے نام پر وجود میں آئی ہو؛ حکمرانوں کا وتیرہ ایک سا ہے؛ شہنشاہیت۔ سرکاری ادارے یونھی سفید ہاتھی نہیں بن چکے؛ کوئی بھی سیاسی جماعت برسراقتدار ہو، اپنے حامیوں کو نوازنے کے لیے انھیں سرکاری اداروں میں کھپاتی ہے۔ یوں میرٹ کے نام پر میرٹ کی دھجیاں بکھیری جاتی ہیں۔ ذہن نشین رہے پی ٹی وی بھی ایک سرکای ادارہ ہے۔ پاکستان مسلم لیگ قاف ہو، کہ پاکستان پیپلز پارٹی، ایم کیو ایم، تحریک انصاف، ٹانگا پارٹیاں، یا پاکستان مسلم لیگ نون؛ بہتی گنگا سے ہاتھ دھونے والوں میں سے کوئی بھی کم نہیں نکلا۔

چھوڑئیے یہ بے کار سی باتیں ہیں۔ ان دنوں پی ٹی وی کے سابق چیئرمین عطا الحق قاسمی کے ’سنہرے دور‘ کا چرچا ہے۔ چرچے پہ تو سابق ایم ڈی پی ٹی وی محمد مالک کا بھی حق ہے، لیکن حق یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا۔ ہمارے یہاں چلن یہ ہے کہ ہم کسی کے ’مآل‘ سے موازنہ کرتے ہیں۔ کون کتنی تنخواہ چھوڑ کے کس سیاسی جماعت میں راہ خدا اپنی خدمات پیش کررہا ہے؛ کون کس ادارے سے کیا وصول کرتا ہے۔ ہم سب یہ تسلیم کرچکے ہیں، کہ جو جتنا خوش حال ہے، یا یوں کہیے جو ہم سے زیادہ کماتا ہے، وہ بدعنوان ہے، گویا ہم میں قابلیت کی کوئی کمی نہیں، ہمارا جرم یہ ہے کہ ہم ایمان دار ہیں، اس لیے دوڑ میں پیچھے رہ گئے ہیں۔ اب کسی کامران کو ہیچ مدان ثابت کرنے کے لیے اتنا کہنا کافی ہوتا ہے، کہ اس کی کام یابی اس کی محنت کا ثمر نہیں، بے ایمانی کی، چاپلوسی کی کمائی ہے۔ اسی قسم کی نفسیاتی پیچیدگیوں کے حامل ناقدین، حال ہی میں سابق ہونے والے چیئرمین پی ٹی وی عطا الحق قاسمی پر ان کی ماہانہ آمدن و اخراجات کو لے کرکے تنقید کرتے ہیں۔

جلال الدین اکبر کے نورتنوں کے کیا کہنے، اس حکومت کے نو سو ہزار رتنوں میں سے ایک عطا الحق قاسمی بھی ہیں؛ درباری وظیفہ نہ لکھیے تو سرکاری وظیفہ کہیے؛ کیا تھا کتنا تھا، یہ سوال اہم نہیں۔ سوال یہ ہونا چاہیے کہ ان کے دور میں پی ٹی وی کارپوریشن کی کارکردگی کیا رہی؟ یہ کہ دیا جائے کہ کارپوریشن پہلے سے خسارے میں تھی، اس خسارے کی کی کمی کو دور کرنے کے لیے کیا کوشش کی گئی؟ پی ٹی وی کے ’سنہرے دور‘ جیسی پروگرامنگ کے لیے کیا اقدام کیے گئے؟ الخ۔

ڈرامے کے طالب علم کے طور پہ مجھے یہ کہنے میں کوئی باک نہیں کہ منو بھائی اور عطا الحق قاسمی جیسے تمثیل نگاروں کے حقیقت سے قریب ترین کردار شاید ہی کسی اور مصنف نے تخلیق کیے ہوں۔ عطا الحق قاسمی کا ’خواجہ اینڈ سن‘، اور ’شب دیگ‘ اپنی مثال آپ ہیں۔ ’عطا الحق قاسمی ایک تمثیل نگار‘، اس تعارف سے میں ان کا زبردست مداح ہوں۔ ’عطا الحق قاسمی چیئرمین پی ٹی وی‘، میری نظر میں اس حوالے سے ان کی کارکردگی مایوس کن رہی، خواہ انھوں نے مفت کام کیا ہو۔

یہاں تک سب ٹھیک ہے، کہ سرکاری اداروں کے مقدر میں اپنے وقت کے جلال الدین اکبر کے نورتن ہی نصیب ہیں۔ یہ عبرت کی جا ہے، حیرت کا مقام نہیں۔ عطا الحق قاسمی کی شناخت قلم ہے؛ انھوں نے جو لکھا وہ اخباری کالم ہو، کہ ٹیلے ویژن ڈراما، شاعری یا نثر پارہ؛ ادب میں ان کا مقام طے کرنے کے لیے بہت ہے یا نہیں، اس کا فیصلہ ہوتا رہے گا؛ میں قیاس کرسکتا ہوں کہ اردو پڑھنے والوں میں انھیں یاد رکھا جائے گا۔

وجاہت مسعود کالم نگاری میں اپنی پہچان رکھتے ہیں، خیال اور الفاظ کی یک جائی سے ایسے ایسے نقش بناتے ہیں، کہ قاری عمارت کے پیچ و خم سے نہ نکلے۔ حق گوئی وجاہت مسعود کا وصف ہے۔ انھوں نے عطا الحق قسمی کو پبلو نرودا سے تشبیہہ دی ہے۔ سانچ کو آنچ نہیں؛ سانچ یہ ہے کہ میں عطا الحق قاسمی سے تھوڑا تھوڑا واقف ہوں، لیکن پبلو نرودا کو بالکل نہیں جانتا؛ میرے لیے یہ نام اجنبی سا ہے۔ یہ صاحب کون تھے، اور کس سیاسی جماعت کے دور میں پی ٹی وی کے چیئرمین کی حیثیت سے کام کرتے رہے، میرے لیے یقین سے کچھ کہنا بہت مشکل ہے!

مرشدی وجاہت مسعود کا کالم پڑھ کے، یقینا نرودا صاحب اپنی قسمت پہ ناز کرتے ہوں گے۔ میری نرودا صاحب سے گزارش ہے، کہ انھیں آیندہ انتخابات کے نتیجے میں بننے والی حکومت کی طرف سے اگر پی ٹی وی کے چیئرمین بننے کی پیش کش ہو، تو خدارا ہر روز خود ہی ٹی وی اسکرین پہ نمودار ہونے کے بجائے، پی ٹی وی کی حالت زار کو بہ تر بنانے کی طرف دھیان دیں۔ یہ نہ ہو مرشدی وجاہت مسعود نے جس مرد آہن سے امید لگائی ہے، اس کی ناکامی ہمیں وجاہت مسعود سے بدظن کردے۔ رہے نام مولا کا۔

ظفر عمران

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ظفر عمران

ظفر عمران کو فنون لطیفہ سے شغف ہے۔ خطاطی، فوٹو گرافی، ظروف سازی، زرگری کرتے ٹیلی ویژن پروگرام پروڈکشن میں پڑاؤ ڈالا۔ ٹیلی ویژن کے لیے لکھتے ہیں۔ ہدایت کار ہیں پروڈیوسر ہیں۔ کچھ عرصہ نیوز چینل پر پروگرام پروڈیوسر کے طور پہ کام کیا لیکن مزاج سے لگا نہیں کھایا، تو انٹرٹینمنٹ میں واپسی ہوئی۔ آج کل اسکرین پلے رائٹنگ اور پروگرام پروڈکشن کی (آن لائن اسکول) تربیت دیتے ہیں۔ کہتے ہیں، سب کاموں میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا پڑا تو قلم سے رشتہ جوڑے رکھوں گا۔

zeffer-imran has 323 posts and counting.See all posts by zeffer-imran