قاتل شاہ رخ جتوئی سے اب ہمدردی کیوں؟


شاہ رخ جتوئی سے ہمدردی کے حوالے سے ایک بلاگ سہیل میمن صاحب نے ”ہم سب“ پر لکھا ہے جس کا عنوان ہے ”اب مجھے شاہ رخ جتوئی سے ہمدردی ہونے لگی ہے“ اس مضمون میں میمن صاحب نے کچھ تجاویز اور کچھ اپنے مشاہدات بیان کیے ہیں جن کا جواب دینا بہت ضروری ہے۔ کچھ عرصے سے سندھ کے کچھ حلقوں اور سندھی میڈیا اور سوشل میڈیا پر یہ تاثر مل رہا تھا کہ لواحقین کے معافی کے باوجود بھی کیوں شاہ رخ جتوئی کو نشانہ بنایا جا رہا ہے؟

یاد رہے کہ مقتول نوجوان شاہ زیب کی بہن سے چھیڑ چھاڑ کے بعد ایک ارب پتی باپ کی بگڑی ہوئی اوالاد شاہ رخ جتوئی نے گولیاں چلاکر شاہ زیب کو بڑی بے دردی سے قتل کیا تھا۔ سول سوسائٹی، میڈیا اور ملک کی باشعور عوام کی پر زور اپیل اور احتجاج پر سپریم کورٹ نے ازخود نوٹس لیا جس کے بعد شاہ رخ جتوئی قانون کی گرفت میں آ گیا تھا۔ کچھ عرصہ پہلے شاہ رخ جتوئی اور شاہ زیب کے والدین کے درمیان معاملات طے پا گئے تھے اور انہوں نے شاہ رخ جتوئی کو معاف کر دیا تھا اور کورٹ نے بھی شاہ رخ جتوئی کو اس مقدمے سے بری کر دیا تھا۔ جس کے بعد مسکراتے ہوئے انگلیوں سے فتح کا نشان بناتے ہوتے شاہ رخ جتوئی میڈیا اور سوشل میڈیا پر نظر آئے۔ سول سوسائٹی اور ملک کی باشعور عوام کے دوبارہ سخت احتجاج پر سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے ازخود نوٹس لیا اور شاہ رخ جتوئی دوبارہ اپنے ساتھی سمیت گرفتار ہوگیا۔ یہ کیس اب سپریم کورٹ میں چل رہا ہے۔

اس وقت دلیل یہ دے جا رہی ہے شاہ رخ جتوئی پانچ سال جیل میں ڈیتھ سیل میں رہا ہے اور ورثہ کو انہوں نے کروڑوں روپے خون بہا دے کر خود کو معاف کروایا ہے۔ بقول سہیل میمن صاحب کہ چیف جسٹس نے شاہ رخ کو ہینڈسم بچہ کہہ کے پکارا تھا اور یہ کہ نہ تو شاہ رخ جتوئی کا والد جاگیردار ہے نہ کوئی وڈیرا بلکہ ایک سرمایہ دار ہے اور میڈیا اور سول سوسائٹی اس کو وڈیرا جاگیردار بنانے کی ناکام کوشش کر رہی ہے۔ جس طرح ریمنڈ ڈیوس کو قصاص کے بعد معاف کر دیا تھا اس طرح شاہ رخ جتوئی کو بھی معاف کر دیا جائے کیوں کہ وہ مشکل سے اٹھارہ سال کا تھا جب اس نے درندگی سے شاہ زیب کو قتل کیا تھا۔

سب سے پہلے تو آتے ہیں شاہ رخ جتوئی کے والد سکندر جتوئی پر۔ پوری قوم کو کوئی غرض نہیں کو وہ جاگیردار ہیں یا وڈیرے یا پھر کوئی سرمایہ دار۔ یہ سب کو پتہ ہے کہ وہ جو بھے ہیں بہت پیسے والے اور طاقتور آدمی ہیں جس کے رشتے دار اور دوست احباب سیاستدان بھی ہیں اور وڈیرے جاگیردار بھی۔ وہ سکھر میں ہوں یا کراچی، حیدرآباد میں ان کی کالے شیشوں والی لینڈ کروزرز اور سیکیورٹی گارڈز لوگوں کو دھول چٹاتے ہوئے نکلتے ہیں۔ یہ بات بھی سب کو پتہ ہے کہ جیلوں میں پیسوں اور تعلقات کی بنیاد پر آپ دڈیتھ سیل کو بھی فائیو اسٹارز ہوٹل کا کمرا بنا سکتے ہیں اور یہ ساری سہولیات شاہ رخ جتوئی اور اس کے حواریوں کو ملتی رہی ہیں۔

جیسا کہ سہیل میمن صاحب نے لکھا ہے کہ غلط ماحول کی وجہ سے شاہ رخ جتوئی نے یہ قتل کیا اور وہ عادی مجرم نہیں ہے اس لیے اسے موقع ملنا چاہیے کہ وہ اپنے نئی زندگی کی شروعات کر سکے۔ فرض کریں کہ ہم مان لیتے ہیں کہ یہ سب کچھ خراب ماحول کا اثر تھا اور وہ اب سدھر گیا ہے تو پھر کیوں شاہ رخ جتوئی وکٹری کا نشان بنا کر جیل سے باہر نکلتا ہوا نظر آیا؟ اور کیوں یہ کہا جاتا رہا کہ جیل تو بہادروں کے لیے ہوتے ہیں؟ اور کیوں مبینہ طور پر شاہ رخ جتوئی کا خاندان یہ ڈھنڈورا پیٹ رہا ہے کہ انہوں نے شاہ زیب کے والدین کو کروڑوں روپے اور بیرون ملک میں لاکھوں ڈالر کا فلیٹ دیا ہے؟ اور کیوں سپریم کورٹ میں جھوٹ بولا جاتا ہے کہ وکٹری کا نشان بنانا ان کا بچپنا تھا۔ یاد رہے کہ شاہ زیب کو قتل کرنے کے وقت شاہ رخ جتوئی کی عمر اٹھارہ سال سے زائد تھی اور غور طلب بات یہ ہے کہ ابھی تک نہ شاہ رخ جتوئی نے اور نہ ہی اس کے خاندان نے اس قتل پر شرمندگی کا اظہار کرتے ہوتے میڈیا پر کوئی بیان دیا ہے۔

کیوںکہ جتوئی خاندان اور ان کے سرداروں کی قوم پرستی اور ان کی طاقت کا شاہ رخ جتوئی کو بخوبی اندازہ ہے کہ وہ ایک عام آدمی کو کیڑے مکوڑے کے علاوہ کچھ نہیں سمجھتے ہیں اور ان کے رشتے داروں، دوست احباب، اور سرداروں نے کئی بے گناہ انسانوں کو زمیں برد اور دریا برد کیا ہوا ہے۔ لاڑکانہ کے بھٹو ٹھیکیدار کا بہیمانہ قتل ابھی تک انصاف کو پکارتا ہے جس نے جتوئی خاندان کے لڑکوں کو اپنی لڑکی سے چھیڑ چھاڑ پر روکنے کی جرأت کی تھی اس کو دن دہاڑے گھر کے سامنے قتل کیا گیا تھا۔ یہ بات بھی ریکارڈ پر ہے کہ اس ملک میں اس طرح کے طاقتور لوگ سپریم کورٹ کے ازخود نوٹس پر بھی بڑی مشکل سے قانون کی گرفت میں آتے ہیں۔

دیکھا جائے تو شاہ رخ جتوئی کو سزا اس کے باپ کی شرافت یا سندھی ہونے کی وجہ سے نہیں دی جا رہی ہے اور نہ ہی میڈیا اور سول سوسائٹی کی کوئی ذاتی لڑائی شاہ رخ جتوئی کے باپ سکندر جتوئی سے ہے۔ سول سوسائٹی، میڈیا اور ملک کی باشعور عوام تو معصوم زینب، نقیب اللہ محسود، اسماء اور عاصمہ اور دیگر بے گناہوں کے قاتلوں کو قرار واقعی سزا دلوانے کے لیے بغیر کسی لسانی رنگ اور ذات برادری کے لڑ رہی ہے تاکہ ایک مضبوط اور انصاف پسند معاشرے کی بنیاد رکھی جا سکے۔ کسی کو بھی پیسے والے جاگیرداروں، وڈیروں یا سرمایہ داروں سے کوئی نفرت نہیں ہے نہ ہی کسی کو غریب قاتل سے پیار ہے یہ جنگ تو ظلم اور ظالم کے خلاف ہے جو ہم سب کا دشمن ہے۔

اگر بات ہینڈسم ہونے اور معصومیت کی ہے تو مقتول شاہ زیب، شاہ رخ جتوئی سے زیادہ ہینڈسم، غیرت مند اور پڑھا لکھا نوجوان تھا جس نے اپنی بہن کی آبرو پر جان نچھاور کر کے ایک غیرت مند بھائی ہونے کا ثبوت دیا۔ جہاں تک قصاص کی بات ہے تو کیا ہمارے معاشرے میں ہر کام اسلامی طرز پر ہے؟ اور کیا شاہ رخ جتوئی اور اس کا خاندان اپنی طرز زندگی اسلامی اصولوں کے مطابق گزار رہے ہیں؟ کیوں ہمیں اسلام اور اسلامی قوانین صرف اور صرف اپنے ذاتی مفاد حاصل کرنے کے وقت ہی یاد آتے ہیں؟ اگر قصاص دے کر ریمنڈ ڈیوس کو چھوڑا گیا تھا تو وہ بھی غلط تھا۔ آج بھی لوگ حکومت اور ملکی اداروں کے ادا کردہ اس کردار کو نفرت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ اگر ریمنڈ ڈیوس امریکہ میں قتل کرتا تو وہ کبھی بھی قانون کی گرفت سے نہ بچ سکتا۔ جہاں تک شاہ رخ جتوئی کی رہائی کی بات ہے تو اس کے خاندان نے اس کو چھڑانے کے لیے ابھی تک اربوں روپے خرچ کر ڈالے ہیں۔ یہ تو اللہ بھلا کرے سول سوسائٹی، باشعور عوام، میڈیا اور سوشل میڈیا کا جنہوں نے اس ظلم کے خلاف مظاہرہ کرکے اپنی آواز بلند کی ورنہ تو ایسے طاقتور قاتل کہاں آتے ہیں قانون کی گرفت میں۔

اسی لیے طاقت کے بل بوتے پر قتل کرنے والوں کو عبرت کا نشان بنانا چاہیے تاکہ آئندہ کوئی اور شاہ رخ جتوئی کسی شاہ زیب کو قتل کرنے کا سوچ بھی نہ سکے۔ یہ بات سب جانتے ہیں کہ ملکی قوانین کی کمزوریوں کے باعث کبھی ایسے قاتل قصاص کے بدلے بچ جاتے ہیں تو کبھی مہنگا وکیل کر کے یا ماتحت عدالتوں کے جج خرید کر آزاد ہوتے رہتے ہیں۔ ملک میں ابھی بھی کئی رہزن قاتل روپوش ہیں جن کو قانون کی گرفت میں آنا ہے۔ اگر اس طرح قاتل پیسے دے کر قصاص کا سہارا لیتے رہے تو پھر ہم اس معاشرے کو انصاف پسند، روشن خیال اور خوشحال بنانے میں مکمل طور پر ناکام رہیں گے جو ہماری آنے والے نسلوں کے کے بہت مہلک ثابت ہوگا۔ اس لیے میڈیا اور سول سوسائٹی کے ساتھ ملک کی باشعور عوام کی ظلم و جبر کے خلاف اٹھائی گئی آواز تنقید کا نہیں، بلکہ تعریف اور خراج تحسین پیش کرنے کی مستحق ہے۔


اب مجھے شاہ رخ جتوئی سے ہمدردی ہونے لگی ہے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).