اب مجھے شاہ رخ جتوئی سے ہمدردی ہونے لگی ہے


میں شاہزیب قتل کیس میں مجرموں کو سخت سزا دینے کا حامی رہا ہوں مگر اب مجھے شاہ رخ جتوئی سے ہمدردی ہونے لگی ہے جس کی کئی وجوہات ہیں۔

 یہ کیس 25 دسمبر 2012ء کو اس وقت شروع ہوا جب کراچی ڈیفنس کے علاقہ میں شاہزیب نے اپنی بہن کو چھیڑنے والوں کو منع کیا تو گولی چلا کرشاہ زیب کو قتل کر دیا گیا ۔ قاتلوں میں سندھ کے ایک جتوئی خاندان کا بیٹا شاہ رخ جتوئی اس کے دوست، سراج ٹالپر، سجاد ٹالپر اوردوسرے شامل تھے۔ یہ واقعہ اتنا دردناک تھا کہ ہرطرف سے آواز آئی کہ قاتلوں کو سر عام پھانسی دی جائے۔ مگر2013ء میں دونوں خاندانوں کے درمیان میں “صلح” کی خبر آئی اور مقتول کے خاندان کو 35 کروڑ روپے کی رقم ادا کی گئی اور ساتھ ہی آسٹریلیا میں ایک فلیٹ بھی دیے جانے کی خبر بھی سامنے آئی۔ مقتول کے خاندان نے عدالت میں بیان جمع کروایا کہ انھوں نے ملزمان کو قصاص فی سبیل اللہ معاف کر دیا ہے جس کے بعد عدالت نے چاروں مجرموں کو رہا کر دیا۔

قصاص کے اس طرح کے استعمال پراس وقت کے چیف جسٹس افتخار چودھری صاحب نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے اس صلح کو رد کر دیا تھا۔ پھر پانچ سال سے یہ کیس ٹرائل کورٹ، سندھ ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ میں آگے پیچھے ہو رہا ہے۔

پانچ سال بعد مجھے شاہ رخ جتوئی سے ہمدردی اس بات پر ہو رہی ہے کہ وہ  کوئی عادی مجرم نہیں ہے اور جس وقت یہ واقعہ پیش آیا اس وقت شاہ رخ کی عمربھی بمشکل اٹھارہ سال تھی اور ماضی میں اس کے پروفائل پر کسی کے ساتھ گالم گلوچ تک کا بھی کوئی کیس نہیں تھا۔

دوم یہ کہ پانچ سال سے شاہ رخ جتوئی بھی ڈیتھ سیل میں رہنے کی سزا کاٹ چکا ہے، نگران جج شاہ رخ جتوئی کودیکھنے خود جاتے تھے، خطرناک قیدی قرار دے کر شاہ رخ جتوئی کو امتحان بھی نہیں دینے دیا گیا تھا۔

سوم یہ کہ میڈیا نے شاہ رخ جتوئی کوایک طاقتور سندھی وڈیرے کا بگڑا ہوا ظالم بیٹا قرار دیا۔ کسی نے شاہ رخ جتوئی کو وڈیرے کا بیٹا، کسی نے جاگیردار کا بیٹا تو کسی نے سردار گھرانے کا فرد قرار دیا۔ یہ تینوں باتیں سراسر غلط ہیں۔ شاہ رخ جتوئی کے والد سکندر جتوئی میرے شہر روہڑی۔ سکھر سے تعلق رکھتے ہیں اور نہ تو وہ سردار ہے، نہ جاگیردار اور نہ ہی وڈیرہ، ہاں البتہ سکندر جتوئی ایک سرمایہ دار ضرور ہیں۔ روڈ بنانے کی مشہور کنسٹرکشن کمپنی ڈی بلوچ ان کی ہی ہے جو انہوں نے اپنی چالیس برسوں کی محنت اور تعلقات کی بنا پر قائم کی۔ اس کے علاوہ روہڑی سیمنٹ فیکٹری، حیدرآباد میں سیمنٹ فیکٹری اور سندھی ٹی وی نیوز چینل آواز ٹی وی بھی ان کی ملکیت ہیں۔ میں نے کبھی نہ دیکھا نہ سنا کہ سکندر جتوئی یا ان کے بیٹوں نے روہڑی ۔ سکھر میں کسی کو ستایا ہو یا پھر ان کا کردار کسی ظالم جاگیردار وڈیرے جیسا رہا ہو۔ ایک ہی علاقے کا ہونے کے باوجود سکندر جتوئی سے میری ملاقات کبھی نہیں ہوئی مگر میرے والد عبداللطیف میمن کا جو سپریم کورٹ کے سینئر وکیل ہیں کہنا ہے کہ سکندر جتوئی بہت بھلا انسان اور فقیرمنش طبعیت کا آدمی ہے۔ جس نے کبھی کسی کو نہیں ستایا ۔ اس لیئے یہ بات بالکل درست نہیں کہ شاہ رخ جتوئی کسی بگڑے ہوئے جاگیردار خاندان کا بگڑا ہوا بچہ ہے۔

کچھ دن قبل چیف جسٹس ثاقب نثار نےعدالت میں کہا کہ میں اس ہینڈسم نوجوان کو دیکھنا چاہتا ہوں جس نے گرفتاری کے بعد وکٹری کا نشان دکھایا۔ جس پر شاہ رخ نے کھڑے ہوکر مسکراتے ہوئے کہا کہ وہ میں ہوں اور ایسا کرنا میرا بچپنا تھا ۔

یہ ہی وہ بات ہے جس کا خمیازہ سب بھگت رہے ہیں۔ شاہ زیب بے گناہ جان سے گیا ۔ شاہ رخ جتوئی پانچ سال سے ڈیتھ سیل میں ہے اور دونوں گھرانے اور اس کیس سے متعلق سینکڑوں لوگ برسوں سے انتہائی تکلیف میں ہیں ۔

اس قتل کے پیچھے کوئی خاندانی رقابت، پہلے سے کی گئی پلاننگ یا دیرینہ دشمنی نہیں تھی۔ اس واقعہ کے پیچھے، ڈفینس کراچی کا اپر کلاس کا بگڑا ہوا ماحول، چھوٹی عمر کے لڑکوں کے پاس بے بے حساب دولت کی ریل پیل، چھوٹے موٹے جھگڑوں میں ان کو ڈانٹنے، سمجھانے کے بجائے ان کی سپورٹ کرنا، ان کو لائسنس کی عمر سے پہلے ہی بڑی بڑی گاڑیاں مہیا کرنا، ان کو گائوں کے ان پڑھ ، جاہل جدید ہتھیاروں سے لیس گارڈ رکھ کر دینا، جو ان کی ڈبل کیبن گاڑیوں میں اپنے منہ ڈھاٹوں میں ڈاکوئوں کی طرح چھپائے بیٹھے ہوتے ہیں اوران کو یہ تک پتہ نہیں ہوتا کہ جھگڑا گولی چلانے کی نوبت کا ہے کہ نہیں اور اسی کلاس کے سیاستدانوں، جاگیرداروں ، سرداروں، بیورو کریٹس کے بچوں کے ساتھ دوستی جن کی ملاقات کا موضوع کبھی بھی اعلیٰ تعلیم یا علمی ادبی بلندی کے حصول کی کوشش نہیں رہا۔ شاہ رخ جتوئی ایسے ہی ماحول سے مار کھا گیا ۔

 میں پانچ سال میں پہلی مرتبہ اس کیس پر اپنا قلم اٹھا رہا ہوں۔ جتوئی خاندان کو بھی چاہیے کہ بڑے بڑے وکیل کرنے سے بہتر ہے کہ شاہ رخ کی تربیت کریں کہ عدالتوں میں کس طرح اٹھا بیٹھا جاتا ہے، کرمنل کیسز میں وکٹری کا نشان نہیں بنایا جاتا۔ گزشتہ دنوں ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج ضلع سائوتھ کراچی کی عدالت میں اس وقت منظر دیکھنے کے لائق تھا جب شاہ رخ جتوئی کی ضمانت ہو رہی تھی۔ وہی طمطراق، شاہ رخ جتوئی کے دوستوں، رشتیداروں کی کالے شیشے والی بڑی بڑی گاڑیاں، لوفر قسم کے ہتھیاربند گارڈز، بازو جھٹک کر چلنا اور کسی نے سندھی زبان میں یہ جملا تک کہہ ڈالا کہ ـ جیل مڑس ماڑھون لاءِ ھوندا آھن ۔ مطلب کہ جیل بہادروں کے لئے بنی ہے۔ اس دن سیشن کورٹ میں جو ماحول بنا اس پر سب کہہ رہے تھے کہ ان لوگوں نے کچھ نہیں سیکھا، شاہ رخ جتوئی آزاد نہیں ہونا چاہیئے۔ حالانکہ شاہ رخ جتوئی کا خود کا قصور اس میں کم تھا اور یہ سب ماحول ان لوگوں نے بنایا جو شاید شاہ رخ کی ضمانت کا سن کر پانچ سال میں پہلی مرتبہ اس سے ملنے اور دوستی نبھانے آئے تھے۔

یہ کیس شاہ زیب کے خاندان اور شاھ رخ جتوئی کے خاندان کے بجائے اب سول سوسائٹی، میڈیا اور شاہ رخ جتوئی کے درمیان چل رہا ہے۔ سپریم کورٹ آف پاکستان نے بھی سول سوسائٹی کی درخواست پر شاہ رخ کو دوبارہ گرفتار کرنے کا حکم دیا ہے۔ حالانکہ شاہ زیب کے والد تو شاہ رخ کی ہر عدالتی شنوائی پر عدالت میں جتوئی خاندان کے ساتھ آتے ہیں اور ہر مرتبہ کہتے ہیں کہ ہم نے شاہ رخ کو معاف کر دیا ہے۔

جتوئی خاندان کو بھی بڑے وکیل کرنے، قانونی پیچیدگیوں میں پڑنے کے بجائے عدالت میں اس کیس کو انسانی ہمدردی کی بنیاد پر سننے کی درخواست کرنی چاہیئے اورعدالتی کارروائیوں کے دوران اس کیس کو لو پروفائیل رکھ کے شاہ رخ کے شو باز قسم کے دوستوں اور رشتے داروں کو عدالت سے دور رکھا جائے اور شاہ رخ جتوئی کو بھی اپنے اور اپنے خاندان کے اوپر لگے اس داغ کو دھونا ہوگا کہ وہ کوئی عادی مجرم ہے۔ سوشل میڈیا کے ذریعے شاہ رخ ایسا کر سکتا ہے اس کی طرف سے شاہ زیب کے خاندان اور ان سب سے جن کی بھی اس واقعے میں دل آزاری ہوئی ہے معافی مانگنے کے عمل سے شاہ رخ کا قد کم نہیں ہوگا بلکہ معاملات سلجھ جائیں گے اس کے دل پر سے بھی شاید ماں باپ کے اکلوتے بچے کے خون کا بوجھ ہلکا ہوجائے ۔

اس کے ساتھ سول سوسائٹی بھی اب جان لے کہ اول تو یہ کسی سردار، جاگیردار ، وڈیرے کا کیس نہیں ہے جیسا کہ پہلے دن سے انہوں نے شور مچایا ہوا ہے، دوئم اس کیس میں فریقین ایک دوسرے کی معافی تلافی کر چکے۔ اور سوئم شاہ رخ بھی پانچ سال جیل میں گذارچکا اب اس کو ایک موقع ملنا چاہیئے۔ اگر سول سوسائٹی ملک کے قصاس اور دیت کے قانون کو نہیں مانتی تو انہیں ریمنڈ ڈیوس کیس کے ساتھ ساتھ سینکڑوں ایسے دوسرے کیسوں میں بھی درخواستیں دائر کرنی چاہییں جو روزانہ ہمارے ملک میں قصاص اور دیت کے تحت ختم ہوتے ہیں۔


قاتل شاہ رخ جتوئی سے اب ہمدردی کیوں؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments